آج کا کالم ضیاء الحق کے دور کی مزاحمتی شاعرہ نسرین انجم بھٹی کے نام ، جنہوں نے سرکاری ملازمت کے باوجود بغاوت کا جھنڈا تھاما اور پوری شدت سے چیخی تھیں، اپنی شاعری کے ساتھ انہوں نے مزاحمتی جنگ لڑی، نسرین انجم بھٹی نے انیس سو اکہتر میں ریڈیو پاکستان پروڈیوسر کی حیثیت سے جوائن کیا، ایک شاعرہ ہونے کے ناطے انہوں نے میوزک کے شعبہ کو چنا، ان دنوں میں بھی لاہور ریڈیو اسٹیشن جایا کرتا تھا، میرے کئی دوست ریڈیو میں خدمات انجام دے رہے تھے، جو ایک سال پہلے میرے ساتھ روزنامہ آزاد میں کام کیا کرتے تھے،شاہد محمود ندیم، میری بڑی بہن جیسی نئیر عباسی اور فہیم جوزی بھی ان پروڈیوسرز میں شامل تھے، ایک دن فہیم جوزی نے یا کسی اور پروڈیوسر نے مجھے ریڈیو کے ایک مباحثے میں شرکت کی دعوت دی، یہ مباحثہ شاعر مشرق علامہ اقبال کے حوالے سے تھا، لائیو پروگرام ختم ہوا تو ہم لوگ ریڈیو اسٹیشن کے لان میں آ کر بیٹھ گئے، چند منٹ بعد ریڈیو کا ایک ملازم رجسٹر اٹھائے وہاں آیا اور مجھ سے مخاطب ہوا، آپ یہاں دستخط کردیں۔ وجہ پوچھی تو اس نے ایک ایک روپے والے نئے نوٹوں کا بنڈل میرے ہاتھ میں تھما دیا، یہ ایک سو ایک روپے تھے، پروگرام میں حصہ لینے کا معاوضہ… اس کے بعد میں نے ریڈیو اسٹیشن جانا معمول بنا لیا، انہی دنوں میری ملاقات ہوئی ریڈیو کی ہونہار پروڈیوسر نسرین انجم بھٹی صاحبہ سے، میں جب بھی ان کے کمرے میں جھانکتا وہاں کوئی نہ کوئی بڑا لکھاری۔ شاعر یا گلوکار ضرور نظر آتا اور نسرین ان سے اپنے کسی نئے پروگرام کے حوالے سے محو گفتگو ہوتیں، ان کے کمرے میں جو لوگ مجھے بلا ناغہ دکھائی دیتے تھے، استاد امانت علی خان اور گلوکارہ زاہدہ پروین اور ان کی بیٹی شاہدہ پروین ، شجاعت ہاشمی کو بھی میں نے کئی بار ان سے طبقاتی جنگ لڑتے ہوئے دیکھا، نسرین انجم بھٹی اردو اور پنجابی کی اعلی پایہ کی شاعرہ ہی نہیں لیفٹ ونگ کی ایک ایسی دانشور بھی تھیں جو اپنی گفتگو میں دلائل اور حوالے بھی پیش کیا کرتی تھیں ، چھ سال بعد علم ہوا کہ انہوں نے زبیر رانا سے شادی کر لی ہے جو انہی کی طرح سماج کو بدل دینے کی خواہش میں مبتلا تھا، زبیر رانا بھی میرا دوست ضرور تھا مگر میں اسے عملی آدمی نہیں سمجھتا تھا، وہ بہت لمبی چوڑی باتیں تو کیا کرتا تھا مگر گفتگو کے سوا اس کے پاس کچھ نہیں تھا، جب وہ دل کا غبار نکال لیتا تو پھر وہ ہوتا اور کوئی دیسی مشروب کی بوتل، اور اگر اس حالت میں کوئی اس سے ملنے چلا جاتا تو وہ اس ملاقاتی کا سارا دن بھی ضائع کر دیتا، نسرین انجم بھٹی نے زبیر رانا کو اس کی ساری کوتاہیوں کے ساتھ قبول کیا تھا، وہ اس کا بچوں کی طرح دھیان رکھتی تھیں، اگر