ادھر حکمران ہمیں معاشی اعشاریے بہتر ہونے اور غریبوں کے لئے 80ارب مختص کرنے‘ انصاف کارڈ اور صحت کارڈ کی سہولتوں کی نوید سنا رہے تھے کہ ادھر کراچی سے کورنگی ابراہیم حیدری کے میر حسن نے اپنی زندگی کا شاید پہلا اور آخری خط لکھ کر ‘ ملک کے وزیر اعظم کو اطلاع دی کہ وہ تو زندگی کا بوجھ اتار کر اگلے جہاں سدھا رہا ہے۔ لیکن وزیر اعظم صاحب میرے بچوں کو گھر کی چھت بھی لے دینا اور مدرسے میں بھی داخل کروا دینا! میر حسن کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط ٹوٹی پھوٹی اردو میں چند بکھری ہوئی سطروں پر مشتمل ہے۔ کاغذ کے جس ٹکڑے پر مرتے ہوئے میر حسن نے چند سطروں میں اپنی زندگی کا المیہ بیان کیا ہے وہ بھی میلا اور شکستہ ہے۔ بالکل میر حسن کی زندگی کی طرح جس کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے وہ اس قدر تھک گیا کہ ایک روز اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ مسلسل غربت اور بھوک کا بوجھ اٹھاتی اس زندگی کو اپنے بدن سے نوچ کر باہر پھینک دے گا۔خود حدود وقت سے آگے کہیں دوسرے جہانوں میں نکل جائے گا۔ جہاں پر ضرورتوں کے اژدھے منہ کھولے اس کی جان کے درپے نہیں ہوں گے۔جہاں نہ روز آسمانوں کو چھوتی مہنگائی ہو گی نہ اسے خالی جیب کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ میر حسن کو یقین تھا کہ زندگی کا بوجھ اتار کر وہ کس قدر ہلکا پھلکا ہو جائے گا اسے اپنے پانچ چھوٹے چھوٹے بچوں کی بھوک ‘ حسرتوں اور ضرورتوں کا سامنا بھی نہیں کرناپڑے گا۔ سو اس نے ایک روز زندگی کا بوجھ اتارنے کی ٹھان لی لیکن وہ باپ تھا مرتے ہوئے بھی اسے اپنے پانچ کم سن بچوں کا خیال تھا سو اس نے سوچا کہ وہ اپنے بچوں کو ملک کے حکمران کے سپرد کر کے جاتا ہے۔ بس پھر یہی سوچ کر اس نے ایک میلے پھٹے ہوئے کاغذ پر ٹوٹی پھوٹی اردو میں چند شکستہ سطریں لکھیں جس نے اہل دل اور اہل درد کو تڑپا کے رکھ دیا۔میر حسن کے اس سوسائڈل نوٹ نے میرے اندر تو ایک کہرام برپا کیا ہوا ہے۔ میں بہت شرمندہ ہوں اس ملک کے سارے میر حسنوں سے جن کی بوسیدہ غربت زدہ زندگیوں کو ہم اپنی تحریروں کا موضوع کم ہی بناتے ہیں۔ اس کے لئے کہ ہم نامور اہل قلم دانشور کالم نگار اور ہم موضوعات پر لکھتے ہیں ۔سیاستدانوں کی قلابازیوں اور جمہوریت کی شعبدہ بازیوں کے تذکرے ہماری تحریروں میں جگہ پاتے ہیں۔ اس ملک کے میڈیا اور صحافتی اشرافیہ نے کبھی غریب اور غربت کو پرائم ٹائم کا موضوع نہیں گردانا ‘اس لئے کہ پرائم ٹائم کو پیٹ کی ریٹنگ کا ایندھن درکار ہوتا ہے اور اس کے پیٹ کو بھرنے کے لئے ہمیں حریم شاہ ‘ صندل خٹک ‘ فواد چودھری اور شیخ رشید کے ناموں سے سجے ہوئے مصالحے دار سکینڈل درکار ہوتے ہیں سیاست کی اس گلیمرس دنیا میں کہاں کو ئی میر حسن کا تذکرہ کرتا پھرے۔ خط غربت کے نیچے سسکتی ہوئی زندگی کا زرد موضوع‘ ریٹنگ کی چکاچوند دنیا میں کہیں جگہ نہیں پاتا۔ نیب کے آرڈیننس ‘ آرمی ایکٹ کے ترمیمی بل‘ وزیر اعظم کے یوٹرن ‘ فواد چودھری کے تھپڑوں کی کہانی ایک پیج پر ڈھیر ہوتی ہوئی اپوزیشن اور حکومت کی حیرت سے بھری سیاسی ڈویلپمنٹ۔ ہمارے تبصروں تجزیوں کالموں اور تحریروں کا موضوع بنی رہتی ہے۔بے حسی کے ایسے پتھریلے ماحول میں‘ کوئی میر حسن صرف اس لئے خود کو آگ چھڑک کر جلا دیتا ہے کہ وہ اپنے پانچ بچوں کو تین وقت اس لئے کھانا نہیں کھلا سکا کہ وہ تین ماہ سے بے روزگار تھا۔ اس کے بچے نے سردی میں اس سے گرم کپڑے طلب کئے تھے اور میر حسن کے پاس خالی جیب اور آنسوئوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ مرحوم اسلم کولسری نے کس درد سے لکھا: میں نے اپنے سارے آنسو بخش دیے بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا میر حسن نے بظاہر تو یہ خط وقت کے حکمران عمران خان کو لکھا ہے جو اپنی تقریروں میں غریب کا دم بھرتے اور غربت کے خاتمے کے وعدے کرتے نظر آتے ہیں لیکن میں سمجھتی ہوں اس کا ٹوٹا پھوٹا خط ملک کی اس تمام حکمران اشرافیہ کے نام ہے جو مختلف ناموں‘ سیاسی پارٹیوںاور مختلف شکلوں کی صورت اس ملک پر حکمران رہی۔ میر حسن نے اپنی 35سال کی عمر میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں بھی دیکھی ہوں گی۔ غریب کی زندگی بدلنے کے وعدے سنے ہوں گے ۔غربت کے خاتمے کے انقلابی پروگراموں کی گونج اس کے خستہ حال مکان تک بھی پہنچی ہو گی۔ روٹی ‘ کپڑا اور مکان کے نعرے لگانے والی پارٹی تو گیارہ برس اسی صوبے پر حکمرانی کر رہی ہے جس صوبے کے میر حسن نے لمحہ لمحہ عذاب کی مانند گزرتی ہوئی زندگی سے چھٹکارا پا کر موت کی تاریکی میں آسودگی حاصل کی: مرنے والوں پہ سیفؔ حیرت کیوں موت آسان ہو گئی ہو گی۔! یہ محض اتفاق ہے کہ میر حسن کی خودکشی کے ساتھ ہی ذرائع ابلاغ میں سندھ میں بڑھتے ہوئے خودکشی کے رجحان پر ریسرچ رپورٹس کا تذکرہ ہوا۔ اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں 1300افراد نے اپنی زندگی کا اپنے ہاتھوں خاتمہ کیا ۔مرنے والے افراد کی عمریں 21سے 40سال کے درمیان ہیں ‘عمر کا یہ دور جہاں جوانی‘ توانائی اور جسمانی طاقت کا درد ہوتا ہے وہیں یہ دور خاندان کا معاشی بوجھ اٹھانے جیسی ذمہ داریوں سے بھرا ہوتا ہے اس عمر یں خودکشی کرنے والے زیادہ تر سندھ کے انتہائی غربت زدہ شہروں سے تعلق رکھتے تھے۔ مثلاً تھرپارکر‘ عمر کوٹ ‘یہ وہ کم نصیب بستیاں ہیں جہاں کے رہنے والے زندگی کی بنیادی ترین ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ تھر میں تو باقاعدہ قحط اور بھوک سے بچے آئے روز مر رہے ہیں۔ لیکن ان خبروں کا بے حس حکمرانوں پر رتی برابر اثر نہیں ہوتا۔ دل دہلا دینے والا یہ منظر وسائل کی ظالمانہ تقسیم کا مظہر ہے اور یہ صرف سندھ تک محدود نہیں ہے‘ پنجاب‘ بلوچستان ‘ کے پی کے میں بھی حالیہ کچھ برسوں میں غربت بے روزگاری میں بے حد اضافہ ہوا۔ سفید پوش غریب اور غریب خط غربت سے بھی نیچے چلے گئے۔ میر حسن کی کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ گدھا گاڑی چلاتا تھا۔ گدھا گاڑی چلانے والا تین ماہ سے دیہاڑی نہ ملنے سے غربت کی کن سیاہ گھاٹیوں میں اتر گیا ہو گا اس اذیت اور وقت کا اندازہ میں اور آپ نہیں لگا سکتے۔ ایسے کتنے ہی میر حسن عدم مساوات پر مبنی اس ظالمانہ نظام سے ہار مان کر موت میں آسودگی ڈھونڈ رہے ہیں اور ہمیں ان کی خبر تک نہیں ہوتی۔یہ تو کورنگی کا میر حسن تھا جس نے زندگی کی حدود پھلانگتے ہوئے ایک میلے ‘ پھٹے ہوئے کاغذ کے ٹکڑے پر وقت کے حکمران کے سامنے صرف اپنی زندگی کا المیہ تحریر نہیں کیا بلکہ غریب کو کچلتے ہوئے اس بھیانک نظام کے خلاف ایک استغاثہ تحریر کیا ہے۔ اے اہل اقتدار و اختیار۔ اے اہل ثروت‘ طبقہ اشرافیہ کے پالیسی سازو‘بااثر صحافتی دانشورو ڈرو! اس وقت سے کہ جب کل روز محشر میر حسن اپنا یہ استغاثہ اس عدالت میں بھی پیش کرے گا جہاں انصاف ہو گا۔ میر حسن جیسے بے بسوں اور مظلوموں کے ساتھ بھی انصاف ہو گا۔!