یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ " کورونا" کی موجودہ لہر تشویشناک حد تک خطر ناک ہے۔ مزید یہ کہ تیس فیصد لوگوں میں اس کی علامات ظاہر ہی نہیں ہوتیں،جو کہ اور بھی زیادہ خطرناک ہے ، اس لیے کہ کورونا کے "کیئر ئیر" کو از خود بھی اس کا پتہ نہیں چلتا، وینٹی لیٹر، جس کو کورونا کے علاج میں سب سے مفید سمجھا جاتاہے، پر بھی ننانوے فیصد مریضوں کی اموات ہورہی ہیں، انہوں نے کہا کہ آئی سی یو میں ایک مریض کا انتقال ہوتا ہے ، تو پورے وارڈ کے مریض سہم جاتے ہیں۔ دوسری طرف پنجاب کا دارالحکومت لاہور ، اس وقت کورونا کا مرکز بن چکا ہے ، دو روز قبل، ایک ہی دن میں 1408 نئے کیسز سامنے آئے اور ایک دن میں 7 مریض اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ صرف لاہور میں مریضوں کی مجموعی تعداد اکیس ہزار سے تجاوزکر چکی ہے، جبکہ اموات تین سو کے قریب۔22 مئی کے بعد لاک ڈائون کی نرمی کا مفہوم یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ شاید کورونا ہی ختم ہوگیا ہے ، اور لوگوں نے بازاروں اور مارکیٹوں کا رُخ ایسے کیا جیسے کورونا کے خاتمہ پر ، کوئی جشن بپا ہو، موجودہ خوفناک صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ حکومتی کوششوں کو ثمر بار کرنے کے لیے عامتہ الناس، پوری سپرٹ کیساتھ، ان ایس او پیز پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔جن کا تعین بہت غوروخوض کے بعد ہوا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے ایک روز قبل لاہور میں ایک اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاک ڈائون نہیں کرسکتے، ’’لاک ڈائون‘‘کا مطلب پوری معیشت کو بند کرنا ہے، جبکہ پچیس فیصد لوگ غربت سے نیچے، زندگی گزار رہے ہیں۔ لاک ڈائون کی وجہ سے دیہاڑی دار بیروزگار ہو جاتے ہیں، جس کے سبب وہ اپنے بچوں کا پیٹ نہیں پال سکتے۔ جس کے لیے ہم زیادہ سے زیادہ ’’سمارٹ لاک ڈائون‘‘ پر غور کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف 92ایچ ڈی ٹی وی کے معروف پروگرام ’’نور قرآن‘‘ میں، کل مفتی محمد فاروق القادری صاحب نے ارباب حل و عقد سے سرکاری اور حکومتی سطح پر اجتماعی دعا اور توبہ کی درخواست کی ہے۔ ایسی ’’توبہ اور استغفار‘‘ جو صدق دل سے للھیّت سے آراستہ ہے،جیسے حضرت یونسؑ مَتّٰی کی قوم نے اللہ تعالی کے عذاب کے خوف میں معافی مانگی اور آیا ہوا عذاب ٹل گیا تھا۔ حضرت یونس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے "نینویٰ" کے باشندوں کی ہدایت کے لیے رسول بنا کر بھیجا، یہ علاقہ موجودہ عراق کے شہر موصل کا ایریا بنتا ہے، لوگ بت پرستی کے عادی تھے، حضرت یونسؑ نے ان کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور گناہوں سے تائب ہونے کی تلقین کی اور انہیں متنبہ کیا کہ اگر وہ اس طرزِ عمل سے باز نہ آئے تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوگا۔وہاں کے لوگ بڑے چالاک تھے ، انہوں نے آپس میں مشورہ کیااور کہا کہ حضرت یونسؑ نے کبھی غلط بیانی سے کام نہیں لیا، اگر آپ، رات ہمارے اس شہر میں ہی مقیم رہے تو سمجھیں خطرے کی کوئی بات نہیں اور اگر وہ یہاں سے رخصت ہوگئے ، تو یقین کرلیں کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب ضرور نازل ہوگا۔ لوگوں نے دیکھا کہ رات کو حضرت یونسؑ شہر سے نقل مکانی فرمارہے ہیں۔ مقامی باشندوں کو یقین ہوگیا کہ اب واقعتاً اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہونے کو ہے ۔ چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف سے کالی بدلیاں نمودار ہونا شروع ہوئیں اور ہر طرف سے دھواں اُٹھ کر شہر پر چھا گیا ۔ لوگوں کو فکردامن گیر ہوئی ، وہ حضرت یونسؑ کی تلاش میں نکلے، لیکن حضرت یونسؑ دور جاچکے تھے، شہر والوں کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ خوفِ خدا کا لوگوں پر غلبہ ہوا، اللہ تعالیٰ کے عذاب سے وہ کانپ گئے، اور تمام لوگ پھَٹے پُرانے کپڑ ے پہن کر، اپنے مال و اسباب، بیوی، بچوں حتی کہ اپنے جانوروںاور مویشیوں کو لے کر شہر سے باہر کھلے میدان میں نکلے، رو رو کر صدقِ دل سے ، اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی ، حضرت یونسؑ پر ایمان لانے کا اقرار کیا ، باہمی طور پر جس کی حق تلفی تھی، اس کا ازالہ کیا، آپس میں ، کسی کا ، جو لین دین تھااس کا حساب باک کیا، اللہ تعالیٰ کو شہر والوں کی یہ بے چینی، نیاز مندی اور آ ہ وزاری بڑی پسند آئی، ان کی دُعائوں اور اِلتجائوں پر اس کو رحم آیا اور اس کا فضل و کرم غالب آگیا۔ اُس خوفناک عذاب کی بدلیاں چھَٹ گئیں اور شہر میں امن و سکون ہوگا۔ طبرانی میں روایت ہے ، کہ جب نینویٰ والے عذاب کے خوف سے ایک درویش کے پاس گئے، جو ایک عالم اور صاحب ایمان و یقین تھا، تو اُس نے ان کو یہ دُعا تلقین فرمائی: یَاحَیُّ حِیْنَ لاَ حَیُّ و یَا حَیُّ یُحْیِ الْمَوْتیٰ وَ یَا حَیُّ لاَ اِ لٰہَ ا لِاَّ اَنْتَ۔جبکہ معروف بزرگ حضرت فضیل بن عیاض ؒکا قول ہے کہ یہ عذاب اس دعا کی برکت سے رفع ہوا: اَللّٰھُمَّ اِنَّ ذُ نُوْ بَنَا قَدْ عَظُمَتْ وَجَلَّتْ وَ اَنْتَ اَعْظَمُ وَ اَ جَلُّ فَا فْعَلْ بِنَا مَا اَنْتَ اَھْلُہٗ وَ لاَ تَفْعَلْ بِنَا مَا نَحْنُ اَھْلُہٗ۔یعنی حضرت ذوالنون کی وہ دعا جو مچھلی کے شکم میں انہوں نے کی تھی جو مسلمان جس مشکل میں ان الفاظ سے دعا کرے گاا للہ تعالی اس کی دعا قبول فرمائے گا: فَنَا دٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّااِلٰہَ اِ لَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنّیِ کُنْتُ مِنَ الظّلِمِیْنَ۔ یعنی : "پھر اس نے پکارا(تہ در تہ)اندھیروں میں کہ کوئی معبود نہیں سوا تیرے، پاک ہے توُ، بے شک میں ہی قصور واروں میں سے ہوں "۔ حاکم نے ایک اور ارشاد نبوی ﷺ اس طرح نقل کیا ہے :حضورﷺ نے اپنے صحابہؓ سے پوچھا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتادوں کہ جب تمہیں کوئی غم اور مصیبت لاحق ہواور تم اس سے بارگاہِ الٰہی میں التجا کرو، تو اللہ تعالیٰ تمہاری مشکل آسان فرمادے؟ صحابہؓ نے عرض کی:اے اللہ کے رسولﷺـ!ضرور ارشاد فرمایئے۔ تو حضورﷺ نے یہی دعا ارشاد فرمائی ۔ جیسے ہم" لۃ الکریمہ" کہتے ہیں ۔ حضرت شاہ عبد العزیزؒ نے اپنے والد بزرگو ار حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ سے ’’حاجات‘‘ کے لیے نفل پڑھنا بیان فرمایا ہے کہ انسان ’’مہمات مشکلہ‘‘ کے برآنے کے واسطے چار رکعتیںپڑھے۔ پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد :لَااِلٰہَ اِ لَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنّیِ کُنْتُ مِنَ الظّلِمِیْنَO فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ وَ نَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِ وَ کَذٰ لِکَ نُنجْیِ الْمُوْ مِنِیْنَ کو سو بار پڑھے۔ دوسری رکعت میں فاتحہ کے بعد: رَبِّ اَ نّیِْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْ حَمْ الرّٰ حِمِیْنَ سو بار پڑھے۔ تیسری رکعت میں فاتحہ کے بعد: وَاُ فَوِّ ضُ اَمْرِ یْ اِلَی اللّہِ اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرُٗ بِالْعِباَدِسوبار۔ چوتھی رکعت میں بعد فاتحہ کے: قَالُوْاحَسْبُنَا اللَّہُ وَ نِعْمَ الْوکِیْلُ سوبار۔پھر سلام پھیر کر سوبار یہ کہے: رَبِّ اَ نِّیْ مَغْلُوْ بُٗ فَا نْتَصِرْ۔ شاہ عبد العزیز صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ یہ چاروں آیتیں اسم اعظم ہیں،کہ ان کے وسیلے سے جو سوال کیا جائے ان کو اللہ قبول فرماتا ہے۔ ٭٭٭٭