پاکستان میں تقریباً اڑھائی ماہ بعد کورونا سے ایک روز میں سب سے زیادہ 19ہلاکتیں سامنے آ ئی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24گھنٹوں میں ملک بھر میں کورونا کے 26670ٹیسٹ کئے گئے۔ جن میں پنجاب کے 176افراد سمیت 660افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ کورونا وائرس جب چین کے شہر ووہان میں ظاہر ہوا،تو اس وقت دنیا بھر میں خوف‘دہشت نے ڈیرے ڈال لئے تھے۔ہر شہری خوف کے سبب سے نہ صرف خوداختیاط کر رہا تھا بلکہ ایسے افراد سے بھی دور رہتا تھا جن سے کورونا پھیلنے کاخدشہ ظاہرکیاجاتا تھا۔ یہاں تک کہ کورونا سے ہلاک ہونے والے افراد کو دفنانے کے لئے بھی کوئی تیار نہیں ہوتا تھا۔ کرینوں کے ساتھ تابوت کو رسیوں سے باندھ کر قبر میں اتارا جاتا تھا۔ لواحقین حفاظتی کٹس پہن کر کئی کئی فٹ دور کھڑے رہتے تھے۔اس دکھ کی گھڑی میں کوئی پیارا دوسرے کے گلے لگ کر رو بھی نہیں سکتا تھا۔ گویا ہر طرف خوف و ہراس کا عالم تھا۔ ان حالات میں حکومت پاکستان نے فہم و تدبر سے کام لے کر نہ صرف اس وائرس پر قابو پایا بلکہ اسے مزید پھیلنے سے بھی روکا۔ یہی وجہ تھی کہ دنیا بھر کے دانشوروں اور طبی شعبے سے وابستہ عالمی شخصیات نے بھی پاکستان کے مثالی اقدامات کو سراہاا‘وزیر اعظم عمران خان نے لاک ڈائون میں بتدریج کمی کی‘ لوگوں کو بھوک سے مرنے سے بھی بچایا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان حکومت کے یہ اقدامات اپوزیشن جماعتوں کو ایک لمحہ بھی اچھے نہیں لگے۔ حکومت پاکستان نے جو کاوشیں کی تھیں، ان کا عالمی سطح پر بھی اعتراف کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے ان اقدامات کو پل بھر میں دریا برد کر دیا ہے، اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ مہنگائی سے تنگ آئے عوام کے خیر خواہ ہیں بلکہ اس کی وجہ عمران خان حکومت کی عالمی سطح پر نیک نامی ہے۔ جو اپوزیشن جماعتوں کو اچھی نہیں لگ رہی۔ اپوزیشن جماعتوں نے اگر عوام کے دکھ درد میں ہی شریک ہونا تھا۔ انہیں مہنگائی سے چھٹکارا دلانا تھا، تو کورونا وائرس کے دنوں میں وہ اپنے خزانوں کے منہ کھول سکتے تھے۔ شریف برادران ‘ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن سمیت اپوزیشن رہنمائوں کے پاس پیسے کی کمی ہے نہ ہی انہیں حکومت نے خلق خدا کی خدمت سے روکا ہے۔ کورونا کے دنوں میں اپوزیشن رہنمائوں میں سے ایک بھی لیڈر عوام کے لئے راشن تقسیم کرتا نظر آیا نہ ہی کسی اپوزیشن لیڈر نے اپنے حلقے کے عوام کو سستا راشن فراہم کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مہنگائی اپوزیشن کا مسئلہ نہیں۔ میاں نواز شریف سے لے کر مولانا فضل الرحمن‘ بلاول بھٹو اور مریم نواز شریف تک کسی نے بھی اپنی تقریر میں مہنگائی کو ٹارگٹ نہیں کیا۔ بلکہ ہر کوئی الیکشن کا رونا روتا رہاہے۔ ان کے نزدیک اگر حقیقت میں الیکشن دھاندلی زدہ ہیں،تو اسمبلیوں سے استعفیٰ دے کر میدان عمل میں نکلیں ۔میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا تھو تھو کے مصداق معاملات نہیں چلیں گے۔ باد النظر میں اپوزیشن جماعتیں ملک میں انتشار پھیلا کر مستحکم ہوتی معیشت کو خراب کرنا چاہتی ہیں۔ جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو رہی ہیں کیونکہ حکومت اور اداروںکی ساری توجہ اپوزیشن کی تحریک پر ہے۔ انہیں اپوزیشن سے فرصت ملے گی تو ہی عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بارے میں سوچیں گے۔ اس لئے اپوزیشن جماعتیں اگر حقیقت میں عوام کو ریلیف فراہم کرنا چاہتی ہیں تو پھر اداروں پر الزام تراشی ترک کرکے مہنگائی کو ٹارگٹ بنائیں۔ ان حاات میں جب کورونا وائرس ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے، اپنے کارکنان ،مزدورں اور عوام کو اکٹھا کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ غریب عوام پہلے ہی مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آ چکے ہیں، ان حالات میں اگر انھیںکورونا کا ٹیسٹ بھی کروانا پڑ جائے تو ان کا کوئی پرسان حال نہ ہو گا۔ میاں شہباز شریف اپنی ضمانت منسوخ کروا کر محفوظ مقام پر بیٹھے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن‘ بلاول اور مریم نواز سمیت باقی قیادت سٹیج پر فاصلے سے بیٹھتی ہے۔ جبکہ غریب عوام‘ مزدور اور ان کے کارکنان کندھے سے کندھا ملا کر نیچے کھڑے ہوتے ہیں۔ جس کی بنا پر کورونا وائرس پھیلتا جا رہا ہے۔ گوجرانوالہ جلسے سے لیکر کراچی جلسے تک کہیں بھی کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد نظر نہیں آیا۔جو باعث افسوس ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر نے ایک بار پھر تنبیہ کی ہے کہ اگر کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد نہ ہوا تو ایک بار پھر سخت پابندی لگ سکتی ہے کیونکہ آنے والے دن کورونا کے لئے مزید خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ہر سطح پر احتیاط کی ضرورت ہے۔ ہمیں انفرادی اور احتماعی طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیں۔ روزمرہ کے معاملات سر انجام دیتے وقت ماسک پہن کر سماجی فاصلہ برقرار رکھینا چاہیے‘ ہاتھوں کو بار بار دھونا اور ہجوم والی جگہوں پر جانے سے گریز کرنا چاہیے۔ خدانخواستہ اگر ہم نے ایس او پیز کی خلاف ورزی جاری رکھی، تو ایک بار پھر غریب عوام کو گھروں میں محصور ہونا پڑے گا۔ مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کو اگر دوبارہ لاک ڈائون کا سامنا کرنا پڑا، تو پھر یہ لیڈرز نظر نہیں آئیں گے، اس لئے عوام از خود جلسے جلوسوں میں جانے سے اجتناب برتیں اور حتی المقدور کوشش کریں کہ ایس او پیز کی خلاف ورزی نہ ہو۔ اگر ہم نے ایک بار پھر غفلت کا مظاہرہ کیا ، تو پھر آنے والے دنوں میں ہمیں سخت آزمائش سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سے احتیاط لازمی ہے۔