یہی کہا ہے نا کہ کمزور ترین کرنسی ہے پاکستان کی؟ مان لیا کمزور ترین ہے! مگر گزارہ ہو جائے گا۔ ایک وقت فاقہ کر لیں گے۔ چُپڑی ہوئی نہ سہی‘ سوکھی کھا لیں گے۔ گوشت کے بجائے چٹنی پر قناعت کر لیں گے۔ مگر جس ملک میں ٹریفک دنیا کی بدترین ٹریفک میں سے ہو اس میں کون بچے گا؟ مغربی سیاح کا کمنٹ نہیں بُھولتا۔People have been left on roads to kill each other! خلق خدا شاہراہوں پر ایک دوسرے کو کھلے عام قتل کر رہی ہے! قمر زمان کائرہ کا جواں سال بیٹا ٹریفک کے حادثے کی نذر ہو گیا ع دل صاحبِ اولاد سے انصاف طلب ہے! جو ماں باپ ایسے روح فرسا سانحے سے گزر چکے ہوں۔ وہی اس قیامت کا اندازہ کر سکتے ہیں!اولاد ماں باپ کو کاندھا دینے کے لئے پال پوس کر بڑی کی جاتی ہے مگر جب موت و حیات کا مالک فیصلہ کر لے کہ باپ نے کاندھا دینا ہے تو آمناّ و صدّقناَ کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے! امانتیں سپرد کرنے والا امانتیں واپس لے لیتا ہے! وقت کا تعین وہی کرتا ہے! مگر ڈھلتی عمر والے ماں باپ اس کے بعد ہر روز مرتے ہیں! ہر روز جیتے ہیں! کاش کوئی ایسا دلدوز حادثہ اس ملک کے اربابِ حل و عقد کو عقل سکھا دے کہ اس قتل عام کو روکنا ہے! مدتوں سے اس ملک کی شاہراہوں پر بدترین خانہ جنگی جاری ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ وحشیوں کو ڈرائیونگ لائسنس دے دیے جاتے ہیں۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ بے مہار ڈمپر‘ ٹریکٹر‘ ٹرالیاں‘ سڑکوں پر دندنا رہے ہیں۔ کاروں کو کچل دیتے ہیں۔ کوئی پوچھ گچھ نہیں! کوئی نیاں نہیں۔ راولپنڈی میں پروفیسر ڈاکٹر طیب منیر جیسا ہیرا‘ عالم فاضل‘ طلبہ کے دلوں پر حکمرانی کرنے والا۔ ڈمپر کے نیچے آ کر کچلا گیا۔ شہر کے رکھوالوں کو کچھ فرق نہیں پڑا۔ کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی! ستر کی دہائی کے اوائل تھے۔ انگریزی ادبیات میں ایم اے کرنے کا ارادہ تھا۔ تیاری بھی تھی۔ اس لئے کہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں اکنامکس میں ایم اے کرنے کے دوران‘ بنگالی دوست رفیق اللہ اکثر و بیشتر طعنہ دیتا کہ ایم اے کرنا ہو تو انگریزی ادب میں کیا جائے۔ ورنہ شاعری کا دعویٰ چھوڑ دو۔ اس کا تو اوڑھنا بچھونا ہی انگریزی ادب تھا۔ اداس آنکھوں سے افق کو دیکھتا اور شہزادہ ہیملٹ کا فقرہ دہراتا۔ To Be, or not to be that is the Question اتنی دماغ شوئی کی کہ مغربی پاکستان واپس آ کر انگریزی میں ایم اے کی تیاری شروع کر دی۔ پھر نہ جانے کیا ہوا۔ داخلہ بھیجنے کا وقت آیا تو سی ایس ایس کا داخلہ بھیج دیا۔ صرف چند ہفتے تھے لولی لنگڑی ‘ ماڑی موٹی‘ گرتی پڑتی تیاری کی! ایک پرچے کے لئے مسلمان ملکوں میں جاری ہم عصر تحریکوں کا حال درکار تھا۔اس موضوع پر کچھ مل ہی نہیں رہا تھا۔ کسی نے بتایا کہ خلیل حامدی کی تصنیف ’’عالم اسلام اور اس کے افکار و مسائل‘‘ دیکھو! کیا مبسوط تذکرہ کیا تھا خلیل حامدی صاحب نے انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک سب پر ان کی نظر تھی پھر ایک دن والد گرامی مرحوم کے پاس تشریف لائے۔ مولانا مودودی کی کسی کتاب یا کچھ کچھ کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کرنے کی فرمائش کی۔ والد گرامی مرحوم کی صحت ان دنوں ڈانواں ڈول تھی! معذرت کی! عربی زبان کے بحر ذخار خلیل حامدی کا انجام اس ملک میں کیا ہوا؟ کیا کسی کو یاد ہے؟ جماعت اسلامی کی موجودہ قیادت کو تو شاید نام تک معلوم نہ ہو اس لئے کہ عبدالحمید صدیقی‘ مصباح الاسلام فاروقی‘ نعیم صدیقی‘ خلیل حامدی‘ ملک غلام علی‘ اسعد گیلانی‘ پروفیسر غلام اعظم اور خرم جاہ مراد جیسے اصحابِ قلم آج کی جماعت اسلامی کے لئے اجنبی ہیں۔ اب سیف رہی نہ قلم رہا ! ؎ گل گئے گلشن گئے جنگلی دھتورے رہ گئے عقل والے چل بسے کچھ بے شعورے رہ گئے اب تو پیش منظر پر وہ لوگ ہیں جو گہرا شعور اور ادراک رکھتے ہیں مگر کاروبار کا‘ پراپرٹی کا! کسی کے اعمال نامے میں کتاب تو کیا ایک صفحہ بھی ہو تو سورج مغرب سے طلوع ہونے کی ضد کرے! رہی تقریر! تو اس فن کے ایسے ایسے ماہرین ہیں کہ اچھے بھلے جاگتے کو تھپکی دے کر سلا دیں! کیا انجام ہوا خلیل حامدی کا؟ ایک ٹرالی نے کہ شاید گنے ڈھو رہی تھی‘ ان کی گاڑی کوکچلا جیسے وہ انسان نہ ہوں‘ ایک بے بضاعت کپڑا ہوں! شیخ فریدالدین عطار کو ایک تاتاری سپاہی نے غلام بنا لیا۔ کسی نے اس غلام کو خریدنے کے لئے دس ہزار اشرفیاں پیش کیں۔ عطار نے سپاہی کو متنبہ کیا خبردار! اتنے میں نہ بیچنا۔ میری قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے! ایک اور خریدار نے عطار کے عوض گھاس کے گٹھے کی پیشکش کی۔ عطار نے کہا لے لو! میری قیمت تو اتنی بھی نہیں ! سپاہی جھلا گیا۔ غصے میں قتل کر ڈالا۔ روایت ہے کہ بعد میں جب قاتل کو مقتول کا مقام و مرتبہ معلوم ہوا تو ندامت میں غرق ہوگیا۔ مسلمان ہو کر ان کے مزار پر ہی بیٹھ گیا۔ خلیل حامدی کو قتل کرنے والا ٹرالی کا ڈرائیور اس وحشی تاتاری سے بدتر تھا کیوں کہ اسے بعد میں بھی نہ معلوم ہوا ہو گا کہ اس نے ایک باکمال عالم مصنف اور مترجم کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ پاکستان کی ٹریفک آج 2019ء میں بھی بدترین ہے۔ مائوں کے لخت ہائے جگر بہنوں کے بھائی‘ دلہنوں کے سہاگ‘ بچوں کے باپ‘ گھروں سے نکلتے ہیں اور لاشوں کی صورت میں پلٹتے ہیں۔ پولیس کا رول صفر سے کم تر ہے۔ ہدایات نہ تربیت ! نہ قانون کا نفاذ! نہ جیل کا ڈر نہ پھانسی کا خوف! ویگن کا مالک ڈرائیور کو وارننگ دیتا ہے کہ اتنے منٹ میں تم نے اس روٹ پر ایک پھیرا پورا کرنا ہے تاکہ دن میں اتنے پھیرے لگ سکیں اور اتنی کمائی ہو سکے اب وقت کی یہ قید ڈرائیور کو مسلسل کوڑے مارتی ہے۔ اسے سڑک پر کوئی گاڑی دکھائی دیتی ہے نہ پیدل چلنے والا۔ وحشت اس کے سر پر سوار ہے۔ اتنے وقت میں پہنچنا ہے! خلق خدا کیوں نہ قتل ہو! موٹر سائیکل سواروں نے الگ حشر برپا کر رکھا ہے۔ سانپ کی طرح ادھر سے ادھر دائرے بناتے ہوئے۔ گاڑیوں کے بیچ سے نکل کر زن سے جا رہے ہوتے ہیں! ٹرک ڈرائیور ہائی ویز پر کاروں کو راستہ نہیں دیتے۔ اکثر چرسی ہیں اور جرائم پیشہ! بڑے شہروں کو تو چھوڑ دیجیے‘ ضلع‘ تحصیل‘ یونین کونسل اور اس سے نیچے کی سطح پر جو حشر برپا ہے‘ ناقابل تصور ہے! پتھر کے زمانے میں گاڑیاں ہوتیں تو ٹریفک اس سے بدتر نہ ہوتی۔ جی ٹی روڈ‘ موت کا کنواں ہے۔ صرف گتکا کھیلنے کا ماہر اس پر کامیاب ڈرائیونگ کر سکتا ہے۔ اس شاہراہ پر سفر کرنے والا ہماری تہذیب‘ ہمارا کلچر‘ ہماری انسانیت ‘ہمارا ایمان۔ ہمارا اندر باہر سب کچھ جانچ لیتا ہے۔ آپ اندازہ لگائیے۔ کتنے شہر درمیان میں پڑتے ہیں کسی شہر کی انتظامیہ میں خوف خدا ہے نہ عقل کہ بازار اور جی ٹی روڈ کے درمیان حدِ فاصل تعمیر کر کے سروس روڈ الگ بنا لیں۔ بازار اور شاہراہ آپس میں گڈ مڈ ہیں۔ ریڑھیاں شاہراہ پر ہیں اور گاڑیاں دکانوں میں گھس رہی ہیں۔ صندوق میں بندوق ہے بندوق میں گولی۔ اعصاب چٹخ جاتے ہیں۔ بازاروں کے لئے سروس روڈز الگ بن جائیں۔ بڑی شاہراہ اور سروس روڈ کے درمیان دیوار بنا دی جائے تو خلق خدا کو سکون ملے۔ ہر بار اس شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے لڑائی جھگڑے نظر آتے ہیں۔ ڈرائیور ایک دوسرے سے دست و گریباں‘ کہیں زخمی پڑے ہوتے ہیں کہیں لاشیں اٹھائی جا رہی ہوتی ہیں! تہذیب و ترقی دو چیزوں سے جانچی جاتی ہے۔ ٹریفک اور واش روموں کی صفائی کا معیار! ہم دونوں میں ناکام ہیں! کسی دوسرے ملک کو ٹھیکہ دے دیجیے کہ ہماری ٹریفک کو قانون کے دائرے میں لے آئے۔ اپنے حکمران‘ اپنے عمال ‘ یہ کام نہیں کر سکتے! شاید آئندہ ستر برس بھی!!