میاں نواز شریف نے ممبئی حملوں کے حوالے سے اپنے بیان پر قائم رہ کر اپنے برادر خورد میاں شہباز شریف اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو قوم کے سامنے شرمندہ کرایا جو اسے صحافی کی اختراع اور مخالفین کا پروپیگنڈا قرار دے رہے تھے مگر خود کو’’ صاحب کردار‘‘ ثابت کیا ؎ جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیے اب لوگ لاکھ کہتے پھریں کہ ڈان لیکس درست تھی تو میاں صاحب نے پرویز رشید‘ طارق فاطمی اور رائو تحسین کو قربانی کا بکرا کیوں بنایا؟ وزیر اعظم ہائوس کی طرف سے خبر کی بار بار تردید کیوں ہوگی؟ اور جسٹس (ر) عامر رضا کی سربراہی میں تحقیقاتی کمشن کی تشکیل کا مقصد کیا تھا؟ مگر جو ہونا تھا ہو گیا۔میاں صاحب نے ڈان لیکس کو مبنی بر حقیقت قرار دیااور ممبئی حملوں کا ملبہ پاکستان‘ پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر ڈالا۔ عوام‘ ریاست اور قومی اداروں کے لیے ان کا پیغام یہ ہے کہ ’’کر لو جو کرنا ہے‘‘ ڈان لیکس پر پوری قوم کی طرح پاک فوج کا ردعمل شدید تھا اور توقع یہ کہ پاکستان کے خلاف اس سازش میں ملوث ہر کردار کیفر کردار کو پہنچے گا۔ ایک معتبر صحافی نے مجھے بتایا کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے چودھری نثار علی خاں اور اسحق ڈار کو جی ایچ کیو میں بلا کر دو وفاقی وزراء کو تفتیشی ٹیم کے حوالے کرنے کی فرمائش کی۔ چودھری نثار علی خان نے مگر جنرل صاحب کو قائل کر لیا کہ دو وفاقی وزراء سے اس انداز میں تفتیش پاک فوج کے لیے نقصان دہ ہو گی‘ یقین دہانی کرائی کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ مریم نواز شریف کے بارے میں ابتدا ہی سے یہ تاثر تھا کہ وہ سارے منصوبے کی معمار ہیں۔ مگر انہیں یہ کہہ کر کلین چٹ دی گئی کہ ’’بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں‘‘ یہ اطلاعات بھی تھیں کہ کوئٹہ کے ہوائی اڈے پر میاں نواز شریف نے راحیل شریف سے گلہ کیا کہ آپ میری بیٹی کو بھی اس معاملے میں گھسیٹنا چاہتے ہیں جو چنداں مناسب نہیں‘ یوں معاملہ رفع دفع ہو گیا۔افواہ یہ پھیلائی گئی کہ راحیل شریف کو ملازمت میں توسیع کا لالچ دے کر مریم نواز کا نام تحقیقاتی رپورٹ سے نکلوایا گیا اس نیکی کا صلہ جنرل کو مخالفانہ پروپیگنڈا مہم کے ذریعے ملا۔ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا؟ راحیل شریف بتا سکتے ہیں ‘جنرل قمر جاوید باجوہ سے سوال ہوا تو ان کا جواب یہ تھا کہ مجھے جو رپورٹ ملی اس میں مریم نواز کا نام نہیں تھا۔ راحیل شریف اور ریاست نے ڈان لیکس پر میاں نواز شریف سے رعائت برتی‘ ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکرسازشی کرداروں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا اب نتیجہ عالمی سطح پر ندامت کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ راحیل شریف کا تعلق گجرات سے تھا۔ وہ عارف کھڑی شریف میاں محمدبخشؒ کی نصیحت بھول گئے۔ ؎ نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نہ پایا ککر تے انگور چڑھایا‘ ہر گچھا زخمایا جنرل قمر جاوید باجوہ بھی علامہ ساجد میر کے بیان کی صورت میں زخم خوردہ ہیں مگر ان کا حوصلہ قابل دادہے۔ 28جولائی کے فیصلے کے بعد جب چالیس ارکان قومی اسمبلی نے ان سے بالواسطہ یا براہ راست رابطہ کیا تو موصوف نے انہیں نواز شریف اور ان کے کٹھ پتلی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف تُرّپ کے پتے کے طور پر استعمال کرنا مناسب نہ سمجھااور اپنے آپ کو سیاسی معاملات سے دور رکھا‘ اسی لاتعلقی کو دیکھ کر میاں نواز شریف اور خاندان غلاماں کے حوصلے بڑھے اور اب حالت یہ ہے کہ چھاج تو چھاج ‘چھلنی بھی بولنے لگی ہے جس میں نو سو چھید۔ میاں صاحب کے اندھے پیروکار اوروظیفہ خوار مسلسل سوال یہ اٹھا رہے ہیں کہ سیرل المیڈا کے انٹرویو میں قومی مفاد کے منافی کیا ہے؟ اور جب اسی سے ملتی جلتی باتیں جنرل پرویز مشرف ‘ جنرل پاشا‘ جنرل محمود علی درانی‘ رحمان ملک کہہ چکے تو میاں صاحب قصور وار کیسے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے ممبئی حملوں کی ذمہ داری پاکستان اور اس کے قومی اداروں پر نہیں ڈالی جبکہ جنرل پرویز مشرف لشکر طیبہ کا ذکر ہمیشہ مقبوضہ کشمیر میں جاری مزاحمتی تحریک کے پس منظر میں کرتے ہیں’ ممبئی حملوں کے تناظر میں نہیں ۔ دوسرے آج تک کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ پاکستان بطور ریاست اور فوج بطور ادارہ اپنی سرزمین کو ہمسایہ ممالک میں دہشت گردی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی پہلی بار ہوا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے ان الزامات کو مسترد کیا مگر میاں نواز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ کو مسترد کر کے اپنے انٹرویو میں لگائے گئے الزامات کی تصدیق کر دی ۔یہ بھارتی موقف کی تائید اور ایک سلطانی گواہ کی شہادت ہے۔ ڈان لیکس کے کردار صحافی اور اخبار کا انٹرویو کے لیے انتخاب ہی میاں نواز شریف کی بدنیتی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے پاکستان مخالف ایجنڈے کی تائید کا ثبوت ہے۔ اب اگر بھارت اور امریکہ اقوام متحدہ میں اور ہمارے مخالفین فنانشل ایکشن ٹاسک فورس میں پاکستان پر تین بار حکمرانی کرنے والے شخص کا بیان بطور ثبوت پیش کریں‘ پاکستان اور اس کے قومی اداروں کو ہمسایہ ممالک میں دہشت گرد بھیجنے کا مرتکب قرار دیں اور ایف اے ٹی ایف میں پابندیاں عائد کرنے کی قرار داد منظور ہو تو ذمہ دار کون ہو گا؟ نواز شریف یا ہمارا کوئی بدخواہ؟ کلبھوشن جادیو بلوچستان میں سیرو سیاحت کی غرض سے آیا نہ فاٹا‘ بلوچستان اور کراچی میں بھارت کے تربیت یافتہ دہشت گردوں نے پھول اگائے اور گجرے بانٹے‘ کشمیر سنگھ‘ سربجیت سنگھ اور دیگر بھارتی جاسوس بھی گوالمنڈی میں سری پائے کھانے امرتسری پتیسہ چکھنے اور میٹرو بس پر بیٹھ کر لاہور کے تاریخی مقامات کا نظارہ کرنے نہیں آئے تھے ‘ساٹھ ستر ہزار شہریوں اور پانچ ہزار سے زائد فوجی افسروں و جوانوں کی شہادتیں کوئی نمائشی کارروائی نہ تھی جو دفاعی بجٹ میں اضافے ‘سول بالادستی سے انحراف اور منتخب حکومت کو نیچا دکھانے کے لیے ہوئی۔ امریکہ ہو یا بھارت فالس فلیگ کارروائیاں کرتے ہیں اور اپنے مخالف ممالک میں تخریب کاری‘ دہشت گردی اور بغاوتوں کو پروان چڑھاتے ہیں مگر سابق وزیر اعظم کا خیال ہے کہ اگر ہم اچھے بچے بن جائیں اور امریکہ و بھارت کے ہر الزام کو سو فیصد درست مان کرحافظ سعید و دیگر کو سولی پر لٹکا دیںتو دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین تجارتی روابط بڑھیں گے‘ واہگہ کی معمولی سی لکیر مٹ جائے گی اور دونوں قومیں مل جل کر آرام سے آلو گوشت کھائیں گی۔ ان کے خیال میں دونوں ممالک کے عوام ایک جیسا پہنتے اور ایک بولی بولتے ہیں تو ’’رل مل روٹی‘‘ کیوں نہیں کھا سکتے۔ سیفما کے سیمینار میں موصوف یہ بھاشن دے چکے ہیں ع یہ تیری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو میں میاں نواز شریف کی حب الوطنی پر شک کرتا ہوں نہ انہیں غدار سمجھتا ہوں مگر اپنے آپ کو ہر غلطی سے مبرا اور ریاست‘ آئین‘ قانون اور طے شدہ سفارتی اصولوں سے بالاتر سمجھنے کی نفسیات نے انہیں خودکش بمبار بنا دیا ہے۔ خودکش بمبار بھی اپنے آپ کو برحق اور اپنے ہدف کو برائی کا محور سمجھتا ہے۔ میاں صاحب کا ہدف پاک فوج ہے۔ خودکش بمبار کی طرح میاں نواز شریف کی برین واشنگ پاکستانی فوج ‘جہاد اور کشمیر میں برسر پیکار مزاحمتی تنظیموں سے بغض اور بھارت سے ہمدردی رکھنے والے امریکہ سے مرعوب دو تین افراد نے کی جبکہ ہمارے دشمنوں کا اصل ہدف پاکستان کا نیو کلیر پروگرام ہے جسے پاکستانی فوج‘ خفیہ اداروں اور عوام کے جذبہ جہاد و بھارت مخالف نفسیات کو کمزور کیے بغیر رول بیک کرنا‘ کرانا مشکل ہے۔ میاں نواز شریف کا کردار آلہ کار کا ہے جو کرپشن کے الزامات سے توجہ ہٹانے اور لوٹ مار کے الزام میں جیل جانے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے پر داخل زنداں ہونے کے لیے مسلسل ریاست کی ریڈ لائنز کراس کرتے چلے جا رہے ہیں کہ شاید اس طرح عالمی اسٹیبلشمنٹ ان کی مدد کو پہنچے اور وہ لوٹ کا مال اور دھوکے کی سیاست بچانے میں کامیاب رہیں‘ عالمی اسٹیبلشمنٹ کو اس سے بہتر شخص اور موقع کہاں مل سکتا ہے؟ آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ یہ ناروے کے مشہور کردار وڈ کون ابراہا م لائٹرنر جانسن کوئز لنگ(جس کی ایک ٹانگ قومی ہیرو اور باقی دھڑ شریک جرم قرار پایا) کی نقالی مگر اس کے انجام سے بے خبری کی دلیل ہے۔ ہائے بابا وقار انبالوی مرحوم کس موقع پر یاد آئے ع ’’کوئز لنگ ‘‘نسل کے کچھ سانپ زندہ ہیں