وہ پی پلا کر کہیں خراٹے مار رہا ہوتا تو نسرین اس کی تلاش شروع کر دیتیں، بالکل ایسے ہی جیسے کسی ماں کا لخت جگر وقت پر گھر نہ پہنچے تو وہ بد حال ہو جاتی ہے،،، تین سال پہلے زخمی زخمی روح کے ساتھ داغ مفارقت دے جانے والی نسرین انجم بھٹی مجھے اس رات بہت یاد آئیں جب بلاول بھٹو زرداری کراچی سے لاڑکانہ پہنچنے کے بعد اپنی پارٹی کے جیالوں سے کہہ رہے تھے کہ چار اپریل کو بھٹو کی برسی میں شریک ہونا ہے، میں نے سوچا کہ بلاول کو کیا پتہ کہ بھٹو کی برسی میں باقاعدگی سے شریک ہونے والے وہ ہزاروں لوگ کون تھے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے،اور ایسے لوگوں کی کیا کیا خدمات اور کیا کیا قربانیاں تھیں، نسرین انجم بھٹی جیالی تو نہیں لیکن بھٹو کی دیوانی ضرور تھیں، بھٹو کی پھانسی پر بڑی بڑی نظمیں لکھی گئیں، سینکڑوں، ہزاروں سیر حاصل مضامین لکھے گئے مگر نسرین انجم بھٹی کی نظم سب پر بھاری تھی اور بھاری رہے گی۔ میں مرزا ساگر سندھ دا، میری راول جنج چڑھی میں ٹریا سولی چم کے، مینوں ایہو ریت بڑی میرے دشمن لکھن عدالتاں، میرے سجناں خبر پڑھی چولے لتھے انصاف دے ، خلقت حیران کھڑی میں سمجھتا ہوں کہ نسرین انجم بھٹی بڑے علم والی خاتون تھیں، ان کی شاعری کی چار کتابیں شائع ہوئیں، انہوں نے بے شمار نثر بھی لکھی ،لیکن ان کی یہ ایک نظم ہی دوسری کئی شاعرات کے مجموعوں پر بھاری رہے گی، یہی ایک نظم انہیں امرتا پریتم جیسی شاعرہ کے ہم پلہ بنا دیتی ہے، ان کی وفات کے بعد ان کی شاعری، ان کے نظریات اور ان کی شخصیت پر جتنے مضامین لکھے گئے، وہ شاید کسی اور شاعرہ کی موت پر اسے نصیب نہ ہوئے ہوں گے۔ زبیر رانا کی موت پر نسرین انجم بھٹی نے ایک تعزیتی مضمون لکھا تھا ، جسے پڑھ کر میں ششدر رہ گیا تھا اور یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ کیسی عورت ہے جو ایک لا پروا ، غیر ذمہ دار اور بے لگام آدمی کی اسکی موت کے بعد بھی پرستش کر رہی ہے۔ اس کی موت پر بال کھولے بین ڈال رہی ہے۔ نسرین انجم بھٹی بھی کیا کرتی؟ اس نے تو رانے کو بچوں کی طرح ہی سنبھالا تھا، بچوں کی طرح ہی اس کا سالہا سال تک دھیان رکھا تھا۔ نسرین انجم بھٹی کے بارے میں ایک دن پروین ملک نے بتایا کہ وہ سخت بیمار ہے، اسے دیکھنے اور سنبھالنے والا بھی کوئی نہیں ہے، اس کا خاندان سندھ میں تھا اس کے بھائی آئے اور اسے ساتھ لے گئے، وہ چند روز ہی بھائیوں کے ساتھ رہی اور پھروہ دنیا چھوڑ گئی، وہ دنیا جسے وہ پگلی بدلنا چاہتی تھی۔ ٭٭٭٭٭ کونج ، اپنی چھاں لے کے اڈ گئی اب آخر میں کچھ ذکر زبیر رانا کی اچھائیوں اور خوبیوں کا بھی،،،، وہ انیس سو سڑسٹھ، اڑسٹھ میں اپنے امیر گھرانے سے بغاوت کرکے خالی جیب لاہور آیا تھا، اس کے پاس کپڑوں کا ایک ہی جوڑا تھا جو اس نے پہن رکھا تھا، اسے ایوب خان کے خلاف بھٹو بغاوت نے گھر سے بھاگ جانے پر اکسایا تھا، اس کی والدہ کسی غریب خاندان سے اور اس کے باپ کی پسند تھیں، خاندان نے اس کی والدہ کو قبول نہیں کیا تھا۔ یہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا غم تھا، اسی غم نے اسے طبقاتی جدو جہد کے کنویں میں دھکیلا تھا ۔ زبیر رانا بہت پڑھتا تھا، بہت لکھتا تھا، وہ روزانہ پاک ٹی ہاؤس بھی جایا کرتا تھا جو ان دنوں انقلابی دانشوروں کا سب سے بڑا ٹھکانہ تھا، مسعود منور، فہیم جوزی‘ سید آصف شاہکار، خالد لڈو، آزاد کوثری، شاہد محمود ندیم اس کے حلقہ احباب میں شامل تھے،ڈاکٹر مبشر حسن کو وہ آئیڈلائز کرتا تھا۔ لاہور سے ایک بڑے ادارے کے نئے روزنامہ کا اجراء ہوا تو زبیر رانا بھی ہمارے ساتھ بانی ٹیم کا حصہ بنا، وہ فیلڈ میں جا کر فیچر تیار کرتا تھا، اس کے ساتھ لمبی چوڑی ٹیم بھی ہوا کرتی تھی، زبیر رانا نے جن نئے لوگوں کو اپنے ساتھ رکھا ان میں سے کئی بعد میں نامور صحافی بنے، میری شادی ہوئی تو زبیر اور نسرین نے اپنے گھر کھانے پر بلوایا، ان دنوں وہ اپنے ہم زلف لخت پاشا کے ساتھ سعدی پارک مزنگ میں رہتا تھا۔ غیر محتاط گفتگو بھی اس کی خوبیوں میں شامل تھی، وہ کسی کے بارے میں کچھ بھی کہہ سکتا تھا، اپنی اسی عادت کے طفیل اسے کئی بار ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے، نقصان کچھ بھی ہوجائے، وہ اپنا موقف نہیں بدلتا تھا، کوئی اس سے اس کی کوئی عادت بھی نہیں چھڑوا سکتا تھا، زبیر رانا نے تہذیب و ثقافت ، سیاسیات اور سماجی مسائل پر بارہ کتابیں لکھیں، مرنے سے پہلے اس نے ’’بے نظیر کا قتل کیوں ہوا؟‘‘ کے عنوان سے کتاب مرتب کر لی تھی جو شاید چھپ نہ سکی، وہ زندگی کے آخری سال خوابوں میں گزارنے لگا تھا۔ مرنے سے تین چار سال پہلے وہ میرے پاس آیا اور بڑے پر جوش انداز میں بتانے لگا کہ اسے اقوام متحدہ میں چالیس ہزار ڈالر کی نوکری مل گئی ہے اور وہ چند ہفتوں بعد نیویارک چلا جائے گا، میں بہت خوش ہوا ، مجھے زبیر رانا کا کوئی بھی جاننے والا ملتا تو میں اس سے یہ خوشخبری ضرور شیئر کرتا لیکن چھ ماہ بعد مفلس زبیر رانا پھر ایک سڑک پر پیدل چلتا ہوا مل گیا۔ تمہیں تو اقوام متحدہ میں نوکری مل گئی تھی۔ تم نے تو نیویارک جا کر جوائننگ دینا تھی۔ میرے سوال کے جواب میں اس نے کہا… میرا تبادلہ جنوبی افریقہ میں کر دیا گیا ہے، اس لئے جوائننگ میں دیر ہو گئی۔ میں جان گیا کہ اب اس نے اپنی مہنگی اپوائنٹمنٹس خود ہی کرنا شروع کردی ہیں۔