کورونا وبا کی شدت برقرار ہے۔ روزانہ جاں بحق ہونے والے افراد کی اوسط تعداد تین روز سے مسلسل 120کے قریب ریکارڈ کی جا رہی ہے ۔اس صورت حال میں حکومت نے لاہور سمیت ہائی رسک اضلاع میں سمارٹ لاک ڈائون میں 26اپریل تک توسیع کا فیصلہ کیا ہے۔ زیادہ تر ہائی رسک ولے اضلاع کا تعلق پنجاب سے ہے۔ سیکرٹری پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ 8فیصد کی شرح سے زاید والے اضلاع لاہور‘راولپنڈی ‘ ملتان‘ فیصل آباد‘ سرگودھا‘ گوجرانوالہ‘ رحیم یار خان‘ بہاولپور‘ بہاولنگر ‘ چنیوٹ ‘ حافظ آباد‘ قصور‘ ننکانہ صاحب‘ پاکپتن ‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ اور شیخو پورہ میں آئوٹ ڈور شادیوں‘ سماجی تقریبات‘ ان ڈور کھانے ،کھیلوں کی تقاریب‘ ثقافتی تہوار اور اجتماعات کے انعقاد پر مکمل پابندی ہو گی۔ اس دوران مارکیاں اور مزارات بھی بند رہیں گے۔ پنجاب میں ٹرین سروس 70فیصد مسافروں کے ساتھ جاری رہے گی اور تمام کاروباری مراکز شام 6بجے بند ہوں گے۔ ہفتہ اور اتوار کے روز یہ مراکز بند رہیں گے۔ محکمہ داخلہ سندھ نے کاروباری مراکز اور ماہ رمضان کے دوران عبادت گاہوں کے لئے خصوصی ایس او پیز اور نئی پابندیوں کی ہدایت کر دی ہے۔ کورونا کی تیسری لہر نے خاص طور پر پنجاب کو نشانہ بنایا ہے۔ اکثر اضلاع میں ہسپتالوں کے بستر اور وینٹی لیٹر کے ضمن میں مسائل سامنے آنے لگے ہیں۔ حکومت کی طرف سے مسلسل آگاہی مہم جاری ہے‘ شہریوں کو بتایا جا رہا ہے کہ ہر حالت میں ماسک لگا کر رکھیں‘ سماجی فاصلہ برقرار رکھا جائے‘ ہاتھوں کو صابن سے بار بار دھوتے رہیں۔یہ آگاہی مہم فرد سے متعلق احتیاطی تدابیر کی ہے۔ ان احتیاطی تدابیر پر ہم کسی دوسرے کے کہنے پر نہیں صرف خود عمل کر کے ہی اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ فرد کا دوسرا چہرہ سماج ہوتا ہے ۔ بہت سے افراد ایک برادری اور سماج کی شکل میں خود کو منواتے ہیں۔ فرد کی عادات‘ رہن سہن اور سوچ پورے سماج کو متاثر کرتی ہے۔ خاص طور پر وہ افراد جو سماج میں کسی طرح کی امتیازی حیثیت رکھتے ہیں انہیں مشکل وقت میں اپنا کردار مثالی بنا کر پیش کرنا ہوتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ رواں برس کے آغاز تک اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے پورے ملک میں جلسے اور جلوس نکالے۔ان جلسوں میں کورونا سے بچائو کی خاطر عالمی ادارہ صحت اور حکومت پاکستان کی سفارش کردہ احتیاطی تدابیر کو بری طرح نظرانداز کیا گیا۔ مرکزی سیاسی رہنمائوں نے ماسک کا تردد تک نہ کیا۔ جب کسی نے جلسے نہ کرنے کا مشورہ دیا اسے حکومت کا حامی کہہ کر خاموش کرا دیا۔ ان جلسوں جلوسوں نے کورونا وائرس کو بڑے پیمانے پر ایک سے دوسری جگہ پہنچا دیا۔ یوں سیاسی رہنما اور ان کی جماعتیں وبا کے دوران ایک ذمہ دارانہ کردار نبھانے اور پیش کرنے میں ناکام رہیں۔ دنیا کے اکثر ممالک میں کورونا ویکسین کی فراہمی کا کام پورا نہیں ہو سکا۔ دولت مند اور میڈیکل سائنس میں ترقی یافتہ گنتی کے ممالک نے اپنی آبادی کے بڑے حصے کو ویکسین فراہم کی ہے باقی ممالک میں شہریوں کو احتیاطی تدابیر پر ہی انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ بھارت جیسا ملک جو خود ویکسین تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہاں اب تک 7فیصد افراد کو ویکسین فراہم کی جا سکی ہے‘93فیصد آبادی ویکسین کا انتظار کر رہی ہے۔ پاکستان خود ویکسین تیار کرنے کی کوشش میں ہے۔ چین اور روس سے اس بابت ابتدائی بات چیت ہوئی ہے کہ وہ ویکسین کی تیاری کا یونٹ پاکستان میں لگائیں۔ اب تک پندرہ لاکھ کے قریب افراد کو ویکسین فراہم کر دی گئی ہے۔ ستر سال سے زاید عمر کے بزرگوں کو رعایت دی گئی ہے کہ وہ کسی بھی ویکسی نیشن سنٹر پر شناختی کارڈ دکھا کر ویکسین لگوا سکتے ہیں۔ پچاس سال سے زاید عمر کے افراد کی رجسٹریشن کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ یقینا لاک ڈائون سے روز مرہ کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ لوگوں کا روزگار چھن جاتاہے‘ بے روزگاری بڑھ جاتی ہے اور ریاست کے لئے اپنے شہریوں کو خوراک کی فراہمی مسئلہ بن جاتی ہے۔ پہلی لہر کے دوران احساس کفالت پروگرام کے تحت 200ارب روپے کے فنڈز عوام کی امداد اور مختلف طرح کی سبسڈیز کے لئے مختص کئے گئے۔ دو چار ہفتوں کی بات ہوتی تو اب بھی مکمل لاک ڈائون کیا جا سکتا تھا لیکن علاج کی عدم دستیابی‘ ویکسین کے حصول میں مشکلات اور عوام کی جانب سے مسلسل غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کے باعث سمارٹ لاک ڈائون کا فیصلہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ کورونا کی دوسری لہر کے دوران سمارٹ لاک ڈاون کے تحت پورا شہر بند کرنے کی بجائے اس گلی یا محلے کا لاک ڈائون کر دیا گیا جہاں کورونا کے پھیلائو میں اضافے کی اطلاع ملی۔ اسی طرح شادی ہالز کو مکمل بند کرنے کی بجائے کھلی جگہ پر تقریب کی اجازت دی گئی۔ ریسٹورنٹس کے لئے ایس او پیز جاری ہوئے‘ پھر صرف ٹیک اوے کی اجازت دی گئی۔ کاروباری مراکز کو چھ بجے شام تک بند کرنے سے یقینا کاروباری مشکلات آئیں گی لیکن یہ مسائل کاروبار کے مکمل بند ہونے سے بہتر ہیں۔ شہریوں‘ کاروباری افراد اور سماج میں نمایاں حیثیت رکھنے والے ہر فرد کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ اپنی اور دوسروں کی صحت و جان کی حفاظت کرے۔ کورونا کی ہلاکت خیزیاں بڑھ رہی ہیں۔ ہمارے پیارے موت اچک لے جا رہی ہے ان حالات میں سمارٹ لاک ڈائون کی مدت میں توسیع تحفظ کے ساتھ ساتھ معاشی معمولات رواں رکھنے میں مددگار ہو گی۔