ملک میں آج کل صرف ایک چیز چل رہی ہے اور وہ ہے لاک ڈائون‘ اس لاک ڈائون کی وجہ سے مسلسل گھر میں ہوں اب تو یوں لگنے لگا ہے کہ لاک اپ میں ہوں یعنی حوالات میں ہوں۔ کل صبح کی بات ہے بیگم کچن میں ناشتہ تیار کر رہی تھی۔بچے اپنے اپنے موبائلوں کی بیٹری ختم کر کے سو رہے تھے پرانے وقتوں کے بچے گھوڑے بیچ کر سویا کرتے تھے۔ اس زمانے میں گھر گھر گھوڑے پائے جاتے تھے جنہیں سونے سے پہلے بیچ دیا جاتا تھا۔ ہمسائے آپس میں خریدوفروخت کر لیا کرتے تھے آج کل گھوڑوں کی جگہ موبائلوں نے لی لی ہے۔ ہاں تو صاحب میں نے موقع غنیمت جان کر اپنے دوست ملک صاحب کو فون کیا کہ قرنطینہ میں دوست ہی دوست کے کام آتا ہے ملک صاحب کی بجائے ان کی بیگم کی آواز آئی’’ہیلو!‘‘ بھائی میں…ہاں ہاں بھابی جان میں نے آپ کی آواز پہچان لی ہے۔ کہیے کیسے ہیں؟ بھابی‘ میں بالکل خیریت سے نہیں ہوں۔ مصیبت میں انسان کو جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔کئی دن سے آپ لوگوں کی یاد آ رہی تھی۔ سوچا فون ہی کر لوں۔ کیسے ہیں آپ؟ ملک صاحب کیسے ہیں؟ کہاں ہیں؟ ’’جی قسطنطنیہ میں ہیں۔‘‘ ’’اچھا ترکی گئے ہوئے ہیں؟ بتا کر کیوں نہیں گئے’’نہیں شاہ جی‘ ترکی کیا لینے جانا تھا انہوں نے یہیں ٹھوکر نیاز بیگ میں ہیں۔ تو پھر قسطنطنیہ !اچھا قرنطینہ میں ہیں۔ بات تو کروائیں‘ نہا رہے ہیں۔ باہر نکلتے ہیں تو آپ کو فون کر لیں گے۔ جی بہتر‘ میں نے فون بند کیا تو بیگم کی آواز آئی۔ ناشتہ لگ گیا ہے۔ آ جائو‘ میں ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھا۔ ہماری ڈائننگ ٹیبل کا طول تقریباً آٹھ فٹ ہے۔ آمنے سامنے دونوں سروں پر بیٹھے ہوئوںکو اگر فرداً فرداً ڈیڑھ فٹ کی رعایت دی دی جائے تو ان کے درمیان تقریباً گیارہ فٹ تو بن ہی جاتا ہے گویا کورونا کی ایک کڑی شرط پوری ہو جاتی ہے۔ چنانچہ بیگم نے میز کے دونوں سروں میں دو کرسیاں اسی سکیم کے تحت رکھی ہوتی ہیں۔ اپنے حصے کی کرسی پر میں بیٹھ گیا۔ سامنے بیگم بیٹھ گئی۔ ناشتہ اور گفتگو کا بیک وقت آغاز ہو گیا۔‘‘نازو! میں سوچ رہا ہوں پہلے ہمارے گھر کی دیوار پر کوئی کوا کائیں کائیں کرتا تھا تو کوئی مہمان آ جاتا تھا اور اگر وہ کافی دیر تک کائیں کائیں کرتا یا اپنی اہلیہ کو بھی ساتھ لے آتا اور دونوں مل کر کائیں کائیں کرتے تو دو اور بعض اوقات تین مہمان بھی آ جاتے تھے۔اب کئی دنوں سے کوا نہیں آیا۔ کہیں وہ بھی تو اپنے گھونسلے میں قرنطینہ میں نہ بیٹھ گیا ہو۔ کوا گھونسلا نہیں بنایا کرتا۔ کسی دوسرے پرندے کے گھونسلے میں انڈے دیتا ہے جب اس کے کالے کلوٹے بچے نکلتے ہیں تو وہ پرندہ انہیں اپنے بچے سمجھ کر پالتا پوستا ہے۔کوا دور سے اپنے بچوں کو دیکھتا رہتا ہے۔ بچے بھی سیانے ہوتے ہیں۔ اڑ کر اپنے حقیقی ماں باپ کے پاس آ جاتے ہیں اور ان کی رضاعی ماں منہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔یار نازو۔ جانوروں کے بارے میں تمہاری معلومات قابل رشک ہیں تم نے بی ایس سی میں زوالوجی پڑھ رکھی ہے نا۔ اس لئے اور ہاں تم نے اس حقیقت پر روشنی نہیں ڈالی کہ اتنے دنوں سے کوا کیوں نہیں آ رہا۔ میں نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا میرے سوال کے جواب میں نازو نے بھی چائے کا گھونٹ بھرا۔ خیر تو ہے آج تمہیں کوے کی اتنی یاد کیوں ستا رہی ہے؟‘‘ یہ جو تم نے بتایا ہے کہ کوا اپنے بچے دوسروں کے گھر میں انہی کے خرچے پر پالتا ہے میرے لئے بالکل نئی بات ہے ویسے بالکل نئی بھی نہیں ہے۔ ہمارے حکمرانوں کا رویہ بھی تقریباً ایسا ہی ہے یہ جو میاں فیملی ہے اور زرداری فیملی ہے…‘‘ میں نے تمہیں کہا تھا کہ سیاست پر بالکل بات نہیں کرنی کوے کی بات ہو رہی تھی کوے تک ہی محدود رہو۔ سوری نازو سوری ویری سوری تم نے پوچھا تھا کہ مجھے کوے کی یاد کیوں ستا رہی ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ کوا بولتا تھا تو کوئی مہمان بھی آ جاتا تھا۔ تمہاری کوئی سہیلی آ جاتی تھی۔تم اس سے باتوں میں لگ جاتی تھیں تو میں اپنے کسی دوست کو فون کر لیتا تھا یا کوئی کتاب پڑھنے لگ جاتا تھا۔ اس لئے تمہیں میری سہیلیاں پسند ہیں کہ ان کے آنے سے تمہاری جان چھٹ جاتی تھی۔نہیں نہیں۔ایسی کوئی بات نہیں تمہاری سہیلیاں مجھے پسند تو ہیں لیکن اس وجہ سے نہیں جو تم نے بتائی ہے اور کون سی وجہ ہے انہیں پسند کرنے کی؟‘‘وہ جو کہا جاتا ہے نا کہ دوست کا دوست بھی دوست ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح بیوی کی سہیلی بھی…اوہو!بات دوسری طرف نکل گئی۔ بھئی صاف بات ہے جو شخص بیوی سے محبت کرتا ہے اسے بیوی کی ہر اس چیز سے محبت ہوتی ہے جس سے بیوی محبت کرے، چلو چھوڑو۔ مجھے پتہ ہے تم انسانوں سے پیار نہیں کرتے بلکہ ان میں کیڑے نکالتے رہتے ہو۔ کیڑے ڈالتے رہتے ہو اور نکالتے رہتے ہو یہی تمہارا کام ہے۔ طنزو مزاح کے کام میں کیڑے بہت مددگار ہوتے ہیں۔میں لوگوں کو ہنساتا بھی تو ہوں۔اچھا ہنساتے بھی ہو؟ نئی بات سن رہی ہوںکبھی مجھے بھی ہنسایا کرو‘‘ واہ تم نے تو وہی بات کی جو اس فلمی گیت میں ہے۔ کبھی میری گلی آیا کرو حالانکہ وہ جس لڑکے سے کہہ رہی تھی وہ تو رہتا ہی اسی گلی میں تھا۔جائو تم بھی اس گلی میں رہائش رکھ لو جس گلی میں وہ رہتی ہے جس کے لئے الٹے سیدھے شعر لکھتے رہتے ہو۔ تمہیں میرے شعر اس لئے الٹے سیدھے لگتے ہیں کہ تم نے سائنس پڑھی ہے نازک جذبات کا ادراک تمہارے بس کی بات نہیں۔ادراک سے یاد آیا ادرک ختم ہے۔ لہسن اور پیاز بھی آخری دموں پر ہے۔میرا خیال ہے کہ کورونا بھی آخری دموں پر ہے کورونا ختم ہو تو بندہ اشیائے خور و نوش کی طرف دھیان دے۔ میں تمہیں بتا رہی ہوں یہ کائیں کائیں نہیں کرے گا ایسا تو نہ کہو نازو تمہیں کیسے پتہ ہے کہ یہ کوا کائیں کائیں نہیںکرے گا۔دیکھو بات یہ ہے کہ کائیں کائیں کرنے والے پرندے دیوار پر بیٹھا کرتے ہیں کرسی پر نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پرندہ بڑا سیانا جانور ہے اسے علم ہے کہ کورونا کی وجہ سے مہمانوں کی آمدورفت بند ہے۔ اس لئے بلاوجہ کائیں کائیں کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ نازو نے بالکل درست کہا تھا۔ وہ خبیث کوا کائیں کائیں کئے بغیر ہی اڑ گیا۔ چنانچہ اب ہمیں مہمانوں کے بغیر ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔ ٭٭٭٭٭