دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کورونا کی صورتحال بگڑتی نظر آ رہی ہے ، کورونا سے پاکستان میں ہلاکتیں 80 سے زائد اور متاثرین کی تعداد 5ہزار سے اوپر چلی گئی ہے۔ لاک ڈاؤن کو قریباً 20واں روز ہے ۔ ایک طرف کورونا دوسری طرف بھوک کی موت منہ کھولے کھڑی ہے ۔ حکومت کی طرف سے امداد جو کہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے ، کا طریقہ کار درست نہیں۔ تین دن قبل ملتان میں بھگدڑ سے ایک خاتون ہلاک اور 20 زخمی ہو چکی ہیں ۔ اسی طرح کا واقعہ گزشتہ روز مظفرگڑھ میں ہوا جہاں روندے جانے سے خاتون زخمی اور متعدد بے ہوش ہوئیں ۔ اس پر بھی اعتراض ہو رہا ہے کہ کورونا کے خلاف فرنٹ لائن پر ڈاکٹر و دیگر طبی عملہ لڑ رہا ہے ، یہ کالم لکھ رہا تھا کہ خبرملی کہ نشتر ہسپتال ملتان کے 18 ڈاکٹروں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ ڈاکٹروں کی خدمات کو سلام پیش کرنے کیلئے ایک دن ڈاکٹر ڈے منایا گیا ، دوسرے دن کوئٹہ میں ڈاکٹروں پر بدترین تشدد ہوا ، افسوس کہ زخمی ڈاکٹروں کو ابھی تک انصاف نہیں ملا۔ ملک کی اندرونی صورتحال کے پیش نظر قومی اتحاد اور سیاسی اختلافات اور رنجشوں کو بلائے طاق رکھ کر مل بیٹھ کر کورونا سے نمٹنے کیلئے مشترکہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے ، مصالحت اور لہجوں میں نرمی لانے کی ضرورت ہے، اس کا آغاز وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ہونا چاہئے ، مگر یہ دیکھ کر افسوس ہوتاہے کہ ان کا لب و لہجہ روز بروز سخت ہوتا جا رہا ہے ۔ وزیراعظم کی طرف سے آٹا چینی بحران کے معاملے پر ایکشن لیا گیا ، شکر ہے کہ کچھ دیر کیلئے میڈیا کی توجہ کورونا سے ہٹ کر چینی اسکینڈل کی طرف آئی ، مگر اس میں بھی سیاسی عمل شامل ہوتا نظر آ رہاہے اور ایک سوال اٹھ رہا ہے کہ صرف جہانگیر ترین کا احتساب کیوں ؟ مخدوم خسرو بختیار کے بھائی اور سردار نصر اللہ دریشک و دیگر کو چھوٹ کیوں دی گئی ؟ اس بات پر بھی اعتراض ہو رہاہے کہ برطرف کئے گئے وزیراعظم کے مشیر شہزاد ارباب کو نہ صرف دوبارہ لے لیا گیا بلکہ ان کو ترقی بھی دیدی گئی ہے ، سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق اب ان کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہوگا۔ سابق سیکرٹری خوراک نسیم صادق جن کی فیصل آباد ، لاہور ، ملتان اور ڈی جی خان کو بہتر بنانے کے حوالے سے خدمات ہیں اور بظاہر ان کا کوئی کرپشن اسکینڈل نہیں۔ ان کا کہنا بجا ہے کہ وزیر اعظم کو مس گائیڈ کر کے آٹا چینی اسکینڈل کے اصل ذمہ داروں کو بچایاجا رہا ہے ۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو اس معاملے پر دوبارہ غور کرکے نسیم صادق کو کمشنر دیرہ غازی خان کا عہدہ دینا چاہئے تاکہ ڈی جی خان کی ترقی کا عمل دوبارہ شروع ہو سکے ۔ جہاں تک جہانگیر ترین کی ذات کا تعلق ہے ، وسیب کے لوگ ان سے اس بناء پر خوش نہیں کہ حکومت کا اہم حصہ ہونے کے باوجود انہوں نے وسیب کے لئے کچھ نہ کیا ، بہاولپور، لودھراں یا ملتان سول سیکرٹریٹ کے مسئلے پر تفریق کا الزام بھی ان پر ہے ۔ وسیب کے لوگوں کی ناراضگی کی ایک وجہ ان کے سرائیکی ٹی وی چینل روہی کی بندش بھی ہے ، جس سے نہ صرف یہ کہ وسیب کی آواز بند ہوئی بلکہ سینکڑوں ملازم بھی بیروزگار ہوئے ، اس کے باوجود سب کہتے ہیں انتقامی کاروائی نہیں ہونی چاہئے اور اس تاثر کو ختم ہونا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت بنانے میں ان کا بہت کردار ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ کورونا وائرس سے ہلاکتیں جاری ہیں ، پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کورونا کی صورتحال روز بروز خراب ہو رہی ہے ، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ جوکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ، کورونا کے مسئلے پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ کورونا کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر انہوں نے کراچی کی 12 یونین کونسلوں میں کرفیو لگا دیا ہے جو کہ انتہائی قدم ہے اور اس سے دیہاڑی دار غریب لوگ بہت زیادہ متاثر ہونگے ، لاک ڈائون نرم کرنے، معاشی سرگرمیاں شروع کرنے کی ضرورت ہے کہ کراچی حساس شہر ہے۔ حساسیت کی بناء پر میں کراچی کے تاریخی پس منظر پر غور ضروری ہے کہ کراچی کل کیا تھا اور آج کیا ہے؟ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور پانچ اضلاع پر مشتمل ہے ، اس کی آبادی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔ کراچی کو منی پاکستان بھی کہا جاتا ہے کہ تمام صوبوں کے لوگ بوجہ روزگار یہاں موجود ہیں ۔کراچی کی اپنی الگ ایک تاریخ ہے ، تاریخی کتب میں درج ہے کہ سکندر اعظم کا بحری بیڑہ بھی یہاں پہنچا ۔ اس جگہ بندر گاہ بنی اور نیا شہر آباد ہوا، کلاچی کا نام وقت کے ساتھ ساتھ کراچی ہوگیا ۔ سرائیکی بولنے والے تالپور خاندان کے دورِ اقتدار ( 1795-1839ء ) میں کراچی نے بہت ترقی کی ۔ 1843ء میں انگریزوں سے تالپوروں کی بھرپور جنگ ہوئی اور جنرل ہوشو شیدی نے نعرہ لگایا ’’ مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈٖیسوں ‘‘ ۔ 1936ء میں سندھ الگ صوبہ بنا تو دارالحکومت حیدر آباد سے کراچی منتقل ہوگیا۔ 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم نے اسے پاکستان کا دارالحکومت قرار دیا ، اس وقت کراچی کی آبادی دو لاکھ تھی ، مہاجرین کی آمد سے دیکھتے ہی دیکھتے یہ آبادی دس لاکھ تک چلی گئی ۔ ایوب خان نے دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا اور 1963ء میں تمام دفاتر اسلام آباد چلے گئے ، اس کے باوجود کراچی پر آبادی کا دباؤ مسلسل جاری رہا ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں مقامی آبادی کے مقابلے میں مہاجرین کی سرپرستی ہوئی تو ایم کیو ایم وجود میں آئی اور 1985ء میں بشریٰ زیدی ایک منی بس کے نیچے آ کر ہلاک ہوئی تو ایم کیو ایم نے پورے کراچی کا امن تباہ کر دیا جنرل اسلم بیگ اور صدر پرویز مشرف کی طرف سے ایم کیو ایم کی سرپرستی سے حالات خراب ہوتے رہے۔ کراچی کی مختصر سماجی ، ثقافتی اور سیاسی تاریخ بیان کرنے کا مقصد اتنا ہے کہ کراچی پاکستان کا دل بھی ہے اور منی پاکستان بھی ۔ اس کے بارے میں جو بھی اقدامات ہوں ، سوچ سمجھ کر ہونے چاہئیں کہ کراچی میں امن ہوگا تو ملک امن محسوس کرے گا اور کراچی کے حالات خراب ہونگے تو پورے پاکستان پر اس کے اثرات مرتب ہونگے کہ پاکستان کا کوئی شہر ، کوئی قصبہ یا کوئی گاؤں ایسا نہیں جس کے باشندے کراچی میں نہ ہوں ۔