روزنامہ 92 نیوز کی رپورٹ میں کورونا ویکسین درآمد کرنے والی کمپنیوں کو ڈرگ ایکٹ سے مستثنیٰ قرار دے کر انہیں من پسند قیمت پر ویکسین فروخت کرنے کا اختیار دینے کا انکشاف کیا ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ وفاقی معاون خصوصی برائے صحت اور دو وزراء کے پرزور مطالبہ پر کابینہ نے ڈرگ کمپنیوں کو چھ ماہ تک ڈرگ پالیسی سے چھوٹ دینے کی منظوری دی ہے۔ اس فیصلے پر بعض وزرا کی مخالفت کے ساتھ عوامی سطح پر بھی خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ایسی رپورٹس منظر عام پر آتی رہی ہیں جن میں کورونا ویکسین کی درآمد کا اجازت نامہ رکھنے والی کمپنی نے ویکسین کی درآمد اور قیمت کے تعین کے حوالے سے طریقہ کار کی وضاحت کی تھی۔ پاکستان میں ایمرجنسی استعمال کے لیے درآمد کی جانے والی ویکسین سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی تیار کردہ ہے۔ درآمدی لائسنس پر درج ہے کہ ویکسین کی قیمت وفاقی حکومت طے کرے گی۔یہ درست ہے کہ پاکستان میں جس وقت ویکسین پہنچی تب تک دنیا کے 51 ممالک کے کروڑوں شہریوں کو اس کے انجکشن لگ چکے تھے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ جس وقت دنیا ویکسین کی خریداری کے آرڈر دے رہی تھی اس وقت ویکسین کی آزمائش کا تیسرا مرحلہ جاری تھا۔ اس مرحلے میں ناروے کے 23 افراد ویکسین لگنے کے بعد ہلاک ہو گئے‘ برطانیہ اور امریکہ میں بھی ویکسین کے آزمائشی مراحل میں کئی تشویشناک حقائق سامنے آئے۔ یہ احتیاط اپنی جگہ لیکن پاکستان کے عوام حکومت‘ سرکاری افسران اور ادویات کی کمپنیوں کے گٹھ جوڑ کا مظاہرہ ماضی میں بھگت چکے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت میں سب سے پہلے جس معاملے کی غیر شفافیت کا سوال اٹھا تھا وہ ادویات کی قیمتوں کے تعین کا تھا۔ اس وقت کے مشیر صحت کو اپنے عہدے سے الگ ہونا پڑا۔ مختلف وجوہ کی بنا پر ادویات کی قیمتوں سے متعلق پالیسی کو پاکستان میں سیاسی مسئلہ بھی سمجھا جاتا ہے اور اس شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق حکومتیں خود سے قیمتوں کا تعین کرنے سے کتراتی ہیں۔ عوامی سطح پر یہ تاثرموجود ہے کہ دوا ساز کمپنیاں خود قیمتیں بڑھاتی رہتی ہیں اور متعلقہ حکومتی ادارے اس پر خاموشی اختیار کیے رکھتے ہیں۔پاکستان میں دوا سازی کے شعبے میں اس وقت چوبیس غیر ملکی کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ تاہم یہاں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کی تعداد گذشتہ دس پندرہ برسوں میں چالیس سے چوبیس ہوئی ہے۔پاکستان میں کام کرنے والی چالیس غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں میں سے کچھ تو ملک سے نکل گئیں ، کچھ دوسری کمپنیوں میں ضم ہو چکی ہیں۔ ان غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں کا دوا سازی کی پیداوار میں تقریباً پنتالیس فیصد حصہ بنتا ہے۔غیر ملکی کمپنیوں کے مقابلے میں پاکستان میں کام کرنے والی مقامی دوا ساز کمپنیوں کی تعداد سات سو پچاس ہے۔ ان میں سے سو کمپنیاں مقامی پیداوار کا تقریباً ستانوے فیصد پیدا کرتی ہیں جب کہ باقی چھ سے پچاس کمپنیوں کا اس پیداوار میں حصہ صرف تین فیصد ہے۔ غیر ملکی دوا ساز کمپنیوںکا کہناہے کہ پاکستان میںاس صنعت کی بنیاد غیر ملکی کمپنیوں نے ہی رکھی تھی، ان کے سرمائے اور تحقیق نے پاکستان میں دوا سازی کی صنعت کو پروان چڑھایا تاہم بد قسمتی سے دوا سازی سے متعلق پالیسیوں میں عدم تسلسل نے بہت سی غیر ملکی کمپنیوں کو پاکستان سے اپنا کاروبار سمیٹ کر واپس جانے پر مجبور کر دیا جو غیر ملکی کمپنیوں کی پاکستان میں گھٹتی تعداد سے واضح ہے۔پاکستان میں دوا سازی کے شعبے میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ادویات کی قیمتوں کی پالیسی ہے۔ پاکستان میں سن دو ہزار ایک میں ادویات کی قیمتوں کو منجمد کر دیا گیا۔کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ادویات کی قیمتیں بارہ تیرہ سال تک ایک خاص سطح پر منجمد رہیں جب کہ دوسری جانب ان کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا گیا۔سن دو ہزار تیرہ میں قیمتوں کے از سر نو تعین کے لیے ایک پالیسی متعارف کرائی گئی ، یہ پالیسی کچھ دنوں واپس لے لی گئی۔اس اقدام کے خلاف دوا ساز کمپنیاں عدالت میں چلی گئیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں حکومت کو ایک نئی پالیسی بنانے کا کہا۔ نئی پالیسی سن دو ہزار اٹھارہ میں متعارف کرائی گئی جس میں ادویات کی قیمتوں کو کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے ساتھ منسلک کیا گیا اور ایک خاص فارمولے کے تحت ادویات کی قیمتوں کے تعین کا فارمولہ پیش کیا گیا۔ اس پالیسی پر عملدر آمد نہیں ہو سکا ۔ پاکستان میں اسی ہزار سے زائد ادویات رجسٹرڈ ہیں لیکن ملکی و غیر ملکی کمپنیاں بمشکل دس ہزار دوائیں ہی تیار کرتی ہیں۔ کنزیومر رائٹس پروٹیکشن کونسل آف پاکستان نے غیر ملکی دوا ساز کمپنیوں کے اس موقف کو رد کیا کہ انہیں پاکستان میں کاروبار پر منافع نہیں مل رہا۔ کونسل نے اسے صرف غیر ملکی کمپنیوں کی دھمکی قرار دیا اور ماضی میں چالیس سے چوبیس کمپنیاں رہ جانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ بہت سی کمپنیاں آپس میں ضم ہو گئی ہیں۔ بلاشبہ یہ غیر ملکی کمپنیاں اب بھی پاکستان میں بے تحاشا منافع کما رہی ہیں۔ ادویہ ساز اور ادویہ درآمد کرنے والیکمپنیاں اتنا زیادہ نفع کما رہی ہیں کہ یہ ہر سال سینکڑوں ڈاکٹروں کو بیرون ملک سیر و تفریح پر بھیجتی ہیں۔ یہ امر بظاہر صارفین کے حقوق غصب کرنے کے مترادف ہے کہ کورونا ویکسین کی قیمتیں متعلقہ کمپنیوں کی صوابدید پر چھوڑ دی جائیں۔ ڈریپ اور وزارت صحت اس معاملے پر اپنا کردار ادا کرنے کو کیوں تیار نہیں۔ امید ہے کہ وزیراعظم اس معاملے کی شفاف تحقیقات کے ساتھ ساتھ قیمتوں کے متعلق پالیسی پر عمدرآمد یقینی بنائیں گے۔