یورپ اور امریکہ میں کورونا وائرس نے دیگر خطوں کی نسبت زیادہ تباہی مچائی ہے۔ یہاں پچھلی کئی دہائیوں سے حکومتوں نے بنیادی خدمات نجی شعبے کے حوالے کردی تھیں۔ خوراک کی فراہمی پہلے ہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دی گئی تھی۔ سیاست اور کاروبار کے اتحاد کی اس نئے جہت کی سب سے بڑی خرابی صحت کے شعبے میں واقع ہوئی۔ جب کورونا وائرس آیا تو یہ شعبہ اپنے کمزور ڈھانچے کے ساتھ اس نئی آفت کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ ویکسین موجود نہیں تھی ۔حکومتوں نے سرحدیں بند کیں تو خوراک کی رسد پر فرق پڑا۔ یوں کورونا وائرس ایک بحران کی شدت اختیار کرگیا۔ آمد ورفت اور گھومنے پھرنے کی آزادی پر لگنے والی پابندیوں سے لوگ جس ذہنی اذیت سے گزرے اس نے سرمایہ دارانہ نظام کی افادیت پر سنجیدہ سوال اٹھا دیے ہیں۔ کورونا وائرس کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے ان معاشروں میں جہاں نظام سیاست کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے وہاں علم کی مقصدیت پر صدیوں پرانی بحث بھی تازہ ہو گئی ہے۔ جوں جوں اس وبا کی حشر سامانیاں بڑھتی جارہی ہیں ، یہ سوال نہایت شدت سے اٹھایا جارہا ہے کہ آخر اس علمی ترقی کا کیا ہوا جس کے انسان دعوے کر تا پھرتا تھا۔ فطر ت کو تسخیر کرنے اور ستاروں پر کمند ڈالنے کی باتیں کرنے والے کیوں ایک وائرس کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں ہیں؟ وباکی ہئیت کوسمجھنے اور اس کی لائی گئی بیماری کا توڑ کرنے میں سال بھر لگ گیا اور جب علاج سامنے آیا ہے تو وائرس کی بھی نئی قسمیں منظر عام پر آگئی ہیں۔ یہ بات اب مسلم ہوچکی کہ مستقبل قریب میں اس مصیبت سے چھٹکارہ پانے کاکوئی امکان نہیں۔ یہ ایک آدھ ملک یا خطے کی بات نہیں بلکہ پوری دنیا اس کے نشانے پر ہے۔ یوں صنعتی انقلاب سے وجود میں آنیوالی انسانی تہذیب پر لرزہ طاری ہے۔ پچھلی صدی میں اس سرمایہ دارانہ نظام کی حامل تہذیب کو عالمی جنگوں سے خطرہ ہوا تو اقوام متحدہ تشکیل ہوئی اور کسی حد تک اس خطرے پر قابو بھی پا لیا گیا لیکن اب کی بار مد مقابل فطر ت ہے ۔ جس طرح فرعونیت کے پاس مچھر کا علاج نہیں تھا، بالکل اسی طرح سرمایہ دارانہ تہذیب کے پاس وائرس کا مقابلہ کرنے کی بھی سکت نہیں۔ چلیں سرمایہ داروں کی لالچ مثال یہ ہے کہ کب ان کی کوشش نہیں تھی کی کہ وہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے ریاستی مشینری کا سہارا لیں اور مال و زر کے حصول لیے انسانی اقدار کو پامال کریں ، لیکن صاحب علم لوگوں کو کیا ہوا کہ وہ اپنے ضمیر کا سودا کرکے ان کے کاسہ لیس بن گئے ۔ اشیائے صرف کی بڑے پیمانے پر پیداوار اور اس کی دنیا بھر ترسیل کی آزادی کو بنیاد بناکر سرمایہ دارانہ نظام مغرب سے اٹھا اور اپنے سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کو روندتا مشرقِ بعید تک نکل گیا۔ عدل و مساوات کے آفاقی اصولوں پر قائم تہذیبیں ہی مسمار نہیں ہوئیں بلکہ جنگلی اور آبی حیات کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ میلوں پھیلی کنکریٹ کی عمارتوں پر ایستادہ شہر ، صنعتوں ، کثیف دھویں کے بادل چھوڑتی گاڑیا ں ، ہوائی جہاز اور تباہ کن ہتھیار فطر ت کے خلاف اعلان جنگ ہی تو ہیں ۔ اس جنگ میں توسیع پسند حکمران ہی نہیں شامل تھے بلکہ مبغلیں بھی اس کا ہراول دستہ تھے۔ حکمرانوں کی توسیع پسندی ، سرمایہ داروں کی منافوں کے پیچھے دوڑ اور مبلغین کی شدت پسندی تو سمجھ میں آنے والی بات ہے لیکن صاحبان علم وفکر کو کیا ہوا ، یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ڈھونڈھے بغیر انسانیت آگے نہیں بڑھ سکتی۔ آثار و قرائن یہی بتاتے ہیں کہ کورونا وائرس نئے دور کا پیش خیمہ ہے۔ انسانیت کی بقا اور سلامتی کے لیے ایک نیا عالمی نظام سیاست نا گزیر ہوچکا ہے جس کی بنیاد فطرت سے جنگ نہیں بلکہ اس کے ساتھ مطابقت پر ہو۔ اس نظام کی طرف پیش قدمی یقیناً مشینی دور کے خطرات اور مسائل کو سامنے رکھ کر کی جائے گی۔ علم کو اخلاقیات کے دائرے میں قید کیے بغیر فطرت کے غیض و غضب سے بچنا محال ہے۔ انسان کی عقل ودانش کو فطری اصولوں پر پرکھنا ، ان سے بیگانگی کو جہالت اور ان کی خلاف ورزی کو جرم عظیم قرار دینا پڑے گا۔ چین میں نمودار ہونے والا وائرس دنیا میں جس سرعت کے ساتھ پھیلا ہے وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ نئے عالمی نظام کے قواعد و ضوابط نہ صرف ریاستوں کوفطرت کے ساتھ ہم آہنگی کا درس دیں گے بلکہ ان پر عملدرآمد کو بھی یقینی بنائے جائے گا۔ ریاستوں کی بقا اور عالمی نظام میں قد کاٹھ ان کے نظامِ قدرت کے حق میں اٹھائے گئے اقدامات پر منحصر ہوگا۔ مغرب کورونا وائرس کے چیلنج کا کوئی نہ کوئی حل نکال لے گا کیونکہ حریت فکر کی یہاں مضبوط روایت موجود ہے ، جمہوریت اور حکومتی جوابدہی کا رواج ہے۔ مشترکہ اقدار کی بنیاد پر امریکہ اور یورپ آپسی تجارت کو فروغ دے کر ترقی پزیر ممالک سے قطع تعلق کر سکتے ہیں ۔ اس حوالے سے اشارہ انہوں نے کورونا وائرس پھیلنے پر ہی دے دیا تھا۔ امریکہ میں سیاسی تبدیلی اور یورپ کے ساتھ تجارتی اور دفاعی تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوششوں کا آغاز اس سمت میں نمایا ں قدم ہے۔ مسئلہ ان ترقی پزیر ممالک کا ہے جہاں مغرب کے حواری خاندان باہر سے ملنے والی امداد اور سفارتی حمایت کے بل بوتے پر قابض ہیں، کاروبار سیاست معدود ِچند ملٹی نیشنل سے ہونے والے ٹیکسوں کے سہارے چل رہا ہے یا پھر عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے دیے گئے قرضوں پر۔ آبادی میں اضافہ ، بنیادی سہولتوں کا فقدان پہلے ہی نمایا ںہے ، کورونا وائرس کے بعد معاملات اور بھی بگڑ گئے ہیں۔ عوام سے خنجر کی نوک پر اکٹھے کیے گئے محصولات سے قرضوں کی ادائیگی ہی مشکل سے ہو پاتی ہے ، بھاری دفاعی اخراجات اور اشرافیہ کی خدمت کے لیے مختص دیو ہیکل انتظامی مشینری کے اخراجات کیسے پورے ہوںگے ، یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر ابھی تک بحث ہی نہیں چھڑ سکی۔ یوں بہت سے ترقی پذیر ملکوں کی بقاخطرے میںہے ۔ اگر یہاں اصلاح احوال کے لیے جرات مندانہ اور نتیجہ خیز اقدامات اٹھا کر تاریخ کا پہیہ نہ موڑا گیا تو مستقبل قریب میں یہ اپنی برائے نام آزادی بھی کھودیں گے۔