عالم گیروبا کووڈ19کی ہمہ گیر تباہ کاریاں لگاتارجاری ہیں اورامریکہ اوریورپ خاص طورپراس کاہدف نظرآرہاہے ۔ تادم تحریرصرف امریکہ میں 52ہزارلوگوں کی اموات ہوئیں جبکہ امریکہ اوریورپ کی اموات کی تعداد دو لاکھ سے زائدہے۔بڑے پیمانے پرانسانی جانوں کے اس نقصان کے باوجودایک اہم بات جوسامنے آئی وہ یہ کہ زمین کی پشت سے سمندر کی گہرائیوںتک انسان نے اپنے اعمال سے جوآلودگی پھیلارکھی تھی وہ تھم گئی اورکوروناکی وجہ سے جرائم کی شرح کم ہوئی ۔کوروناکے ڈرسے پوری دنیامیں لوگ گھروں میںبندہیں،عیاشی اورجرائم کے اڈوں تک انکی رسائی ممکن نہ ہوسکی ۔ کورونانے بحروبرکواس طرح خاموش کرایاجس سے کرہ ارض پرہورہی بداعمالیوں، گناہوں اورجرائم پر روک لگ گئی اور دنیا بھر میںہورہے گناہ کے کام کی شرح میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔کئی عالمی رپورٹس اس امرپرگواہ ہیں کہ کورونانے جہاں عالمی منڈیوں کوبندکردیاوہیں اس نے گناہ کے ہرمقام اورہراڈے کومقفل کردیا۔دنیا کے دوسرے شہروں میں بھی اس مہلک وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں جرائم میں کمی واقع ہوچکی ہے۔ شکاگو امریکا کے ان شہروں میں شمار ہوتا ہے، جہاں تشدد کے واقعات عام ہیں۔کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے امریکی حکام نے دیگرعلاقوں کی طرح اس شہر کو بھی بند کررکھا ہے۔اس وجہ سے حالیہ ہفتوں کے دوران میں گذشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں منشیات کے دھندے کے الزام میں گرفتاریوں کی شرح میں 42 فی صد کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ منشیات یعنی موت کے سوداگرکہیں بھی ، کچھ بھی فروخت کرنے کے لیے آزادانہ نقل وحرکت کے قابل نہیں رہے ہیں۔لاطینی امریکا میں واقع ممالک میں بھی عشروں کے بعد پہلی مرتبہ جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوچکی ہے ۔ایل سلواڈور نے گزشتہ ماہ ایک دن میں اوسطا دو ہلاکتوں کی اطلاع دی تھی جبکہ اسے قبل ایک دن میں اوسطا 600 افرادکے قتل کی رپورٹ بھی درج ہوتی رہی ہے۔ اسی طرح پیرو میں گذشتہ ماہ جرائم کی شرح میں 84 فی صد کمی واقع ہوئی تھی۔لیما میں مردوں کی تجہیز وتکفین کا کام کرنے والے رال گونزالیز کا کہنا ہے کہ ان کے پاس پہلے ایک دن میں 15 میتیں لائی جاتی تھیں،ان میں زیادہ تر مقتولین ہوتے تھے۔اسی ہفتے رال کو چھے گھنٹے تک بینچ پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا پڑا ہے اور اس دوران میں ان کے پاس کوئی ایسی لاش نہیں لائی گئی جوکسی مقتول کی ہو۔ ادھر 10 اپریل 2020ء کوشائع ہونے والی ایک عالمی رپورٹ میں کہاگیاکہ کورونا وائرس کے باعث لوگوں کے گھروں میں رہنے سے زمین کم ہل رہی ہے۔بیلجیئم میں رائل آبزرویٹری کے سائنسدانوں نے اس بات کو سب سے پہلے محسوس کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ زمین کی تھرتھراہٹ کی فریکوئنسی 1-20 ہرٹز کے درمیان ہے اور ایسا سماجی پابندیاں لگنے کے بعد سے ہوا ہے۔ یاد رہے کہ ایک سے 20 ہرٹز کی فریکوئنسی سے نکلنے والی آواز ایک بڑے گٹار یا موسیقی کے بڑے آلے سے زیادہ گہری ہوتی ہے ۔کورونا وائرس کے خوف سے دنیا بھر کے شہروں کی گلیاں اور بازار لوگوں سے خالی ہیں۔دنیا بھر میں اربوں افراد کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے گھروں تک محدود ہیں یا ان کی نقل و حرکت محدود ہے جس کی وجہ سے ہمارے سیارے زمین کے حرکت کرنے کے انداز پر بھی فرق پڑ رہا ہے۔لاک ڈان کی وجہ سے کام یا تفریحی کی غرض سے ٹرینوں اور گاڑیوں کا سفر بہت کم رہ گیا ہے اور بہت سے بھاری کارخانے بھی بند ہیں۔اتنے بڑے پیمانے پر انسانی سرگرمیوں میں کمی سے زمین کی سطح پر پیدا ہونے والا ارتعاش بھی کم ہو گیا ہے۔ سائنسدان جو ہر روز ہمارے شہروں میں شور کو ماپنتے ہیں اور جو سمندر کی گہرائیوں پر تحقیق کرتے ہیں، انھیں شور میں کمی کے واضح اشارے ملے ہیں کہ دنیاپہلے سے خاصی خاموش ہے۔اس نئی سیسمولوجیکل تحقیق کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہماری زمین میں ارتعاش بالکل ختم ہو گیا ہے لیکن پہلے کے مقابلے میں فرق بہت واضح ہے اور دراصل یہ مفید بھی ہے۔انسانی سرگرمیاں درحقیقت پس منظر میں شور کی طرح ہیں، جس کی وجہ سے یہ سننے میں بہت دشواری ہوتی ہے کہ ہماری زمین میں قدرتی طور پر کیا ہو رہا ہے۔واشنگٹن میں قائم ایک تحقیقاتی ادارے کی ویب سائٹ پر سیسمولوجسٹ اینڈی فراستو نے کہا کہ آپ کو ایسے سگنل مل رہے ہیں، جن میں شور کم ہے جس کی وجہ سے آپ کو ان سے زیادہ معلومات اخذ کرنے میں آسانی ہو رہی ہے۔کچھ تحقیق کار یہ سمجھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ دراصل ان کے علاقے میں ہو کیا رہا ہے۔ امپیرئل کالج لندن کے سٹیون ہکز کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ لندن اور ویلز کے درمیان شاہراہ ایم فور پر کم ٹریفک ہے۔انھوں نے ایک ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ یہ بہت واضح ہے کہ گذشتہ کچھ دنوں سے صبح کے اوقات میں شور کی سطح پہلے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں اس کی وجہ مصروفیت کے اوقات میں کم رش ہے۔ بہت کم لوگ سفر کر رہے ہیں اور سکول بھی نہیں جا رہے۔زمین کی اوپر کی تہہ 70 کلومیٹر گہری یا موٹی ہے لیکن اس کے باوجود وہ انسانی سرگرمیوں سے ہلتی ہے۔