وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں ہونے والے قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس نے ہر قسم کے بڑے اجتماعات پر پابندی عائد کردی ہے۔ رابطہ کمیٹی نے ہدایت کی ہے کہ کسی اجتماع میں 300 سے زائد افراد شریک نہیں ہوں گے۔ رابطہ کمیٹی نے شادی کی ان ڈور تقریبات پر بھی بندش لگا دی ہے جبکہ سکولوں میں چھٹیوں کا معاملہ اگلے ہفتے تک موخر کردیا ہے جس کے بعد طے کیا جائے گا کہ سکول کب تک بند کئے جا سکتے ہیں ۔ رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں بتایا گیا کہ کورونا کی وجہ سے فیکٹریاں اور کاروبار بند نہیں کریں گے۔ پاکستان ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں فروری 2020ء میں کورونا کا پہلا کیس رپورٹ ہوا۔ ہمسایہ ملک چین اور ایران میں جب کورونا کی وبا شدت سے جاری تھی پاکستان میں ناکافی طبی آلات‘ سہولیات اورعملے کی کمی کے باوجود حالات کافی حد تک قابو میں تھے۔ حکومت نے کورونا سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر قائم کیا۔ اس سنٹر میں مرکز اور تمام صوبوں کی سیاسی و انتظامی نمائندگی موجود تھی۔ افواج پاکستان کئی امدادی کاموں میں شریک تھیں لہٰذا ان کی نمائندگی کا اہتمام بھی کیا گیا۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر نے سب سے پہلے تو کورونا کا پھیلائو روکنے کے لیے ذرائع ابلاغ پر احتیاطی تدابیر کی تشہیر کی۔ بتایا گیا کہ ہاتھوں کو بیس سیکنڈ کے لیے کئی بار دھویا جائے‘ ناک اور منہ کو ماسک سے ڈھانپا جائے‘ کسی چیز کو چھونے سے پہلے دستانوں کا استعمال ضروری ہے‘ ایک فرد دوسرے سے کم از کم چھ فٹ کے فاصلے پر رہے۔ عمومی طور پر گرم پانی کے استعمال اور قوت مدافعت کو مضبوط بنانے والی غذا لینے کی تاکید کی گئی۔ بازار‘ شاپنگ مال‘ شادی ہال‘ جم‘ بیوٹی پارلر‘ سکول اور پبلک ٹرانسپورٹ بند کردی گئی۔ ان اقدامات کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا۔ وقفے وقفے سے لاک ڈائون کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں کورونا کے کیس کم ہونے لگے لیکن عیدالفطر کے قریب تاجر برادری نے کاروباری نقصان ہونے کا غوغا شروع کردیا۔ حکومت نے شاپنگ مال اور بازار کھولنے کا مطالبہ تسلیم نہ کیا تو تاجر سپریم کورٹ چلے گئے جہاں سے انہیں احتیاطی تدابیر کے ساتھ دکانیں کھولنے کی اجازت مل گئی۔ یہ باشعور شہریوں کے لیے یہ منظر حیران کن تھا کہ چند روز پہلے تک فاقوں اور مالی تنگ دستی کی شکایت کرنے والے تمام طبقات بچوں اور خواتین کے ساتھ بازاروں میں موجود تھے۔ ہر طرف احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزی کا نتیجہ یہ نکلا کہ عید کے فوری بعد کورونا کے مریضوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھنے لگی۔ جون 2020ء میں ایک وقت ایسا آیا جب ملک میں متاثرین کی مجموعی تعداد دو لاکھ سے بڑھ گئی۔ ہر روز مرنے والوں کی تعداد ایک سو کے قریب جا پہنچی۔ کئی بار کئی سو لوگ ایک ہی دن انتقال کر گئے۔ اکتوبر 2020ء سے دنیا بھر میںکورونا وباکی دوسری لہر شروع ہوئی۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ بھارت اور کئی یورپی ممالک میں روزانہ متاثرین کی تعداد ایک بار پھر مجموعی طور پر ہزاروں میں ہو گئی۔ دوسری لہر اس لحاظ سے تشویشناک ہے کہ کورونا کا سب سے زیادہ اثر معیشت پر پڑا ہے۔ کاروبار تباہ ہورہے ہیں‘ لوگ بیروزگار ہورہے ہیں اور قوت خرید میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔ کورونا کے باعث کئی ماہ تک سکول بند رہنے سے بچوں کی تعلیم بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اگرچہ اس وقت سکولوں اور کالجوں میں حفاظتی تداببیر پر خاطر خواہ عمل کیا جارہا ہے لیکن طلباء کی کثیر تعداد کا میل ملاقات وبا کو پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ یقینا حکومت کے لیے کاروباری اداروں‘ کارخانوں اور بازاروں کو بند کرنا مشکل ہو گا اس لیے بہتر ہوگا کہ پہلے ہی ماسک ضروری قرار دے دیا گیا ہے۔ شادی ہال کے کاروبار سے وابستہ افراد کے تحفظات اگر چہ درست ہیں لیکن ضروری ایس او پیز پر پابندی کی ہدایت کے باوجود ایسی تقریبات سے کورونا پھیل رہا ہے تو تقریبات کو محدود کیا جانا ضروری ہے۔ پاکستان میں کوویڈ 19 کی روک تھام کے لیے قائم این سی او سی کے مطابق ملک میں 13 نومبر کو دو ہزار سے زیادہ (2165) افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی جبکہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں ۱نیس سے زاید افراد اس عالمی وبا سے ہلاک ہوئے ہیں۔ اب تک زیر علاج متاثرین (ایکٹیو کیسز) کی تعداد 24 ہزار 938 ہے اور گذشتہ روزتیس ہزار سے زاید ٹیسٹ کیے گئے۔پاکستان میں مجموعی طور پر اب تک 364,461 متاثرین کی تصدیق ہوئی ہے۔ ان میں سندھ میں 155873، پنجاب میں 111309، اسلام آباد میں 23533، خیبر پختونخوا میں 41823، گلگت بلتستان میں 4434، بلوچستان میں 16328 اور پاکستان میں کے زیر انتظام کشمیر میں 5261 مصدقہ متاثرین ہیں۔اب تک پاکستان میں کوویڈ 19 سے 7160 اموات ہوئی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ 2722 اموات سندھ میں ہوئی ہیں، جس کے بعد پنجاب میں یہ تعداد 2462 ہے۔ کورونا کی دوسری لہر کے دوران سب سے زیادہ غیرذمہ داری کا مظاہرہ سیاسی رہنمائوں کی جانب سے دیکھا گیا ہے۔ پہلے پی ڈی ایم کے جلسوں اور پھر گلگت بلتستان کی انتخابی مہم کے دوران احتیاطی تدابیر کی جی بھر کر خلاف ورزی کی گئی۔ ان حالات میں حکومت کی طرف سے بڑے اجتماعات پر پابندی کا فیصلہ اور ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے سختی بجا ہوگی۔