کورونا کی مہلک وبا سے پاکستان میں مزید 43افراد جاں بحق ہو گئے ہیں ،اس کے ساتھ ہی اموات کی مجموعی تعداد 13324 تک جا پہنچی ہے۔ دوسری جانب کورونا کے بڑھتے کیسز پر قابو پانے کے لئے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر نے ملک کے 9شہروں اور مظفر آباد کے تعلیمی اداروں میں 15تا 28 مارچ تعطیلات کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ باقی صوبے اپنی صوابدید کے مطابق فیصلے کریں گے۔ اولاً کورونا چین میں پایا گیا لیکن چین نے فی الفور حفاظتی انتظامات کر کے اسے پھیلنے سے روکنے کی کوشش کی لیکن یہ وائرس بے قابو ہو کر دنیا بھر میں پھیل گیا۔ اس وقت امریکہ سے لے کر یورپی یونین تک اور عرب امارات سے لے کر وسطی ریاستوں اور پاک و ہند میں یہ تباہی پھیلا رہا ہے۔ پاکستان نے شروع میں لاک ڈائون کیا لیکن شہروں ‘بازاروں‘ مارکیٹوں ‘ گاڑیوں اور کاروبار کی بندش سے غریب اور متوسط طبقے کے ہاں فاقوں نے ڈیرے ڈال لئے۔ حکومت نے کافی سوچ و بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ اگر ہم نے مسلسل لاک ڈائون جای رکھا، تو کورونا سے اتنے لوگ نہیں مریں گے جتنے بھوک سے مر جائیں گے، جس کے بعد حکومت نے ایس او پیز کا اجرا کر کے لاک ڈائون میں بتدریج کمی کی۔ کاروبار‘ٹرانسپورٹ اور مارکیٹوں کو بھی ایس او پیز کی پابندی کے ساتھ کھولنے کی اجازت دے د ی گئی۔ جب کیسز کنٹرول میں آ گئے تو حکومت نے سکولز اور کالجز بھی کھولنے کا اعلان کر دیا۔ بعدازاں حکومت نے یکم مارچ سے سکولز کو تمام تر طلبا کے ساتھ کھولنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی سرکاری دفاتر اور تجارتی مراکز میں 50فیصد عملے کی پابندی ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ اس کے علاوہ 15مارچ سے سینما ہالز‘ مزارات ‘ انڈور شادی کی تقریبات کی بھی اجازت دیدی۔پی ایس ایل کے جاری میچز میں شائقین کی تعداد 20سے بڑھا کر 25فیصد کرنے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ لیکن اعلان کے چند دنوں بعد ہی عوام نے ایس او پیز کی خلاف ورزی شروع کر دی۔ جس کے باعث کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ پہلے عوام نے وبا کے خوف سے ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنایا تھا۔ اسی کے باعث کورونا کیسز کنٹرول میں رہے۔ اگر عوام اب بھی ایس او پیز پر عمل کرتے‘ روز مرہ کے معمولات پابندی کے ساتھ نمٹاتے ،ایک دوسرے سے فاصلہ رکھتے ،گلے ملنے سے اجتناب کرتے ،گھروں اور فارم ہائو سز پر پارٹیوں سے گریز کرتے تو حکومت کو شایدکسی قسم کی پابندی عائد کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی،عوام معمول کے مطابق کام کرتے رہتے اور کاروباری سرگرمیاں جاری رہتیں لیکن اس کی خلاف ورزی پر حکومتی مشینری کو حرکت میں آنا پڑتا۔ اس وقت بازاروں‘ مارکیٹوں‘ ہوٹلز، ریسٹورنٹس لاری اڈوں اور مسافر بسوں سمیت یونیورسٹیز اور کالجز میں بھی ایس او پیز پر سرے سے عملدرآمد نہیں ہو رہا۔اگر ان جگہوں پر کیسز سامنے آئیں گے تو لامحالہ حکومت انھیں بھی بند کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔جب حکومت پابندی عائد کرے گی، تو یہی لوگ احتجاج کرتے سڑکوں پر نکلیں گے حالانکہ انہیں ابھی سے ایس او پیز پر عملدرآمد یقینی بنا کر گاہکوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانا چاہیے۔ اگر گاہک محفوظ ہونگے، تو ہی ان کا کاروبار چلے گا۔ خدانخواستہ اگر وائرس بڑھتا گیا تو حکومت لاک ڈائون پر مجبور ہو جائے گی، اس لئے کاروباری ا حضرات اپنے ہاں ایس او پیز کی پابندی یقینی بنائیں تاکہ مشکل کی اس گھڑی میں ہم سرخرو ہو سکیں۔حکومت نے ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کے باہر بیٹھ کر کھانے اور پارسل کی اجازت دے رکھی ہے۔ ہوٹلز مالکان اس میں ایس او پیز کی پابندی یقینی بنائیں تاکہ ان کے کاروبار کھلے رہیں۔ خدانخواستہ اگر ماضی جیسی صورتحال پیدا ہو گی تو پھر مسائل پیدا ہونگے۔ ابھی صرف دس شہروں میں پابندی کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ وہ شہر ہیں جہاں پر کورونا کیسز بڑھ رہے ہیں۔ دیگر شہروں کے کاروباری طبقے اور تعلیم سے وابستہ افراد کو اپنے اپنے اداروں میں ایس او پیز کی پابندی یقینی بنانا ہو گی کیونکہ حکومت بڑی باریک بینی کے ساتھ ان شہروں کا بھی جائزہ لے رہی ہے۔ اس لئے احتیاط کو لازمی بنائیں ۔اس وقت باقی شہروں میں کورونا کنٹرول میں ہے، ہم تھوڑی سی مزید احتیاط کر کے اپنے آپ کو اہل وعیال اور دوست احباب کو اس وائرس سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر بے احتیاطی کی گئی تو پھر مسائل پیدا ہو ںگے۔ لاہور میں 621نئے مریض سامنے آئے ہیں۔ ضلعی حکومت کو ان علاقوں میں جہاں سے کیسز سامنے آ رہے، وہاں فی الفور لاک ڈائون کر دینا چاہیے تاکہ کیسز بڑھنے سے بچ سکیں۔ گو حکومت نے بزرگوں کو ویکسین بھی شروع کر دی ہے، اگر اس کے ساتھ نئے مریضوں کو بھی ویکسین لگائی جائے، تو انہیں جلد صحت مل سکتی ہے۔ جن لوگوں نے ویکسین لگوائی ہے وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ یہ دوائی محفوظ ہے۔ کسی قسم کا ری ایکشن نہیں ہے، اس لئے عوام ایسے افراد کی باتوں پر کان مت دھریں ،جو ویکسین کے خطرات بارے پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں نے ماضی میں پولیو کے بارے جھوٹی افواہیں پھیلائیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج بھی ہمارے ملک میں پولیو وائرس موجود ہے۔ بیرونی دنیا ہمیں آج بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھتی ہے۔ لہٰذا عوام افواہوں پر کان دھرنے سے گریز کریں اور فی الفور ویکسین لگوا کر اپنے آپ کو اس موذی وائرس سے محفوظ رکھیں۔حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ویکسین کے بارے افواہوں کی تردید کرے تاکہ لوگوں میں شعور پیدا ہو ،وہو ،وہ ویکسین لگوانے سے گریز نہ کریں اور کورونا کی کی موجودہ صورتحال پر قابو پایا جا سکے۔