سیاست سے صرف نظر کر کے میں آج کل ایک ہی بات پر زور دے رہا ہوں کہ خدا کے لئے ملکی معیشت کو سنبھالئے۔ یہ میں اس دن سے کہہ رہا ہوں جب سے ہمارے ہاں سیاسی تبدیلی آئی ہے۔ میں اس کا الزام سراسر موجودہ حکومت پر بھی نہیں لگاتا۔ بلکہ ان سیاسی حالات پر لگتا ہوں جن کا اس ملک پر دو ڈھائی سال سے راج رہا ہے۔ آج میں پاکستان سٹیٹ بنک کے ایک سابق گورنر اور پاکستان کے ایک ممتاز معیشت دان شاہد کاردار کا انٹرویو پڑھ کر ایک بار پھر ذہنی ہیجان و خلفشار میں مبتلا ہوں کہ یارب ہم کدھر جارہے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ میں اس کی ذمہ داری سراسر موجودہ حکومت کے سر نہیں تھوپتا‘ بلکہ ان سیاسی حالات کو ذمہ دار سمجھتا ہوں جو اس وقت پیدا ہونا شروع ہوئے جب اس ملک میں نواز شریف کے خلاف مہم شروع ہوئی۔ عدالت میں مقدمے کا آغاز ہوا۔ سٹاک مارکیٹ 53ہزار سے دھڑام 37ہزار تک آ پہنچی۔ پھر جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔ سیاسی حالات خراب نہ ہوتے تو ملک میں سرمایہ کاری آ رہی تھی۔ عملی طور پر اس عمل کا آغاز ہوتا دکھائی دیتا تھا۔ ہم نے تین شرائط تقریباً پوری کر دی تھیں1۔امن و امان کی صورتحال قابو میں تھی۔2۔ توانائی کے معاملات تقریباً حل ہو گئے۔3۔ عالمی ایجنٹوں نے پاکستان کی ریٹنگ مثبت کر دی تھی۔ اس لئے سرمایہ کاروں نے آنا جانا شروع کر دیا تھا۔ اس وقت ہماری ترقی کی رفتار 5.8فیصد تک جا پہنچی تھی اور اسے آج چھ فیصد سے اوپر ہونا تھا۔ یہ کوئی معمولی پیش رفت نہ تھی۔ برآمدات اور درآمدات کا فرق جو اس بحران کے دو سال بعد تشویشناک ہوا‘ وہ بھی خاصی حد تک قابو میں رہتا۔ کچھ ڈالر تو سرمایہ کاری کی صورت میں آتے اور بہت سے ملک سے باہر نہ جاتے۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی بھی یہ کہتے ہیں کہ15ارب ڈالر ان 18ماہ میں ملک سے باہر گئے تھے۔ ملک ایسے مرحلے پر تھا کہ بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ ٹیک آف کے لئے تیار تھا۔ شاہد کاردار کہتے ہیں کہ موجودہ صورت حال رہی تو ادائیگیوں کے توازن میں 50ارب ڈالر کا تفاوت پیدا ہو جائے گا۔ آج ہم اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ گزشتہ دور ہمیں 29ارب ڈالر کا خسارہ دے کر گیا ہے۔ موجودہ حکومت اسے ختم کرنے کے دعوے کر کے عوام پر مہنگائی اور غربت کے پہاڑ ڈھا رہی ہے۔ ٹھیک کیا ہو گا؟ یہ تو اور بڑھتا دکھائی دیتا ہے۔ ہماری شرح نمو جو اس وقت 6فیصد سے زیادہ ہونا چاہئے تھی۔ وہ بھی بہت کم ہو گئی ہے۔ شاہد کار دار کہتے ہیں کہ یہ آئندہ دو تین سال تک 3فیصد سالانہ رہے گی۔ یعنی جو تھی اس سے نصف ظاہرہے اس لئے کسی ماہر معاشیات سے پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ اس کے اثرات کیا ہوں گے۔غربت اور بے روزگاری میں لازمی اضافہ ہو گا اور یہ اتنی تشویشناک صورت حال ہے کہ کوئی اقتصادی پروگرام اس چیلنج کو قبول کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ میں پہلے روز ہی سے یہ کہتا چلا آ رہا ہوں کہ ہماری اقتصادیات کو دشمن نے ہائی جیک کر لیا ہے۔ مجھے یقین نہیں کہ ملکی معیشت کے معاملات عمر اسد چلا رہے ہیں۔ جب انہیں انتخاب سے پہلے اس کام کے لئے نامزد کیا گیا تو میں نے عرض کیا تھا کہ وہ بھلے آدمی ہیں‘ مگر اس کام کے لئے موزوں نہیں ہیں۔ تاہم جب سے یہ خبر آئی ہے کہ عمران خان بھی یہی محسوس کرنے لگے ہیں‘ میری تشویش مزید بڑھ گئی ہے۔ لگتا یوں ہیں کہ رزاق دائود کو اقتصادی معاملات میں کلیدی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ میں ان ماہرین معیشت کے نام نہیں لینا چاہتا جو اس ملک میں اسی ڈھب کے وزیر خزانہ رہے ہیں اور جنہوں نے ملک کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ انہوں نے پہلے روز ہی برطانوی جریدے کو جو انٹرویو دیا‘ وہ صاف بتا رہا تھا کہ ان کا ایجنڈا کیا ہے۔ انہوں نے دو ٹوک انداز میں اعلان کیا کہ سی پیک کو ایک سال کے لئے موخر کر دیا جائے۔ آخر ایسا کر دیا گیا نا۔ معیشت کا پہیہ رک کر رہ گیا اس کے بدلے میں ہمیں کیا لالی پاپ دکھائے گئے ہیں‘ ان کی نوعیت ایسی ہے کہ ہمیں ابھی تک آئی ایم ایف کا سایہ بھی نصیب نہیں ہوا۔ اس سارے کام کا آغاز موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے سے پہلے کر دیا گیا تھا۔ معیشت پر ایسا دبائو آیا کہ مفتاح اسماعیل نے ڈالر کی قیمت بڑھانا شروع کی۔ عبوری حکومت نے ان سارے اقدامات کی ابتدا کر دی۔ڈالر کی قیمت میں اضافے کا آغازکر دیا۔ عبوری وزیر خزانہ شمشاد اختر کے آتے ہی میں نے شور مچا دیا کہ یہ تو عالمی اقتصادی اسٹیبلشمنٹ کی نمائندہ ہے۔ یہ ہمیں آئی ایم ایف میں لے کر جائے گی۔ وہ تمام شرائط پورا کرے گی جو اس کے لئے ضروری ہیں۔ روپے کی قیمت میں کمی‘ شرح سود میں اضافہ‘ شرح نمو پر پہرہ۔ یہ تینوں کام انہوں نے کئے۔ جہاں تک اندر کی اطلاعات ہیں انہوں نے آئی ایم ایف جانے کی بات بھی کی۔ تاہم کابینہ نے اپنی محدودات بتائیں کہ یہ ہمارا مینڈیٹ نہیں ہے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کس پالیسی پر گامزن ہیں۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ ہم نے سی پیک کو روک دیا۔ دوست ممالک سے سود قرضے لئے‘ آئی ایم ایف کی ساری شرائط خود ہی پوری کرتے رہے۔ مگر ابھی تک وہاں سے بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ ہم اتنی شرائط پیشگی قبول کر چکے ہیں کہ شاید ہی کبھی ماضی میں کی ہوں۔ پاکستان کے سب ماہرین معاشیات ‘ شاہد کاردار‘ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی‘ حفیظ پاشا سبھی جو نقشہ پیش کر رہے ہیں‘ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے کئی برس ہمارے لئے مشکل ہوں گے۔ سارا کاروبار بند پڑا ہے۔ بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور مسلسل ہوتا جا رہا ہے۔ ملک کی سیاسی اور جمہوری صورتحال بھی کوئی اچھی نہیں ہے۔ اور اگر یہ سب کچھ یونہی چلتا رہا تو ایک ایٹمی ملک کو اپنے روزمرہ کے کام چلانے کے لئے کہیں اور دیکھنا پڑے گا۔ امور سلطنت ‘ قرضوں کا بوجھ‘ ترقیاتی پروگرام‘ سلامتی کے مسائل‘ ان سب کے لئے پیسہ کہاں سے آئے گا۔ خبر آئی ہے 28برس بعد ہم دنیا کی بڑی معیشتوں میں ہوں گے۔ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔ پانی سر سے گزر رہا ہے۔ وہ جو ملک سے محبت رکھتے ہیں‘ انہیں سوچنا چاہیے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کدھر جا رہے ہیں۔ وگرنہ بہت مشکل وقت آ رہا ہے۔