آخر جو ملک چند ہفتہ قبل تک کورونا سے نمٹنے کیلئے اپنی پیٹھ تھپتھپا رہا تھا کس طرح اس وبا ء کا اس بری طرح شکار ہو گیا۔ چین کے ساتھ ہیلتھ سفارت کاری کی مسابقت کرنے کیلئے دسمبر سے بھارت ہر ماہ 65ملین ویکسین کی خوراک، 11لاکھ ریمڈیسور انجکشن، 9,300میٹرک ٹن آکسیجن اور دو کروڑکووڈ ٹیسٹنگ کٹس برآمد کر رہا تھا، تاکہ عالمی برادری میں اپنی دھاک جما سکے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے تو اعلان کردیا تھا کہ اس وباء نے بھارت کو وشیو گورو یعنی عالمی پیشوا کا مقام دلا دیا ہے۔ پارلیمنٹ میں بتایا گیا کہ مودی کی قیادت میں بھارت نے کورونا پر فتح حاصل کی ہے۔چین کے ساتھ مسابقت اور وشوگورو بننے کی چاہت نے ان ملکوں کو بھی کنواں اور کھائی کے بیچ لا کر کھڑا کر دیا ہے، جن کو ویکسین کی پہلی کھیپ فراہمی کی گئی تھی۔ مارچ میں ڈھاکہ کے دورہ کے دوران وزیرا عظم مودی نے بنگلہ دیش کو 1.2ملین ویکسین ڈوزبطور تحفہ دیں۔ بنگلہ دیش نے اس کے علاوہ 30ملین ڈوز بھارت سے خرید کر ویکسین لگانے کا عمل بھی شروع کیا اور اسی کے ساتھ مزید 40ملین ڈوز کا آرڈر دے دیا۔ مگر اب بھار ت نے ویکسین کی برآمد پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔ بنگلہ دیش نے جن افراد کو پہلی ڈوز دی ، ان کیلئے اب دوسری ڈوز دستیاب ہی نہیں ہے۔ یہی حال مالدیپ اور کئی افریقی ممالک کا ہو گیا ہے، جو بھارت میں تیار کردہ ویکسین پر تکیہ کئے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ معلوم ہوا کہ پونہ شہر میں واقع ویکسین بنانے والی فرم سیرم انسٹیچوٹ مزید ویکسین بنانے سے قاصر ہے، کیونکہ اسے بنانے کیلئے خام مال امریکہ سے آرہا تھا، جس کی برآمدپر صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے پابندی عائد کر دی ہے۔ شمال مشرقی ریاست آسام کے وزیر صحت نے تو اعلان بھی کیا تھا کہ اب ماسک پہننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی اعتماد کے ساتھ الیکشن کمیشن نے پانچ صوبوں، مغربی بنگال، آسام، تامل ناڈو، کیرالا اور مرکزی انتظام والے علاقے پانڈیچری میں صوبائی انتخابات کا اعلان کیا ۔ انتخابی مہم میں کورونا پروٹوکول کی کھل کر اور جم کر خلاف ورزی کی گئی۔ اور تو اور خود وزیراعظم مودی اور انکے دست راست وزیر داخلہ امیت شاہ نے پر ہجوم ریلیوں کو کسی بھی پروٹوکول کی پیروی کئے بغیر خطاب کیا۔ اس سے بھی زیادہ مجرمانہ فعل اترا کھنڈ صوبہ کے ہری دوار شہر میں دریائے گنگا کے کنارے ہندوؤں کے سب سے بڑے کمبھ میلہ کے انعقاد کی اجازت دینا تھا۔ جس میں 48.51 لاکھ افراد نے شرکت کرکے دریا میں ڈبکی لگائی۔ اس دوران وہاں دو ہزار کے قریب افراد کورونا سے متاثر پائے گئے۔ایک سال قبل یہی انتظامیہ کورونا پھیلنے کی ذمہ داری تبلیغی جماعت کے ایک جلسے پر ڈال رہے تھے۔