جب سے کورونا وائرس کی وبا آئی ہے‘ ہم سب ایک مخمصے میں پھنس گئے ہیں۔ مخمصہ یہ ہے کہ کورونا وائرس کو کیا سمجھیں۔خدا کا عذاب یا خدا کا انعام۔ عذاب تو یہ ہے کہ لوگ بیمار پڑ رہے ہیں‘ مر بھی رہے ہیں اور انعام یہ کہ سڑکوں پر ٹریفک کا پہلے جیسا تکلیف دہ رش نہیں رہا۔ بازار بڑی حد تک سنسان ہو گئے۔ پٹرول کی قیمتیں نیچے آ گئیں۔ گھروں میں رشتہ داروں نے آنا جانا چھوڑ دیا۔ ان کی مہمان داری پہ اٹھنے والا خرچہ پانی نہ رہااور بھی بہت سے فائدے ہوئے جن کا بیان ضروری نہیں۔ کورونا وائرس کیا ہے؟ایک ایسا جرثومہ جو نظر نہیں آتا مگر اندر آدمی کے آ جاتا ہے اور آ کر کیا کرتا ہے‘یہ تو ٹھیک سے نہیں معلوم لیکن آخر آخر کو آدمی وینٹی لیٹر پہ پہنچ جاتا ہے۔ وینٹی لیٹر سے وہ کہاں جاتا ہے‘یہ بھی نہیں پلہ البتہ قبرستان ضرور پہنچ جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہے وہ ہمارا جسم ہے۔ اسی لئے ہم ساری زندگی جسم ہی کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ قلب کی حالت کیسی ہے۔نیت کیسی ہے روح پر کیا گزر رہی ہے‘ اس پہ ہم لوگ توجہ نہیں کرتے توجہ کریں بھی تو کیسے۔ ہم ان کی حقیقت کو جانتے ہی نہیں۔ تو اور زیادہ بری بات ہے۔ پچھلے دو تین ماہ سے جو کچھ ہو رہا ہے‘اس نے دنیا اور انسانوں کی حالت بدل دی ہے۔ کورونا کے جرثومے سے بے خوف ہو کر ہم گھروں سے باہر نکل آئے ہیںسماجی فاصلہ بھی ایک مذاق بن گیا ہے۔ البتہ ہاتھ ملانے اور جھپی ڈالنے میں ہم اب بھی احتیاط برتتے ہیں۔ بچے کمپیوٹر پر آن لان کلاسیں لے رہے ہیں۔ اکثر ملازم پیشہ لوگ بھی دفتر کا کام گھر ہی سے نمٹا رہے ہیں۔ ان سرگرمیوں نے گھروں کو آباد کر دیا ہے۔ بجلی کے اخراجات بڑھ گئے ہیں لیکن میاں بیوی کے جھگڑوں اور اختلافات میں کمی آ گئی ہے۔ کیوں کہ اب شوہروں نے کچن اور غسل خانوں میں بیویوں کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا ہے۔وہ برتن اور کپڑے دھو لیتے ہیں۔ مرد دفتر نہیں جاتے تو دیر سے لوٹ آنے کا بیویوں کا شکوہ نہیں رہا۔ البتہ بچوں کو شکایات ہیں۔یہ شکایت کہ آئوٹنگ نہیں ہو رہی۔ یہ صورت حال کب تک رہے گی۔ ہم لوگ کب تک اپنے گھروں پہ نظر بند رہیں گے؟ کب تک مسجدوں اور عبادت گاہوں سے دور رہیں گے؟کب تک چہروں پہ اپنے نقاب ڈالے رہیں گے؟ اور کب تک نلکوں سے ہاتھ دھوتے رہیں گے۔ ایک مخمصہ ہے جس سے ہم نکل نہیں پا رہے۔ کورونا وائرس جیسی وبا دنیا میں کبھی نہیں آئی۔ جو وبائیں آتی رہی ہیں‘ ان سے انسان فنا کے گھاٹ اترتا رہا ہے۔ کسی بھی وبا سے انسان کی سماجی اور مذہبی زندگی متاثر نہیں ہوئی۔ کسی وبا نے بھی معاشی سرگرمی کو اس طرح کبھی متاثر نہیں کیا اور کوئی بھی وبا اتنی عالمگیر کبھی نہیں آئی کوئی مر گیا ہو اور کوئی بچ گیا ہو۔ جو بچ گیا ہو وہ مستقلا بچ گیا ہو اور جو مر گیا ہو اس کو قبرستان میں اس طرح دفن کیا گیا ہو کہ نماز جنازہ کے لئے نمازی میسر نہ آئے ہوں۔ اس ساری صورت حال میں انسان کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔اسے اس جرثومے کی تباہ کاریوں اور اثرات سے سبق سیکھنا چاہیے۔