اس وقت ہمارے دِل کورونا وائرس کے خوف سے بھرے ہوئے ہیں۔ایک درد سینے کے بیچ اُٹھتا ہے اور بدن پر محیط ہوتا چلا جاتا ہے۔ہمارے ہاتھ ،ہمارے ہاتھ نہیں رہے،یوں لگتا ہے کہ ہر ہاتھ کورونا کے قبضہ میں آچکا ہے۔ہاتھوں سے چہرے کو چھونے کی کوشش کریں تو گھبراُٹھتے ہیں۔ذرا سی چھینک آئے تو کانپ اُٹھتے ہیں۔آخر یہ وائرس ہماری جان کب چھوڑے گا؟ہر ذہن یہی سوچتا پایاجاتا ہے۔یہ وائرس ہماری جان جلد چھوڑ سکتا ہے۔لیکن ہم سب کو اس کے خلاف صف آراء ہونا پڑے گااوربہت تکنیکی بنیادوں پر اس کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ کورونا سے جنگ ریاست تنہا نہیں جیت سکتی،نہ ہی افراد تن تنہا اس کے ساتھ لڑکر فتح مند ہوسکتے ہیں۔ہمیں اتحاد ،شراکت داری اورایک دوسرے سے تعاون کی ضرورت ہے۔اب یہ موقع نہیں کہ اس پہلو پرکہ ہم سے کوتاہیاں کہاں ہوئیں؟بحث کرکے وقت ضائع کرتے رہیں،ضرورت اس اَمر کی ہے کہ لمحۂ موجود میں کیا کرنا ہے؟اس نادیدہ دُشمن کو پسپا ئی پر مجبور کرنے کے لیے حکمتِ عملی کیا وضع کرنی ہے؟پر غوروفکر کرکے فوری طورپر عمل پیرا ہونا ہو گا۔ہمارے پاس اب بھی وقت ہے کہ ہم بہتر تدبیر کرکے ،اس سے جلد چھٹکارا پاسکتے ہیں۔ فی الفور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟فی الفور ریاست کو چاہیے کہ کورونا وائرس سے متعلق خوف ختم کرے ،وہ خوف جو ریاستی پالیسوں کی بدولت پیداہواہے۔یہ خوف کئی طرح کا ہے،اس خوف نے لوگوں کے حوصلوں کو توڑا ہے۔ یہ خوف ہی کا نتیجہ ہے کہ کورونا سے متاثرہ شخص ریاست کو اپنی بیماری سے متعلق نہیں بتاتابلکہ اس کو چھپاتا ہے اور اس چھپانے کے عمل میں وہ اپنی زندگی سمیت کئی زندگیوں کوخطرے میں ڈال دیتا ہے اور یہ وائرس مقامی آبادی میں منتقل ہورہا ہے۔حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ مریض خود کو ہسپتال تک کیوں نہیں لاتا؟اس لیے کہ وہ سمجھتا ہے کہ ہسپتال میں گیا تو بے یارومددگار ہو جائے گا۔نہ اس کا کوئی عزیز رشتہ دار اس کو مل سکے گا اور نہ ہی وہاں بہتر طریقہ علاج میسر رہے گا،اگر خدانخواستہ موت واقع ہوگئی تو قریبی عزیز بھی جنازے میں شرکت نہیں کرسکے گا،گذشتہ روز اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز نے درست مشورہ دیا کہ کورونا سے فوت ہوجانے والے شخص کے جنازہ میں اُس کے قریبی عزیزوں کو شرکت کی اجازت دی جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ لوگوں کے اندر اعتماد پیداکریں کہ ہسپتالوں میں ان کا مکمل خیال رکھا جائے گایا پھر اُن کے گھروں کو جہاں مریض ہو ،قرنطینہ میں بدل دیا جائے۔حکومت کو چاہیے کہ سکول و کالج کے اساتذہ جو اِن دِنوں چھٹیوں میں ہیں ،کی مدد لے ،وہ اپنے اپنے علاقے میں کورونا سے متعلق خوف کی فضا کو ختم کرنے میں حکومت کی مد د کریں اور لوگوں کو یہ یقین دلائیں کہ یہ بیماری خطرناک ضرور ہے ،مگر اس سے بچنا آسان ہے۔یہ وائرس انسان سے زیادہ طاقت ور نہیں۔ حکومت کو اور مقامی انتظامیہ کو ایک اور کام کرنے کی ضرورت ہے ،یہ کام شہروں کی درست معلومات کا پورٹل قائم کرنا ہے۔