بھارت کے مین اسٹریم میڈیا نے تبلیغی جماعت کے افراد کو ’انسانی بم‘ اور ’ کورونا جہادی ‘ بھی کہا تھا۔ مگر کمبھ میں ڈبکی لگانے والے ان کیلئے ’عقیدت مند‘ ہیں۔اترا کھنڈ کے وزیر اعظم تیرتھ سنگھ راوت نے تو یہاں تک کہا ماں گنگا کے بہاؤ اور برکت سے کورونا کی وبا دور ہی رہے گی۔ ماں گنگا اسے پھیلنے نہیں دے گی، انھوں نے اعلان کیا تھا کہ ’’کووڈ کے نام پر کسی کو بھی میلے میں آنے سے نہیں روکا جائے گا۔ ایشور پر بھروسہ اور عقیدہ وائرس کو ختم کر دے گا۔ مجھے اس کا پورا یقین ہے۔‘‘واشنگٹن پوسٹ کے ایک اداریے میں لکھا گیا ہے کہ ’’کورونا وائرس کی وبا نے انڈیا کو ’نگل‘ لیا ہے لیکن لوگ ابھی بھی گنگا میں بنا ماسک پہنے ڈبکی لگا رہے ہیں۔‘‘ وباء کے شروع میں ہی پرائم منسٹرکئیر فنڈ شروع کیا گیا تھا، جس میں شفافیت کے فقدان کی وجہ سے انگلیاں اٹھتی رہی۔ سرکاری محکموں، کارپوریٹ اداروں اور دیگر افراد سے اس فنڈ کیلئے موٹی رقوم لی گئیں۔ اس فنڈ سے جو وینٹی لیٹر بنوائے گئے ان کے ٹھیکے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی سے تعلق رکھنے والے قریبی افراد کو دئیے گئے۔ ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے وینٹی لیٹر کے نام پر گھٹیا مال سپلائی کیا۔ راجستھان صوبہ کو جو وینٹی لیٹر دئیے گئے ان میں 90 فیصد ناکارہ تھے۔ فروری میں مہاراشٹر صوبہ کے ایک ڈاکٹر نے خبردار کیا تھا کہ کورونا وائرس کی تغیر یافتہ صورت بھارت میں نمودار ہو رہی ہے۔ مگر اس کو خاموش کرا دیا گیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ آٹھ ماہ قبل ملک میں دو بلین روپے کی لاگت سے 150کے قریب آکسیجن پلانٹ لگانے کیلئے ٹینڈر طلب کئے گئے تھے، جس میں دہلی کے آس پاس ہی 18پلانٹ لگنے والے تھے۔ مگر یہ منصوبہ پاور گلیاروں اور افسر شاہی کی طوالت کی نظر ہوگیا۔ اب حال یہ ہے کہ ٹرانسپورٹ طیارو ں کی مدد سے سعودی عرب، سنگا پور اور دیگر ممالک سے آکسیجن منگائی جا رہی ہے۔ صرف جنوبی صوبہ کیرالا نے اس مدت کے دوران اپنی آکسیجن تیار کرنے اور اسٹور کرنے کی صلاحیت کو 58فیصد بڑھادیا۔ دیگر صوبو ں سے ٹرکوں میں جو آکسیجن دہلی کیلئے روانہ کی جا رہی ہے، اسکو دیگر صوبے راستے میں ہائی جیک کر رہے ہیں۔اتر پردیش کی حکومت نے شکایت کی کہ اس کے حصہ کی آکسیجن دہلی کو دی گئی۔ ہریانہ حکومت نے دہلی جار رہے آکسیجن ٹینکرو ں کو روک کو اعلان کیا کہ ان پر پہلا حق اسی کا ہے، کیونکہ یہ اسی صوبہ کی فیکٹریوں میں تیار ہو گئے ہیں۔ بھارت میں ابھی تک 1.59فیصد آبادی کو ہی ویکسین لگائے گئے ہیں۔ وائرس کو قابو کرنے کیلئے تقریباً 60فیصد آبادی کا ویکسین لگانا لازمی ہے۔ پہلے بتایا گیا تھا کہ 60سے زیادہ عمر والوں کو ہی یہ ویکسین دی جائے گی۔ جب نوجوان کویڈ کا شکار ہونے لگے تب حکومت نے اعلان کیا کہ 45سال کے عمر والوں کو بھی یہ سہولت رہے گی۔ اب جب کہ وائرس نے بچوں کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا ہے اب بتایا گیا کہ یکم مئی سے 18 سال تک کی عمر والوں کو بھی ٹیکہ دیا جائے گا۔ماہرین ابھی ہی پیشن گوئی کر رہے ہیں کہ مئی میں اس ویکسین کے حصول کیلئے انارکی کا ماحول ہوگا کیونکہ اس اعلان کے باوجود اتنی بڑی تعداد میں ویکسین دینے کیلئے انفراسٹریکچر بنانے کا عمل نہایت ہی سست ہے۔ دوسری طرف جموں و کشمیر میں بھی جہاں فروری میں مشکل سے روزانہ 50سے60کورونا کیسز رپورٹ ہو رہے تھے، اب تعداد 2,000سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسکی ذمہ داری بھی براہ راست انتظامیہ کے سر ہے۔ خطہ میں نارملسی دکھانے کیلئے سرینگر شہر کا ٹیولپ گارڈن اور دیگر سیاحتی مقامات قبل از وقت کھول دئے گئے۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم مودی نے خود ٹویٹ کرکے گجرات اور مہاراشٹرا میں اپنے حامیوں کو بتایا کہ کشمیر جاکر ٹیولپ گارڈن کا لطف اٹھائیں۔ان کی اس اپیل کی وجہ سے ایک اژدھام امنڈ پڑا۔ وادی کشمیر میں محض 72وینٹی لیٹر ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق سرینگر شہر کے بڑے ہسپتالوں میں بھی آکسیجن سپلائی کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔ صورہ انسٹی چیوٹ جیسے بڑے ہسپتال، جہاں تین آکسیجن پلانٹوں سے فی منٹ3200لیٹر آکسیجن پیدا واری صلاحیت ہے ،وہیں آکسیجن کم پڑرہی ہے حالانکہ اس کے علاوہ450آکسیجن سلنڈر بھی دستیاب ہیں لیکن وہ بھی ناکافی لگ رہے ہیں کیونکہ مریض زیادہ ہیں اور سلینڈر ختم ہونے میں دیر نہیں لگتی ہے ۔ضلعی ہسپتالوں کا خدا ہی حافظ ہے ۔ بھارت میں صحت کا بجٹ مجموعی قومیپیداوار کا محض 1.6فیصد ہے، جبکہ 2017ء میں جاری ہیلتھ پالیسی میں حکومت کیلئے لازم کیا گیا تھا کہ اسکو 2.5صد تک لے جائے۔ پاکستان میں تو یہ اور بھی کم یعنی مجوعی قومی پیداوار کا 0.91فیصد ہے۔جبکہ ترکی میں جی ڈی پی یعنی قومی مجموعی پیداوار کا 4.4 فیصد صحت پر خرچ کیا جاتا ہے۔ کورونا وائرس نے یہ تو دکھایا ہے کہ جنگوں کی طرح وبائی امراض بھی معشیت کو تہہ و بالا کرسکتے ہیں۔ جنگوں اور قومی سلامتی کے ایشوز سے نمٹنے اور تیاری کیلئے حساس ادارے اور فوج متواتر مشقیں کرتے رہتے ہیں۔ ہر ملک کے پاس تیل کے اسٹریٹیجک ذخائر موجود ہوتے ہیں ، اس کے علاوہ ایمونیشن کے بھی ذخیرہ بنائے جاتے ہیں۔ صحت کے ایشوز سے نمٹنے کیلئے بھی اسی طرح کی چوکسی کی ضرورت ہے۔کیونکہ اس وبا نے یہ تو عیاں کردیا ہے کہ بڑی طاقتیں بھی صحت سے متعلق آلات و دوائیوں کا وافر اسٹاک نہیں رکھتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ صحت سے متعلق امور کو بھی قومی و انسانی سلامتی کے نظریہ سے دیکھا جائے۔