طرز حکومت کوئی بھی ہو چند چیزیں ہر حکومت کے فرائض میں شامل ہیں جن میں سرِ فہرست عوام کی خدمت ہے یعنی حکومت کا عوام کی خدمت سے مستفید ہونا ۔ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ وطنِ عزیز پاکستان ہی کی مثال لیجئے۔ ہر حکومت اپنی استطاعت اور بساط کے مطابق عوام سے خدمت کرواتی رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے عوام کا خلوص اورایثار دنیا بھر میں بے مثل ہے۔ ہم یہاں تک لکھ چکے تھے کہ ہمارے ایک بے تکلف دوست تشریف لائے۔ انہوں نے مندرجہ بالا سطور پڑھ کر کہا کہ ’’ ہمارے عوام‘‘ کی بجائے ’’ ہماری عوام‘‘ لکھو۔ ہم نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ گزشتہ پچاس سال سے ہمارے حکمران عوام سے جو سلوک کرتے آرہے ہیں اس کے پیش نظر اب ان بے چاروں کو مونث ہی سمجھنا اور استعمال کرنا چاہئے۔ ہم نے کہا آپ کی بات یوں تو دل کو لگتی ہے لیکن غریب عوام کے پاس اب لے دے کر یہی تو بچی ہے ۔ کہنے لگے یہ کام میں نہیں کر رہا بلکہ ہمارے حکمران اسے بہت پہلے کر چکے ہیں۔ ہم نے وضاحت چاہی تو فرمایا، آپ نے اکثر اخبارات میں پڑھا ہوگاکہ ایک بظاہر اچھے خاصے مرد میں نسوانی خصوصیات ظاہر ہونا شروع ہوگئیں۔ مثلاً بیٹھے بیٹھے اس کا جی آٹا گوندھنے اور ہلنے کو کرنے لگا۔ فوری طور پر آٹا میسر نہ آیا تو اس نے زور زور سے ہلنا اور کرسی کو ہلانا شروع کر دیا ( جیسے پچھلے دنوں آ ٹا ان کی پہنچ سے باہر ہو جانے کے بعد ہماری خواتین محض ہل کر گزارا کرتی رہیں) گھر والوں کو اس کی حرکات و سکنات پر تشویش ہوئی تو وہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس نے ہر قسم کا معا ئنہ کرنے کے بعد یہ ہوش ربا انکشاف کیا کہ یہ محترم بڑی تیزی سے محترمہ بنتے جا رہے ہیں۔ یہ سنتے ہی اس کی بیوی نے سر پیٹ لیا ( اپنے خاوند کا) ۔ بیوی اسکی پٹائی کئے جا رہی تھی لیکن وہ جوابی کارروائی کرنے کے بجائے آسمان کی طرف ٹائی پھیلا کر بیوی کو کوسنے لگا۔ ’’ اس سارے قصّے کا پاکستانی عوام اور گزشتہ حکومتوں سے کیا تعلق ہے؟ ‘‘ ہم نے پوچھا۔ فرمانے لگے بہت گہرا تعلق ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ہماری قوم مردوں پر مشتمل تھی۔ ان کی مردانگی نے انگریزوں اور ہندوئوں کی مشترکہ طاقت کو خاک میں ملادیاتھا۔ لیکن قائدِاعظم کے بعد آنے والے حکمرانوں نے قوم کوانصاف سے محروم کرنے کا عمل شروع کر دیا۔ ایوب خان کے بعدیحییٰ خان جنرل رانی کو لے آئے۔ یحییٰ خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو آئے، ’’ اس کے بعد ایک اورماہر سرجن تخت نشیں ہوا ۔ اس مردِ حق نے آپریشن فئیر پلے کی مددسے ایسا آپریشن کیا جو ایوب خان اور یحییٰ خان جیسے سرجن بھی نہ کرسکے تھے ۔ اس کامیاب آپریشن کے بعد اس نے گیارہ سال تک قوم کو حرم کی زینت بنائے رکھا۔ نئی حکمران نے اپنے اسسٹنٹ سرجن زرداری کی مدد سے اسے ایک بد صورت بھکارنی میں تبدیل کر دیا لیکن وہ خود ملکہ عالیہ بن کر ملک ملک کی سیر کرنے لگ گئی اور وطن عزیز کو تا خت و تا راج کرنے کے لئے مردِ ا ول کے حوالے کر دیا۔ جس ملک کا مردِ ا ول ایسا ہو ، وہاں کا مرد آخر کیسا ہوگا؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔ نالہ و شیون میں مصروف یہ بدقسمت قوم اب اس امید پر سانس لے رہی ہے‘‘ افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر کرتے ہیں خطاب آخر،اٹھتے ہیں حجاب آخر لیکن افسوس یہ امید بھی پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ افلاک سے نالوں کا جواب نہیں آرہا ۔ شاید راہ میں ، حرص و ہوا ، کرپشن اور نااہلی حائل ہیں۔ اب تو قوم کو یہ شعر پڑھنا چاہیے۔ آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے بادلو ہٹ جائو دے دو راہ جانے کے لئے ان صاحب کا لیکچر سُن کر ہمارے سر میں یک لخت شدید درد اٹھا اور دل کی حرکت معمول سے دگنی ہوگئی۔ ہم نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکتے ہوئے کہا۔ ’’ خدا کے لئے آپ گائنا لوجی پر اپنا لیکچر بند کریں ۔آپ کو علم بھی ہے کہ میں دل کا مریض ہوں، کیا آپ میری جان لینے آئے ہیں؟" " اوہو، ہو ہو ہو ہو ہو ‘‘ انہوں نے فکر مند ہوتے ہوئے کہا ، ’’ معاف کیجئے گا، بے احتیاطی ہو گئی‘‘ دراصل میںجذبات کے دھارے میں بہہ گیا تھا۔ حالات اتنے بھی بُرے نہیں ہیں۔ اللہ اپنا فضل کر دیگا۔ آپ دیکھیں گے کہ اللہ اپنا فضل کر دیگا۔ انشا ء اللہ ، اللہ اپنا فضل کردے گا۔ کیونکہ ہم نے چو کچھ کرنا تھا وہ تو کر دیا۔ اب اللہ کی باری ہے۔ قوم کا کو کھربو ں روپیہ لوٹا گیا تھا، وہ لاکھوں کے حساب سے واپس لیا جا رہا ہے ۔ اللہ نواز شریف اور زرداری کے دل میں رحم ڈالے (آمین) ۔ پیسے بھی ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ جو دے اللہ اس کا بھلا جو نا دے اس کا بیڑا غرق۔ جب کشکول بھر جائے گا ہم سارا روپیہ بنکوں میں ڈال کر انشاء اللہ اس کشکول کو توڑ ڈالیں گے۔ فی الحال یہ کشکول کافی سخت جان واقع ہوا ہے لیکن انشا ء اللہ ایک روز یہ ٹوٹ کر رہے گا۔ آپ فکر نہ کریں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اپنے بلڈ پریشر کا خیال رکھیں، اوپر کا بلڈ پریشر ایک سو چالیس اورنچلا نوسے سے نہ بڑھنے دیں، آج کل کون سی دوا کھا رہے ہیں؟‘‘ ٭٭٭٭٭