لیکن وہ انسان ہی کیا جو کسی واقعہ سے کوئی سبق سیکھ سکے۔ انسان سب کچھ سیکھ لیتا ہے سبق نہیں سیکھتا۔روپیہ پیسہ اور جائیداد پکڑ لیتا ہے اور بہت مضبوطی سے پکڑتا ہے مگر عبرت نہیں پکڑتا۔ سوچتا ہے بھلا عبرت بھی کوئی پکڑنے کی چیز ہے۔ پکڑنا ہی ہے تو کوئی موٹی اسامی پکڑو جس سے چار پیسے کا فائدہ ہو جائے شاید اسی لئے خدا نے ایک ایسا جرثومہ بھیج دیا جس نے انسان کو انسان سے جدا کر دیا۔ انسان کا انسان سے ملنا ایک نعمت بھی ہے اور ایک مصیبت بھی۔ اکبر الٰہ آبادی نے فرمایا تھا: یہ ملنے ہی سے اکثر رنج بھی ہو جاتے ہیں پیدا جو سچ پوچھو تو ملنے سے نہ ملنے کا گلہ اچھا ہم لوگ پہلے نہ مل کر نہ ملنے کا ایک دوسرے سے گلہ کرتے تھے۔ اب ہم مل کر ملنے کی شکایت کرتے ہیں کہ میاں ملنا ہی ہے تو ذرا فاصلے پر رہ کر ملو‘یہ کیا طریقہ ہے کہ گھسے آ رہے ہو۔Social Distanceکا خیال کیوں نہیں رکھتے۔ چہروں کو بھی ہم نے چھپا رکھا ہے ماسک میں۔ نقاب پوش حسینہ پر پہلے فلمیں بنتی تھیں جب فلمیں بلیک اینڈ وائٹ ہوتی تھیں۔ اب ہم سب اس کلرڈ دور میں نقاب پوش حسینہ بنے پھر رہے ہیں ہاتھوں میں بھی دستانے ہوتے ہیں پھر بھی احتیاطاً ہاتھ نہیں ملاتے۔ گھر آ کر کپڑے بدل لیتے ہیں۔ نہ بدلیں تو سینی ٹائزر سے چھڑکائو کرنا نہیں بھولتے۔ یہ کیسی حرکتیں اور حماقتیں ہیں جس میں ہم مبتلا کر دیے گئے ہیں اور کب تک اس مخمصے میں پڑے رہیں گے۔ اس کا بھی علم نہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے تو یہ کہہ کر اور ڈرایا دیا ہے کہ ہر شخص کورونا میں مبتلا ہو گا اس لئے ہمیں اس جرثومے کے ساتھ خود کو جینے کا عادی بنا لینا چاہیے۔ بھلا بتائیے یہ کیا بات ہوئی۔ اگر ساری زندگی ماسک سے چہرہ چھپانا پڑ گیا تو بیوٹی پارلروں اور میک اپ کے سامان کا کیا بنے گا۔ کیا ہم مسکرانا چھوڑ دیں‘ ہنسنے اور قہقہہ لگانے سے پرہیز کرنے لگیں۔ آخر ہم کریں کیا۔ چلیے مہمانوں سے تو جان چھوٹ گئی جو بن بلائے آ جاتے تھے۔ دوستوں کی محفلیں اور گپ شپ سے بھی جاتے رہے جن سے بیویوں کو شکایت رہتی تھی۔ نہ دفتر جاتے ہیں نہ بیگمات کو لنچ باندھ کر دینا پڑتا ہے۔ پہلے کورونا کے بغیر ہی والدین اور بچوں میں فاصلے تھے۔ وہ گھر میں کب آتے ہیں کہاں جاتے ہیں کس سے ملتے ہیں‘ کن صحبتوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ ان سے ہمیں نہ دل چسپی تھی۔ نہ جانتے ہی تھے اب گھروں میں چوبیس گھنٹے رہنا پڑ رہا ہے تو پتہ چل رہا ہے کہ ہاں بچے بھی ہیں اور ہمارے ہی بچے ہیں۔ تو کورونا جو آیا ہے کچھ سوچ سمجھ کر ہی آیا ہے۔ خود نہیں آیا تو بھیجا گیا ہے۔ کس نے بھیجا ہے؟ یہ ہم نہیں بتائیں گے۔ اگر بتائیں گے تو آپ انکارکر دیں گے اور جواب میں کوئی نہ کوئی سازشی تھیوری لے آئیں گے اور پھر ہم لاجواب ہو جائیں گے۔ اس لئے کہ سازش ہم نے کبھی کی نہیں تو سازشی تھیوری کو کیسے سمجھیں۔ کورونا وائرس یقینا ایک سازش ہے‘ یہ ہم بھی کہتے ہیں لیکن یہ کس کی سازش ہے؟قدرت کی یا امریکہ اور چین کی۔ بس یہ فیصلہ کرنا رہ گیا ہے۔ یہ فیصلہ بھی کبھی نہ کبھی ہو جائے گا‘ اگر امریکہ اور چین ویسے ہی رہ گئے جیسے ہیں تب نا! ٭٭٭٭٭