کورونا خطرناک انداز میں پھیلتا جا رہا ہے۔ اس وقت حکومت کورونا کے پھیلائو کا سارا الزام لوگوں پر دھر رہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ حفاظتی تدابیر تو خود ہی لوگوں نے اپنے اوپر نافذ کرنا تھیں۔خود اس بات کا اہتمام کرنا تھا کہ ہم نے ہجوم میں نہیں جانا۔ ماسک پہننا ہے دستانے پہننے ہیں بس یہی سوچ کر سرکار نے سب کچھ کھول دیا اور ساری ذمہ داری عوام پر ڈال دی۔ خطرناک وبا کے دنوں میں فیصلہ سازی کرتے ہوئے فیصلہ کرنے والوں کو اپنے ملک کے لوگوں کی نفسیات اور ان کے شعور کی سطح کا اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ لوگوں میں ابھی اتنا شعور نہیں ہے کہ وہ اس نہ نظر آنے والے وائرس کی خطرناکی کو سمجھ سکیں اور پاکستانی عوام کی نفسیات بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ خطروں کے کھلاڑی ہیں۔ بغیر ہیلمٹ کے موٹر سائیکل چلانا، جس سواری پر دو لوگ بیٹھ سکتے ہوں اس پر پورے پورے خاندان کو بٹھا کر سڑکوں پر موٹر سائیکل اڑائے پھرنا۔ سردیوں میں جب گیس کا پریشر کم ہو تو کمپریسر کے استعمال کا انتہائی خطرناک کام کرنا، جو کسی بھی وقت پھٹ کر نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستانی جن حالات میں رہتے ہیں یہ خطرروں کے کھلاڑی ہیں۔ اس نفسیات کو سمجھ کر اگر سرکار کورونا کے حوالے سے فیصلے کرتی تو یقینا لاک ڈائون نرم کر کے ہر ذمہ داری عوام پر ڈال کر بری الذمہ نہ ہو جاتی بلکہ اس لاک ڈائون نرم کرنے کے ساتھ چیکنگ سپرویژن اور جرمانوں کا ایسا نظام بناتی کہ لوگوں کی بازاروں مارکیٹوں میں آمدو رفت کو باقاعدہ کنٹرول کیا جا سکتا۔ بڑے بڑے بازاروں میں جہاں عید کا رش بڑھنے کا امکان تھا وہاں بازاروں کے داخلی اور خارجی راستے بنائے جاتے۔ ان داخلی راستوں پر چیکنگ کا نظام ہوتا اور اتنے ہی لوگوں کو بازار کے اندر جانے دیا جاتا جس سے بھیڑ نہ ہو۔ آغاز میں جب کورونا کا خوف بہت زیادہ تھا ایک بڑے سٹور نے ایسا ہی نظام بنایا ہوا تھا۔بس گاہکوں کی مخصوص تعداد سٹور کے اندر جا سکتی تھی۔باقی باہر قطاروں میں کھڑے ہو کر صبر سے اپنی باری کا انتظار کرتے۔یہ جو کورونا ٹائیگرز کی تعریفیں کی جا رہی ہیں یہ بھی وائرس کی طرح کوئی نہ نظر آنے والی مخلوق ہیں۔ ابھی تک اس مخلوق کو ہم نے تو کہیں نہیں دیکھا۔سنا ہے کہ 25لاکھ کورونا ٹائیگرز پاکستان میں رجسٹرڈ ہو چکے ہیں اور کہا یہ جا رہا تھا کہ یہ رضا کار لوگوں لاک ڈائون میں راشن بھی پہنچائیں گے اور ان کو وبا کے حوالے سے رہنمائی کریں گے۔ بازاروں مارکیٹوں میں پہرہ دیں گے تاکہ ہجوم نہ ہو اور لوگ لاک ڈائون کی نرمی میں خریداری کرتے کرتے سماجی فاصلوں کو پامال نہ کریں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ کورونا ٹائیگرز والے بیانات بھی صرف کھوکھلے بیانات ہی ثابت ہوئے۔کورونا ٹائیگر فورس ہر ہاتھ نبھانے کے ساتھ کے نعرے کے ساتھ ایک ہائی پروفائل تقریب میں لانچ کی گئی۔ وزیر اعظم نے 12مئی 2020ء کی ایک تقریب میں بتایا کہ کورونا ٹائیگر فورس کی رضا کارانہ سرگرمیوں کو ضلعوں تحصیلوں اور یونین کونسلوں کی سطح تک پھیلا دیا جائے گا۔ یہ رضا کار کورونا ریلیف ٹائیگر فورس کہلائیں گے۔لوگوں کو گھروں میں راشن پہنچائیں گے بلکہ وزیر اعظم حساس پروگرام میں اپنی خدمات انجام دیں گے۔ فرمایا گیا کہ اگلے ہفتے میں کورونا ریلیف ٹائیگر فورس پنجابذ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں آپریشنل ہو جائے گی اور لگتا یوں ہے کہ وہ ہفتہ آج تک آیا ہی نہیں ۔ آج تک ہم نے اس نام نہاد ریلیف فورس کو کہیں کام کرتے نہیں دیکھا۔ 14مئی کو برطانیہ کے اخبار دی ٹیلی گراف نے سرخی جمائی۔ pakistan Recruits a Covid-19 Tiger Force to monitor social distancing اس مضمون میں غیر ملکی اخبار نے پاکستانی وزیر اعظم کے اس شاندار آئیڈیا کی دل کھول کر تعریف کی کہ لاکھوں رضا کار اس وبا کے موسم میں غریبوں کے گھروں پر امداد پہنچائیں گے اور بیماری کا شعور اجاگر کریں گے۔!میں حیران ہوں کہ ہم بھی کیسے فنکار لوگ ہیں کہ غیر ملکی جھوٹی تعریفیں سمیٹ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ٹائیگر فورس نے دعوئوں اور بیانات کے مطابق محض پچاس فیصد بھی کام کیا ہوتا تو کورونا کے پھیلائو کی صورت یہ نہ ہوتی جو آج ہے۔ یہ کورونا ٹائیگر فورس وائرس کی طرح ہمیں کہیں دکھائی نہیں دی بازاروں‘ مارکیٹوں میں عید کی شاپنگ کے نام پر کھوے سے کھوا چلتا رہا۔ کسی ٹائیگر نے آ کر اس بے شعور عوام کو سماجی دوری کا درس دیا نہ ہی سخت لاک ڈائون کے دنوں میں کسی نادار کے دروازے پر وزیر اعظم کے ان ٹائیگروں نے راشن بہم پہنچایا۔ٹائیگر فورس کا اعلان محض ایک سیاسی سٹنٹ ثابت ہوا۔ وقتی واہ واہ۔ حاصل کرنے کی ایک بے فائدہ کارروائی۔ صورت حال یہ ہے کہ کورونا قابو میں نہیں آ رہا اور کورونا ریلیف ٹائیگر فورس سوائے عثمان ڈار کے شہر سیالکوٹ کے کہیں کسی کو دکھائی نہیں دی اور ہمارے وزیر اعظم صاحب کل پھر اسی فورس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے جو صرف انہیں اور عثمان ڈار کو دکھائی دیتی ہے۔ عوام ابھی تک اس کے دیدار سے محروم ہیں۔! ٭٭٭٭٭