ڈاکٹرز خفا ہیں اور بعض ’’ ینگ ڈاکٹرز‘‘ تو اب سوشل میڈیا پر عوام کو باقاعدہاتھ نچا نچا کر کوس رہے ہیں کہ یہ کورونا جیسی سنگین اور مہلک بیماری کو مذاق سمجھ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کورونا کو مذاق کس نے بنایا؟ عوام نے یا باشعور طبی ماہرین اور مستعد حکومتی مشینری نے؟ عوام کورونا کو واقعی سنجیدہ نہیں لے رہے۔ اگلے روز جوہر آباد اپنے کزن ملک جہانگیراعوان کو فون پر درخواست کی کہ اپنی سرگرمیوں کو تھوڑا محدود کریں اور کورونا کو ایک حقیقت سمجھیں تو انہوں نے آگے سے قہقہہ لگا دیا۔ میں نے ہمت کر کے کچھ دلائل دینے کی کوشش کی تو وہ کہنے لگے : آپ ایسے ہی دلائل عمران خان کے حق میں بھی دیا کرتے تھے اور ہماری بات نہیں سنتے تھے ۔ پھر کیا ہوا؟میں نے ہمت کر کے اپنی بات پر اصرار کیا توایک اور قہقہہ لگا: بھائی جان نہ کہیں کوئی تبدیلی آ رہی ہے نہ کہیںکوئی کورونا آ رہا ہے۔آپ سنائیں بچوں کا کیا حال ہے۔ نیشنل ہیلتھ سروسز ایند کوآرڈی نیشن کی وزارت نے اپنے فیس بک پیج پر کورونا کے حوالے سے اگلے دن عوام کی رہنمائی فرمانے کی کوشش کی ۔ اس کے نیچے اس وقت تک انیس سو لوگ تبصرہ فرما چکے ہیں ۔ تمام تبصروں کا خلاصہ یہ ہے کہ : چل جھوٹی۔عوام نے وزارت کی اس رہنمائی کو کیسے ادھیڑ کر پھینک دیا ہے، پیج پر جا کر خود دیکھ لیجیے۔میرے جیسے الرجی کے متاثرین کا معاملہ البتہ الگ ہے۔ ہم تو طبیبان گرامی ، وزیران کرام اور ماہرین محترم کی ہر بات پر شارق کیفی کی طرح سر تسلیم خم کیے ہیں: جھوٹ کے اس پر بھروسا کر لیا دھوپ اتنی تھی کہ سایا کر لیا ہمیں بتایا گیا کورونا سے بچے متاثر نہیں ہو رہے اور ہو رہے ہیں تو ان کے اندر ایسی قوت مدافعت ہے جو ان کی جان بچا لیتی ہے۔ ساتھ ہی ہمیں بتایا گیا کورونا نمونیا کی ایک ایسی تباہ کن شکل ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے جس نمونیے کا علاج موجود ہے اس نمونیے سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق ہر سال پانچ سال سے کم عمر کے 14 لاکھ بچے مر جاتے ہیں اور پچھلے پانچ سالوں میں مرنے والے بچوں کا 18 فیصد نمونیا کے ہاتھوں مرا،یونیسف کے مطابق ہر 39 سیکنڈ بعد دنیا میں ایک بچہ نمونیا کے ہاتھوں مر جاتا ہے اور سب سے زیادہ جس انفیکشن سے بچے مرتے ہیں وہ نمونیا کا ہے تو پھر کورونا تو نمونیے کی ایک انتہائی مہلک شکل ہے ، اس سے بچے کیسے محفوظ رہ جاتے ہیں؟ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ نمونیا سے ہر سال چودہ لاکھ بچے مر جائیں اور نمونیے سے بہت زیادہ مہلک مرض کورونا کے بارے میں بتایا جائے کہ یہ تو بچوں کے لیے اتنا خطرناک نہیں ہے؟ پہلے کہا گیا سب ماسک پہنیں۔ پھر کہا گیا صرف ایک ماسک فائدہ مند ہے اور وہ ہے N_95۔ پھر بتایا گیا اگر آپ صحت مند ہیں تو ماسک کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ ماسک صرف وہاں پہنیں جہاں رش ہو۔ عام حالات میں اس کی ضرورت نہیں۔ ساتھ ہی کہا جانے لگا حکومت پابندی لگائے کہ کوئی آدمی ماسک کے بغیر باہر نہ نکلے۔بزم ناز سے یار الگ الگ خبریں لاتے رہے اور میرے جیسا عامی سوچتا رہا اب کس کا یقین کیجیے ، کس کا نہ کیجیے۔ کبھی کہا گیا ملیریا کی دوا کسی حد تک فائدہ مند ہے۔ پھر کہا گیا یہ تو کچھ فائدہ نہیںدے رہی۔ پھر معلوم ہوا یہ تو بہت نقصان دہ ہے۔ اس سے تو موت کا خطرہ ہے۔ یہ تو دل کے لیے بہت مہلک ہے۔ اب پاکستان میں لوگوں کو بخار ہو تو وہ احتیاطاً ملیریے کی تین گولیاں کھا لیتے ہیں کہ اس کا تو بندوبست کر لیں، لوگ سوچنے لگ گئے کہ یہ اچانک ملیریا کی دوا اتنی مہلک کیوں ہو گئی۔ ایک روزپتا چلا پاکستان میں کلوروکین پر پابندی لگا دی گئی ہے اور چند روز بعد معلوم ہوا پاکستان نے کلوروکین کی دس لاکھ گولیاں کورونا سے نبٹنے کے لیے سعودی عرب کو بھجوا دی ہیں۔یعنی پھر وہی بات کہ : کس کا یقین کیجیے کس کا نہ کیجیے؟ کبھی کہا گیا معمولی علامات ہوں تو گھر پر رہیں اور ہسپتالوں کا رخ نہ کریں اور کبھی معمولی علامات پر لوگوں کو دہشت گردوں کی طرح اہل خانہ سمیت اٹھا کر قرنطینوں میں ڈال دیا گیا۔کہا گیا ہاتھ نہ ملائیں ، سوشل ڈسٹنسنگ رکھیں ، یہاں تک کہا گیا کورونا کا مریض کسی چیز کو چھو لے اور پھر آپ اس چیز کو چھو لیں تو آپ کو کورونا ہو جائے گا۔ لیکن فیصل ایدھی کو کورونا تھا اور وہ عمران خان سے ملے لیکن اللہ کا شکر ہے عمران خان کو کچھ نہ ہوا۔ اول اول کہا گیا سینیٹائزر استعمال کیجیے۔ پھر کہا گیا اس سے تو وائٹ بلڈ سیل ختم ہو جاتے ہیں اور یہ پھیپھڑوں کے لیے نقصان دہ ہے اس لیے اجتناب کریں۔ پہلے کہا گیا بیس سیکنڈ تک بار بار ہاتھ دھوئیں ، پھر کہا گیا پانی ضائع نہ کریں بس معمول کے مطابق ہاتھ دھو لیا کریں۔ابتدا میں کہا گھر پر رہیں محفوظ رہیں ، بعد میں کہا گیا گھر پر رہیں گے تو وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہے اس لیے باہر بھی نکلا کریں۔ پہلے کہا باہر سے آئیں تو کپڑے اتار دیں ، خود نہا لیں ، گیراج کو جراثیم کش محلول سے دھو لیں ، بعد میں کہا گیا ایسے تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔ پہلے کہا کورونا کے لیے چودہ دن اہم ہیں ، پھر کہا ایک ماہ اہم ہے، پھر کہا مئی تباہ کن ہے ، پھر جون قیامت خیز ہے ، اب کہہ رہے ہیںجولائی بہت خطرناک ہے۔ کبھی کہا گرمی سے مر جاتا ہے کبھی کہا یہ تو مرنے والا نہیں، یہ تو ہمیشہ رہے گا۔ پہلے کہا کورونا ہوا میں نہیں رہتا چھونے سے منتقل ہوتا ہے پھر کہا یہ ہوا میں بھی معلق رہتا ہے۔ایک طرف کہا جا رہا ہے پاکستان میں کورونا کے مریض بڑھ رہے ہیں اور ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے دوسری جانب دعوی کیا جا رہا ہے کورونا کو شکست دینے والے ممالک میں پاکستان ٹاپ 20میں آ گیا ہے۔پہلے موبائل ٹون چلائی کروناخطرناک ہے مگر جان لیوا نہیں ، اب کہا جا رہا ہے کرونا خطرناک ہے اور جان لیوا ہو سکتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے کورونا کو مذاق کس نے بنایا؟