خدا کی پناہ! ان دنوں کسی تقریب، نوکری یا شاپنگ وغیرہ پہ کھلے منھ نہ جا سکنے کی سہولت، تساہل یا بے فکری اور کسی طرح کے مہمان کے نہ آ سکنے کی یقین دہانی نے دو ہفتوں سے مستقل طور پر گھر بیٹھے خواتین و حضرات کو تزئین آرائش، زینت و زیبائش سے اس قدر بے نیاز و بے پروا کر دیا ہے کہ ازلوں سے اکٹھے رہتے میاں بیویوں نے غالباً زندگی میں پہلی بار نہ صرف ایک دوسرے کی شکلوں پہ باقاعدہ غور کرنا شروع کر دیا ہے بلکہ کرونا سے زیادہ ایک دوسرے سے ڈرنا شروع کر دیا ہے۔ایک دوسرے والی بات کو بھی چھوڑیے، اب تو کسی وقت چلتے پھرتے اپنے ہی کمرے میں لگے مانوس آئینے پہ بے دھیانی میں نظر جا پڑے تو نہ صرف وہ پہچاننے سے صاف انکار کر دیتا ہے بلکہ ایک دل دوز چیخ کے ساتھ منھ سے نکلتا ہے: امی بھئووووووو!!!! استاد امام دین گجراتی نے پاک بھارت جنگ کے زمانے میں ایک شعر کہاتھا: حکومت سے کہہ دو جہازوں کو روکے! یہ سُتّے ہوؤں کا تراہ کاڈتے ہیں اس حساب سے گھر بیٹھے خواتین و حضرات تو جہازوں سے بھی زیادہ خوف ناک ہیں کہ یہ جاگتے ہوؤں کا بھی تراہ کاڈتے ہیں۔ اوپر سے مجبوری یہ کہ استاد امام دین کی طرح دھڑلے کے ساتھ حکومت سے بھی شکایت نہیں کر سکتے کہ یہ لاک ڈاؤن انھی کا لگایا ہوا ہے۔ اب تو دن میں کئی بار دل میں یہ خیال ابھرتا ہے کہ ان دانشوروں اور میڈیکل کے سیانوں پہ کیس کر دیں، جو ہمیں کئی روز سے طفل تسلیاں دے رہے تھے کہ ’کرونا ایک نظر نہ آنے والا وائرس ہے۔‘ یہ چند جملے تو خیر ایک مزاح نگار کی تمہید کا حصہ تھے۔ہمارے آج کے کالم کا مقصد آپ کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کروانا تھا کہ اس آزمائشی دور میں اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کے ساتھ ساتھ ذرا غیر جذباتی ہو کران عناصر کا بھی جائزہ لے لیا جائے، جو اس ملک کے لیے کرونا سے بھی زیادہ مُضر ثابت ہوئے۔ان میں سرِ فہرست ہمارے حکمران ہیں، بھلے وہ سیاست دان ہوں یا سیاست کار، جو عوام کی جہالت، ناخواندگی اور جذباتیت کا فائدہ اٹھا کر کتنی ہی نسلوں کا مقدر کھا گئے۔بد بخت عوام کو ’’روٹی، کپڑا، مکان‘ اور ’قیمے والے نان‘ جیسے معدہ افروز نعروں کی دھونی دے کر ایک دوسرے سے لڑاتے چلے گئے اور سات دہائیوں سے اس طرف دھیان ہی مبذول نہیں ہونے دیا کہ مناسب تعلیم، صحت اور روزگار ، ان کے اپنے خاندانوں کے علاوہ بھی کسی کی ضرورت ہو سکتے ہیں۔ اس وقت قوم پہ ابتلا کا وقت تھا۔ دنیا بھر کے سرمایہ دار تن من دھن سے اپنی اپنی قوم کے لیے بر سرِ پیکار ہیں، انھوں نے دل اور خزانوں کے دروازے کھول رکھے ہیں۔ ہم تو پڑوسی ملک بھارت کی امبانی فیملی کی سخاوت دیکھ کے حیران ہیں کہ جنھوں نے اپنی کاروبار سے کمائی دولت میں سے وفاقی حکومت کو پانچ سو کروڑ اور کئی مقامی حکومتوں کی فوری مالی امداد کے ساتھ، متعدد ہسپتال، لاکھوں ماسک، کھانا، پٹرول وغیرہ پل بھر میں دان کر دیا۔ ایک ہمارے کھرب پتی سیاسی جمورے ہیں کہ ایسے حالات میں بھی ذاتی قسم کی گھٹیا سیاست اور ڈراموں سے باہر نہیں نکل سکے ۔ اتنا بھی نہیں ہو سکا کہ اسی قوم کی لوٹی گئی دولت سے ہی ان پر کچھ احسان فرما دیتے۔ ہمیں شہباز، بلاول، خاقان وغیرہ سے طبی مشوروں یا غیر طبی طنز کی نہیں روکڑوں کی امید تھی۔ایک وہ اپنے سراج الحق بھائی ہیں، بھلے شریف آدمی ہیں، لیکن ان کا رول موجودہ سیاست میں اس بچے کا سا لگ رہا ہے، جسے گھر والے ہدایت کرتے ہیں کہ شریکوں کے دروازے پہ بلا ناغہ اِک وٹہ مار کے آنا ہے، انھیں پتہ تو چلے کہ ’ ابھی ہم جِندہ ہیں!‘ پھر وہ ہمارے مکروہ مزاج اور ذخیرہ اندوز قسم کے سرمایہ داران، تاجران ہیں، جن کی بابت قوم جان چکی ہے کہ یہ کم بخت اگر سن لیں کہ کل سے قیامت آ رہی ہے تو اگلے دن سے کفن، جائے نمازیں اور مصلے بھی مہنگے کر دیں گے، یہ بد بخت وہی ہیںجو رمضان میں کھجوریں اور فروٹ سے پیسے کما کے نئے نکور حج اور تازہ عمرے پہ روانہ ہوتے تھے۔ ایسے بد فطرت، ملاوٹی اور موقع پرست تاجر اور آجر یقیناً کسی بھی معاشرے میں خوف ناک وائرس سے کم نہیں، جو چند ٹکوں کی خاطر کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔ سچ پوچھیں مجھے تو وہ ادیب، جج اور صحافی بھی انھی کے بھائی بند لگتے ہیں، جو محض دنیاوی مفاد کی خاطر اپنے ضمیر سیل میں لگائے پھرتے ہیں اور قدرت نے جن سے حق بات کہنے کی صلاحیت ہی چھین لی ہے۔ہمارا تو شروع کی طرح آج بھی یہی موقف ہے کہ جس جج یا صحافی کا کردار ذرا سا بھی مشکوک ہو، اس کو نہ صرف کسی طرح کی اہم ذمے داری نہ سونپی جائے بلکہ اس کے نام کے ساتھ عزت مآب، سیاسی رہنما، معروف یا سینئر کے الفاظ استعمال کرنے اور کسی قومی مفاد والی میٹنگ، مشاورت میں ان کی شرکت سے بھی احتیاط برتی جائے۔ مجھے معذرت کے ساتھ کہنے دیجیے کہ وہ نام نہاد پیر، فقیر، درویش اور بے عمل عامل بھی اسی فہرست میںشامل ہیں، جو محض دنیا کمانے کے لیے نا سمجھ لوگوں کو جعلی تعویذ گنڈے اور جادو ٹونے کے پیچھے لگائے ہوئے ہیں۔ شیخ سعدی کے نزدیک درویش وہ ہوتا ہے کہ جسے ایک روٹی بھی کھانے کو مل جائے تو وہ آدھی پہ گزارا کرے اور دوسری آدھی اپنے کسی دوسرے بھائی کو دے دے۔پھر وہ مولوی حضرات بھی انہی کے بھائی بند ہیں، جو اپنی دھڑا بندی قائم رکھنے کی خاطر اپنے ذاتی مفادات کو قرآن و سُنت پہ ترجیح دیتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ کرونا ان سب سے پھر بھی اچھا ہے کہ اس نے کم از کم ہمیں جھنجھوڑا تو ہے۔ زندگی کے بارے میں نیا لائحۂ عمل ترتیب دینے پر اکسایا تو ہے۔کولھو کے بَیل والی روٹین چھوڑ کر کچھ نیا کرنے کی دعوت تو دی ہے۔ میرے آخری مخاطب اپنے جیسے عوام ہیں، جن سے دست بستہ گزارش ہے کہ خدارا یہ نئے سرے سے اپنے معمولات کو ترتیب دینے کا وقت ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم منافقانہ، مشرکانہ، ہندوانہ رسوم پہ آنکھیں بند کر کے عمل کرنے کی بنا پر اللہ کی نظروں سے گر چکے ہوں، اس قادرِ مطلق نے فرمایا تھا کہ تمھیں جو مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمھارے اپنے کرتوتوں کا بدلہ ہیں اور یہ کہ تمھارے لیے سوائے اللہ کے نہ کوئی کارساز ہے نہ مددگار!! پھر اس نے یہ بھی ارشاد کیا تھا کہ تمھاری بے روح نمازیں تمھارے منھ پر دے ماری جائیں گی، آج جب مساجد تو کیا خانۂ خدا تک بند ہیں، کیا ایسا تو نہیں کہ اس قہّار و جبّار نے ہماری نمازیں ہمارے منھ پر دے ماری ہوں؟؟؟