جو شہر زیادہ خطرے کی زَد پر ہیں ،وہاں معاملات کو مختلف طریقے سے ڈیل کیاجائے اور جو شہر خطرے کی زَد میں نہیں ہیں اور جہاں اللہ کے کرم سے اس وقت تک کوئی مریض نہیں ،اُن شہروں کو ذرا مختلف انداز میں ڈیل کیا جائے،جب تمام شہروں کو ایک طرح ڈیل کیاجائے گا،جیسا کہ اس وقت کیا جارہا ہے ،تو بہت زیادہ خوف اور غیر یقینی پیدا ہوگی ،جو کورونا سے لڑنے میں ہماری قوت کو متاثر کرے گی۔اس وقت ہمارے بہت سارے شہر ایسے ہیں ،جہاں کورونا کا کوئی مریض نہیں ہے،مگر وہاں بھی خوف اُسی نوعیت کا ہے ،جیسا متاثرہ شہر کا ہے۔ اس وقت پاکستان کے عوام کو اپنے نمائندوں کی اشد ضرورت ہے۔ہر ایم این اے ،ایم پی اے کی ذمہ داری ،اس وقت سب سے زیادہ ہے۔اِن رہنمائوں کو اپنے اپنے حلقہ میں رہنا چاہیے اور لوگوں سے ٹیلی فونک رابطہ رکھنا چاہیے اوراس بات پر نظررکھیں کہ اُن کے حلقہ میں کتنے اس وبا کے مریض ہیں ،کتنے لوگ مشتبہ ہیں اور کتنے لوگ ایسے ہیں ،جن کو خوراک کی ضرورت ہے،نیز یہ کہ سوشل گیدرنگ نہ ہونے دیں۔اُن کے لیے ایسا کرنا بہت آسان ہے۔یہ رہنما اگر متحرک ہوجائیں اور چنددنوں کے لیے اپنے حلقے سے لوگوں کو بلاضرورت باہر آنے اور جانے مت دیں تو اس کے بہت اچھے رزلٹ نکلیں گے۔اس کے لیے وہ مقامی انتظامیہ کی مدد لیں۔یہ رہنما اپنے اپنے علاقے میں قرنطینہ سینٹر بنوائیں اور خود ان کی نگرانی کریں ،اس طرح مریضوں کااعتماد بھی بحال رہے گا اورجن کو مدد کی ضرورت ہے ،وہ خود کوبے یارومددگار نہیں سمجھیں گے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ ووٹ لے کر ایوانوں میں پہنچنے والے اس وقت اپنے ووٹرز کی مدد پر غیر حاضر ہیں۔ ساہیوال کی انتظامیہ نے ،اس وبا سے نمٹنے کا ایک جامع طریقہ کار اپنا یا ہے ،اس ضمن میں حکومت اور دیگر شہروں کی انتظامیہ ڈی سی ساہیوال ذیشان جاوید سے رابطہ کرکے رہنمائی لے سکتی ہے۔اس وقت ہمیں ذہین لوگوں کی مدد درکار ہے،اس کے ساتھ ساتھ فوری عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ہمارے ایک دوست کے بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ ’’برے وقت کا انتظار مت کرو،اُس سے نمٹنے کا انتظام کرو‘‘۔ اگر ہمارے ہاں بلدیاتی نظام ہوتا اور اقتدار نچلی سطح پر میسرہوتا تو یقینی طورپر ہمارے پاس اس وبا پر قابو پانے کی بہت ہی مربوط اور کامیاب حکمتِ عملی ہوتی۔کونسلر سطح کے رہنما اپنے گائوں ،بستی ،محلے اور علاقے کے ہر فرد سے واقف ہوتے ہیں ،ان کو خبر ہوتی ہے کہ کون سا خاندان معاشی طورپر کمزور ہے اور اُس کی مددکے لیے کن مقامی لوگوں سے تعاون لیا جاسکتا ہے۔یہ کونسلر سطح کے رہنما اس وقت بہت زیادہ بااثر ثابت ہوسکتے تھے اور انتظامی اُمور میں بہت معاونت کرسکتے تھے،مگر مقامِ افسوس ہے کہ ہم بلدیاتی نظام کی افادیت کو کبھی سمجھ ہی نہ پائے۔جس طرح کا ہمارانظامِ زیست ہے ،ہمیں مقامی حکومتوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ بہتر حکمتِ عملی اختیار کی جائے اور اس وبا پر قابو پایا جائے۔