وفاقی حکومت پر بیرونی کم اور داخلی دباؤ زیادہ ہے۔ حکومت کو معلوم ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن کا نوٹیفکیشن جاری کرنا مشکل نہیں ہے مگر وہ نوٹیفکیشن بھوکے عوام کا پیٹ نہیں بھر سکتا۔ اس لیے ابتدا سے وفاقی حکومت نے اپنی پالیسی کو متوازن بنانے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ کورونا کے سلسلے میں عوامی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہے۔ ویسے بھی اس کے سوا اور کوئی چارہ بچتا بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ پوری دنیا میں حکمران قوتوں کو کورونا کی وجہ سے ایک ہونا پڑا ہے۔ دنیا میں ایک دوسرے کے خلاف کام کرنے والی پارٹیوں نے آپس میں سیاسی سیز فائر کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کیوں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ ہسپتالوں میں کورونا کا شکار بننے والے افراد کا رش لگا ہوا ہو اور ملک کی سیاسی پارٹیاں آپس میں دست و گریباں ہوں۔یہ بہت اہم اور قیمتی لمحات ہوتے ہیں جب سیاسی قوتیں آپس میں نظریاتی اور سیاسی اختلافات بھلا کر ایک ہوجاتی ہیں۔ سیاسی قوتیں تو علمی اور عقلی طور پر کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتی ہیں جب کہ جنگل میں بھی جب سیلاب آجاتا ہے تب ساری جانور ایک جزیرے پر جمع ہوجاتے ہیں۔ہم نے فطرت کے اصول نہ چرند سے سیکھے ہیں اور نہ پرند سے سیکھے ہیں۔ جب ہمارے صوفی درویشوں نے انسانوں کو بار بار فطرت سے سیکھنے پر اصرار کیا ہے۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے کتنی خوبصورت بات کہی ہے کہ: ’’وہ آپس میں مل کر اڑتے ہیں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں دیکھو پرندے انسانوں سے زیادہ پیارے کرنے والے ہیں!!‘‘ کرہ ارض پر کورونا کے اثرات کیسے پڑ رہے ہیں؟ یہ سوال طویل اور بہت گہرے جواب کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس وقت ہم جن حالات کا سامنا کر رہے ہیں ان میں ہم کو سب سے زیادہ اتحاد اور صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔ ہم کورونا کے حوالے سے حالت جنگ میں ہیں۔ اس صورتحال میں لازم ہے کہ ہم فوجی دستے کی طرح منظم رہیں۔اگر کوئی بھی اوچ نیچ ہوئی تو ہم بہت بڑے نقصان کا سبب بن سکتے ہیں۔ پاکستان میں صوبوں کے درمیان کبھی کم اور کبھی زیادہ کشمکش چلتی رہی ہے۔ مگر یہ تو ہر گھر میں ہوتا ہے۔ سندھی زبان میں کہتے ہیں ’’گھر کے برتن آپس میں ٹکراتے رہتے ہیں‘‘ مگر جس خطرہ آج ہم پر منڈلا رہا ہے ایسا خطرہ پاکستان تو کیا اکثر ممالک کے تاریخ میں آج تک نہیں آیا۔آج پوری دنیا ایک دوسرے پر اپنے در بند کیے بیٹھی ہے۔ آج پوری دنیا سوچ رہی ہے کہ کورونا سے نجات کب حاصل ہوگی؟ اس سوال کے ساتھ ہم بھی جڑے ہوئے ہیں مگر افسوس اس بار بھی وفاق اور سندھ کے درمیاں کورونا کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اختلافات ابھر کر سامنے آگئے ہیں۔ کیا وفاق الگ ماہرین سے مشورے کرتا ہے اور حکومت سندھ کی رہنمائی کرنے والے ایکسپرٹ اور ہیں؟ ایسا کچھ نہیں ہے۔ اس وقت تو ہر باشعور انسان جان چکا ہے کہ اسے اس مرض سے کس طرح محفوظ رہنا ہے؟ہم سب جانتے ہیںکہ کورونا کا علاج احتیاط ہے ۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ اپنے آپ اور خاص طور اپنے ہاتھوں کو صاف رکھنا ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ ضروری فاصلہ رکھنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا موقف ہے کہ کورونا سے بچنے کے احتیاط بروئے کار لاتے ہیں ہم کو زندگی کا پہیہ بھی چلانا چاہئیے۔ کیوں کہ صرف خوف کے باعث ہم نے کرفیو لگا دیا تو زندگی کس طرح چلے گی؟ پاکستان کی اقتصادی صورتحال پہلے ہی بہت کمزور ہے۔ کورونا کے سلسلے میں اگر ہم نے سب کچھ بند کردیا تو لوگ کہاں جائیں گے؟ خاص طور پر وہ لوگ جو روز کماتے ہیں اور روز کھاتے ہیں۔ مگر اب تو وہ لوگ بھی پریشانی کا شکار ہو چکے ہیں جو لوگ چھوٹی سی تجارت کرتے ہیں۔ جو کرائے کی دوکان پر دو سیلز بوائے بٹھا کر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں وہ بھی پریشان ہیں کہ کب تک مارکیٹ بند رہے گی اور کب تک ان کو گھر بیٹھے دوکان کا کرایہ اور ملازمین کی تنخواہ دینا ہوگی؟ پاکستان تو تیسری دنیا کے غریب ممالک میں شامل ہیں مگر جو ملک دنیا کے حکمران کہلائے جاتے ہیں؛ ان کی لیے بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے عوام کو بٹھا کر کھلائیں۔ کورونا کے سلسلے میں سب سے تشویشناک اور پریشان کن بات یہ ہے کہ اس وبا کے حوالے سے ہم نہیں جانتے کہ یہ آزمائش کب تک چلے گی؟ عالمی ادارہ صحت کا موقف ہے کہ جب تک کورونا کی ویکسین دریافت نہیں ہوتی تب تک حالات پہلے جیسے نہیں ہو سکتے۔ کورونا نہ صرف ملکی بلکہ عالمی معیشت کو تیزی سے تہہ بالا کررہا ہے۔ کورونا کے سلسلے میں حکومت سندھ اور وفاقی حکومت کی سوچ اور سمجھ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ وفاقی حکومت احتیاط کے ساتھ قدم اٹھانے پر اصرار کر رہی ہے جب کہ سندھ حکومت کا موقف ہے کہ سخت ترین لاک ڈاؤن کو عمل میں لایا جائے۔ حکومت سندھ عوام کو راشن پہنچانے کے دعوے تو کر رہی ہے مگر ہم سندھ میں رہتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ حکومت سندھ نے اپنے دعوے کے حوالے سے دس فیصد بھی عملی کام کا مظاہرہ نہیں کیا۔ سندھ میں تھر تو ہمیشہ غربت کا گھر رہا ہے مگر اب تو سندھ کے دیگر علاقوں کی صورتحال بھی ابتر ہو رہی ہے۔ حکومت سندھ کو صرف اپنے عوام کے مفاد میں اتنا سوچنا چاہئیے کہ اگر یہ بھوک کے ستائے ہوئے لوگ سرکشی پر امڈ آئے تو حکومت کیا کرے گی؟ حکومت سندھ نے اب تک کسی ایک ڈویژن یا ضلع تو کیا کوئی ایک تحصیل اور کوئی ایک ایسی یوسی کو ماڈل بنانے اور دنیا کو دکھانے میں کامیاب نہیں ہو پائی کہ جس کو دیکھ کر اسے داد دی جائے۔ لاک ڈاؤن نے کے سلسلے میں حکومت سندھ جس طرح ضد پر اڑی ہوئی ہے اس کا سبب یہ نہیں کہ وفاقی حکومت سے زیادہ خبردار اور عوام کی وفادار ہے۔ اس کا سبب صرف اتنا ہے کہ پیپلز پارٹی کورونا کے دنوں میں وفاق کے ساتھ اختلافات کا رکھ کر دراصل اپنے وہ مطالبات منوانا چاہتی ہے جن کا تذکرہ آن دی ریکارڈ نہیں کیا جاتا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو جو رعایت ملی ہے وہ انسانی ہمدردی سے کہیں زیادہ ہے۔ کیوں کہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کا نام تو بیماروں کی لسٹ میں آسکتا ہے مگر مریم نواز اور فریال تالپور کو حاصل رعایت کس نظر سے دیکھی جائے؟ وفاقی حکومت نے نواز شریف اور آصف زرداری کو ملنے والی رعایت پر جس صبر کا مظاہرہ کیا ہے ؛ کیا وہ کافی نہیں؟ سندھ میں پیپلز پارٹی کے لیے یہ سب کچھ کافی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی نے کورونا پر اختلاف رائے کا بہانہ بنا کر وفاقی حکومت سے یہ مطالبات کرنے شروع کیے ہیں کہ نہ صرف ان کے پہلے بلکہ دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت پر داخل مقدمات ختم کیے جائیں۔ اگر حکومت وقت ایسا نہیں کرے گی تو حکومت سندھ کورونا ایشو پر عملی اختلافات کا مظاہرہ نہیں چھوڑے گی۔ حکومت سندھ اور سندھ کے سیاسی طور پر باشعور افراد کو سوچنا چاہئیے کہ کیا کورونا کے دنوں میں سیاسی بلیک میلنگ کسی بھی اخلاقی معیار پر پوری اترتی ہے؟