موت زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ انسان سہل اور آبرومندانہ موت کی آرزو کرتا ہے۔پاکستان میں مریضوں کی لاچاری کا یہ عالم کہ کوئی بھی سرکاری ہسپتال ایسا نہ تھا جہاں مریضوں کو ایمرجنسی میں داخلے کے علاوہ چھ چھ ماہ کی داخلے کی تاریخ نہ ملتی ہو۔امیر تو نجی ہسپتالوں میں سرکاری ڈاکٹروں سے علاج کروا لیتے اور غریب داخلے کی باری یا موت کا انتظار کرتے۔ اب یہ اس کا نصیب ہے کہ پہلے جو بھی آ جائے، لیکن پھر بھی ان بے کسوں اللہ کے بعد ڈاکٹر ہی آخری امید تھے۔دسمبر 2019ء میں شاہدرہ کی ممتاز بی بی کو ایکسیڈنٹ میں ٹانگ کے فریکچر کے ساتھ ایشیا کے سب سے بڑے میوہسپتال میں لایا گیا ایمرجنسی میں ڈاکٹروں نے ایکسرے کے بعد بتایا کہ مریضہ کی ٹانگ کی ہڈی چار جگہ سے ٹوٹ گئی ہے کیونکہ مریضہ کی عمر 80 برس تک پہنچ گئی ہے اس لئے پلیٹ کے بغیر ہڈی کا جڑنا ممکن نہیں اور ایمرجنسی میں ایسے بڑے آپریشن کی سہولت میسر نہیں۔ اس لئے ٹانگ پر پلستر باندھ کر مریضہ کو 29اپریل کی داخلے کی تاریخ دے کر گھر روانہ کر دیا گیا۔ پلستر میں سوراخ کر کے داخلے تک گھر میں پٹی کروانے کی بھی ہدایت کی گئی۔ممتاز بی بی کو جس گھر میں جانے کو کہا گیا وہاں تو پہلے ہی فاقوں کا آسیب تھا ۔ورثاء میں ایک جواں بے روزگار بیٹا تھا اور ایک 38برس کی ناخواندہ بیٹی ۔گھر کا چولہا ممتاز کے دم سے جلتا تھا۔ فاقے بڑھے تو بیٹا بھوک کے خوف سے نشہ کرنے لگا اور موت نے اس کو فاقوں کی اذیت سے نجات دلادی۔ باقی ممتاز اور اس کی 38برس کی بیٹی۔ بیٹی کے لیے ماں کا علاج کروانا تو دور کی بات پیٹ کا جہنم بھرنا بھی ممکن نہ تھا۔ کب تک ہمسایوں سے مانگ تانگ کر گزارا ہوسلیم انصاری نے کہا ہے نا کہ: جیون جینا کٹھن ہے وش پینا آسان انساں بن کر دیکھ لو او شنکر بھگوان ممتاز کی بیٹی کے لئے تو وش پینا بھی آسان نہ تھا کہ اگر وہ زہر پھانک کر زندگی کے عذاب سے نجات پا بھی لیتی تو اس کی بوڑھی ماں جس کی ٹانگ کی ٹوٹی ہڈیوں میں کیڑے پڑنے کا ڈر تھا اس کو کس کے سہارے چھوڑ کر مرتی۔ گلی ،محلے، عزیز، رشتہ دار بھی ایک حد تک ہی مدد کو آتے ہیں۔ جب کوئی مدد کو نہ آیا تو غریب کی بیٹی گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھنے پر مجبور ہوئی۔ پڑھی لکھی تو تھی نہیں کہ باعزت نوکری کی کوئی امید ہوتی ۔لوگوں سے ادھار بھی واپسی کی امید پر ملتا ہے۔ منٹو نے یہ تو بتایا بھوک جسم فروشی پر مجبور کرتی ہے مگرجب بھوک کے ساتھ درد سے کراہتی ماں کا دکھ بھی ہو تو 38برس کی بیٹی پر کیا بیتتی ہے اور وہ کیا کچھ کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے اس کا تو منٹو بھی بھی شاید اندازہ نہ تھا !! خدا خدا کر کے 29اپریل داخلے کی تاریخ آئی بیٹی جیسے تیسے کر کے 29اپریل تک ماں کو زندہ رکھنے میں کامیاب ہو گئی صبح آٹھ بجے میوہسپتال کے ہڈی وارڈ میں پہنچی کہ اب ماں کا علاج اور کھانا ہسپتال سے مل جایا کرے گا ،مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا میوہسپتال پہنچ کر پتہ چلا کہ ملک میں کورونا کی وباء کی وجہ سے ہڈی وارڈ کے آپریشن تھیٹر بند ہیں آپریشن نہیں ہو سکتا تو روٹی کے لئے داخلہ کیوں دیا جائے؟؟ ممتاز پھر ہسپتال سے گھر ٹوٹی کھاٹ پر پہنچ کر موت اور داخلے کے انتظار کر رہی ہے اور اس کی بیٹی زندگی کا زہر پینے پر مجبور۔ کیونکہ ماں سے پہلے مرنا اس کو گوارہ نہیں۔یہ صرف ممتاز اور اس کی بیٹی کا ہی دکھ نہیں۔ میوہسپتال ایشیا کا سب سے بڑا ہسپتال اور پنجاب بھر کے مریضوں کا آخری سہارا ہے۔ 23سو بستروں کی سہولت کے ساتھ بھی مریضوں کو داخلے کے لئے مہینوں انتظار کرنا پڑتا تھا مگر پھر بھی ہزاروں کو انتظار کے بعد زندگی نصیب ہوا کرتی تھی۔اسے اب مریضوں کی بدنصیبی کہیے کہ مدینے کی ریاست کے دعویدار حکمرانوں کی پالیسی کا اثر صرف میوہسپتال ہی نہیں پنجاب کے تمام سرکاری ہسپتال کورونا کے سبب بند پڑے ہیں ۔عید کے روز عبدالرشید نام کے ایک مریض کا پیشاب بند ہو گیا تکلیف سے جب مثانہ پھٹنے کو آیا تو اس کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال نارووال لے جایا گیا وہاں پتہ چلا کہ کورونا کی وجہ سے ایمرجنسی کی ہی سہولت میسر ہے۔ ڈاکٹر نے حتی المقدور کوشش کی مگر پیشاب کی نالی نہ لگائی جا سکی مجبوراً سرنج کی مدد سے مثانہ سے پیشاب خارج کر کے مریض کو میوہسپتال ریفر کر دیا گیا۔ میو ہسپتال پہنچ کر پتہ چلا تھیٹر بند ہے ڈاکٹر نے رپورٹس دیکھ کر بتایا کہ گردہ کے اپر پول میں بہت بڑی پتھری تھی جو مثانہ میں اٹک گئی ہے ڈاکٹر نے پیشاب کی نالی لگا کر آپریشن تھیٹر کھلنے تک گھر بھیج دیا۔ممتاز کی طرح رشید بھی موت اور آپریشن تھیٹر کے کھلنے کے انتظار میں ہے۔ کہانی یہاں ہی ختم نہیں ہوتی ایک معروف روزنامہ میں کام کرنے والی صحافی خاتون کی ماں کی آنکھوں میں سفید موتیا سیاہ ہونے کو پہنچ گیا مگر سرکاری ہسپتال بند ہیں ۔سفارش کروا کر کسی طرح بھی ڈاکٹر اسد اسلم جو پنجاب میں کورونا کے خلاف جنگ میں کمانڈر کے علاوہ آئی سرجن بھی ہیں تک رسائی ممکن ہوئی تو موصوف نے نجی ہسپتال میں آپریشن کے 80ہزار روپے مانگ لئے۔فیض نے اچھے مسیحا کو شفا کیوں نہیں دینے کا طعنہ دیا تھا۔مگر یہاں تو بے رحم ہوئے بیمار کو دوا بھی اس صورت ملتی ہے اگر جیب میں پیسے ہوں نہ 80ہزار ہو نہ شفا ملے!! باقی رہی ماں ایسی ریاست اور ریاست مدینہ کے دعویدار حکمران تو وہ تو کورونا کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں ان کی بلا سے ہزاروں مریض بھلے ہی اپنی اپنی بیماریوں سے مر جائیں۔ کورونا کے خلاف جنگ لڑنا اہم سہی ۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا باقی دنیا میں بھی دیگر امراض کے مریضوں کو موت کے رحم و کرم پر چھوڑ کر کورونا کے خلاف جنگ لڑی جا رہی ہے؟ یا پھر فانی بدایونی کے شعر کے مصداق صرف پاکستان میں ہی بیمار ترے جی سے گزر جائیں تو اچھا جیتے ہیں نہ مرتے ہیں یہ مر جائیں تو اچھا کا سلوک کیا جا رہا ہے۔ اگر کسی کو خدا کا خوف ہو تو وہ کورونا کا رونا چھوڑ کر سسکتے سسکتے مرتے دیگر امراض کے باقی مریضوں کا بھی سوچے۔