اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عمران خان کی تقریر کیسی ہو گی؟ کل شام پتہ چل جائیگا۔ خارجہ تعلقات کمیٹی کے علاوہ پریس کانفرنس سے خطاب میں ان کے لب و لہجے اور منطق و استدلال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ یہ کہہ کر عمران خان نے عالمی برادری کو آئینہ دکھایا کہ اگر اسی لاکھ کشمیریوں کی طرح اتنے ہی یہودی یورپی یا صرف آٹھ امریکی پچاس دن سے محصور ہوتے تو کیا پھر بھی بڑی طاقتوں اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کا ردعمل اتنا ہی مایوس کن ہوتا جتنا اب ہے؟ یہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی دلیرانہ سعی ہے مگر معاشی مفادات کا اسیر اور اسلامی فوبیا کا شکار عالمی ضمیر بدستور خواب خرگوش کے مزے لے رہا ہے‘ یہ بات مگر کھل کر پہلی بار کسی پاکستانی حکمران نے کہی ۔امریکہ کوعرصہ دراز بعد کسی پاکستانی رہنما نے کھری کھری سنائیں‘ انسانی حقوق کی پاسداری کا طلسم پاش پاش کیا۔ورنہ بیشتر سفارتی نزاکتوں کی آڑ میں گونگے شیطان کا کردار ہی ادا کرتے رہے۔ کسی میں اظہار کا سلیقہ نہ تھا‘ کوئی عزم سے تہی دامن اور کچھ رفعت کردار سے محروم۔ دریوزہ گری یہ اوصاف باقی رہنے بھی کہاں دیتی ہے۔؟ صدر ٹرمپ‘ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے سامنے بار بار کشمیریوں کی داد رسی کا مطالبہ کر کے عمران خان نے اتمام حجت کیا ‘ یہ تک کہہ دیا کہ سوا ارب آبادی کے ملک سے معاشی مفادات کشید کرنے والی بڑی طاقتوں اور مسلم ممالک کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک نیو کلیر ریاست کے ساتھ سوا ارب آبادی کے امن دشمن اور فاشسٹ ملک کی کشیدگی ان سب کے اقتصادی مفادات کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ عمران خان کے علاوہ ترکی کے طیب اردوان بھی عالمی برادری کو فلسطین اور کشمیر کے المیے سے آگاہ کر رہے ہیں مگر تاحال کہیں سے تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آیا روائتی محبوب والی خاموشی غالب ہے: یاں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں واں ایک خامشی تری سب کے جواب میں پچھلی بار امریکہ سے واپسی پر عمران خان کی خوشی دیدنی تھی‘ خود کہا کہ گویا ورلڈکپ جیت کر آیا ہوں‘ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی بات کر کے خان کا دل موہ لیا تھا۔ تب سے طالبان سے مذاکرات جاری تھے اور ٹرمپ پاکستان کے تعاون سے افغان معاہدے کی توقع کر رہا تھا مگر اب مذاکرات معطل ہیں اور ایران امریکہ کا منہ چڑا رہا ہے۔ ایران سعودی عرب چپقلش عروج پر ہے مگر امریکہ کے مقابلے میں سعودی عرب محتاط ہے اور وہ تیل کی تنصیبات پر حملے کا براہ راست الزام لگانے کے بجائے تحقیقات پر زور دے رہا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ ہم اس تنازعہ میں سعودی عرب کے ساتھ ہیں اور پاکستان میں سیاسی مخالفین نے عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے علاوہ تیل کی تنصیبات کے حوالے سے بیان کو اس تناظر میں دیکھا لیکن صدر ٹرمپ نے عمران خان کو ایران سے بات کرنے کا ٹاسک دے کر یہ باور کرایا ہے کہ پاکستان غیر جانبدار ثالث یا مصالحت کار کا کردار ادا کرنے کے قابل ہے۔ اس خدمت کے عوض صدر ٹرمپ پاکستان کی فرمائش پر مودی سے کھل کر بات کریں گے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو ختم اور بھارتی مظالم بند کرائیں گے؟ یہ سو ملین کا سوال ہے جس کا جواب ایران اور سعودی عرب کے مابین ثالثی یا مصالحتی کردار پر آمادہ عمران خان دے سکتے ہیں جو فی الحال امریکہ میں اپنی زندگی کا سب سے بڑا معرکہ جیتنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ جس طرح امریکہ ایران کو برائیوں کی جڑ قرار دیتا ہے بالکل اسی طرح ایران بھی امریکہ کو شیطان بزرگ سمجھتا اور فساد آدمیت گردانتا ہے۔ لبنان اور شام میں ایران نے اسرائیل کے علاوہ امریکہ کو ناکوں چنے چبوائے اور عراق میں مراعات حاصل کیں۔ ایران امریکہ کا مدمقابل ہے نہ دونوں ممالک میں کہیں بھی مفادات کا براہ راست ٹکرائو ہے۔ شاہ کے دور میں ایران امریکہ کا قابل اعتماد حلیف بلکہ علاقائی تھانیدار رہا۔ ایران امریکہ کے مابین وجہ عناد اسرائیل ہے یا عرب ممالک جنہیں ایرانی انقلاب کا ہوا دکھا کر امریکہ بلیک میل کرتا اور اربوں ڈالر کا اسلحہ بیچتا ہے۔سعودی عرب سمیت کسی عرب ملک کی قیادت نے اب اسرائیل کو دشمن سمجھنا چھوڑ دیا ہے بلکہ وہ ایران کو سبق سکھانے کے لئے اسرائیل سے تعاون کو تیار ہیں اس پس منظر میں پاکستان ایران کو نرمی پر آمادہ کر سکتا ہے؟ امریکہ سے مصالحت کا مشورہ دے سکتا ہے اور سعودی عرب و ایران کی قیادت کو مذاکرات کی میز پر لا سکتا ہے؟ یہ سوچنا عمران خان اور ان کے مشیروں کاکام ہے۔ اگر امریکہ مسئلہ کشمیر پر ہماری مدد کرنے کو تیار نہیں‘ خطے کو جنگ کا ایندھن بنانے کے خواہش مند مودی کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو پاکستان پرائی جنگ کو دھکیل کر اپنی سرحدوں میں لانے کا متحمل کیونکر؟جب ہم امریکہ اور طالبان میں مذاکراتی عمل کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکے‘ سیز فائر کی امریکی خواہش پوری کرنے سے قاصر رہے اور صدر ٹرمپ نے مذاکرات معطل کرنے سے قبل مشورے کے لائق نہیں سمجھا تو ایران سے ثالثی کا ڈھول گلے میں ڈالنے کی کیا ضرورت؟ کہیں ایک بار پھر کوئلوں کی دلالی میں مُنہ کالا کرانے کا شوق تو نہیں۔ اگر عمران خان اسے اعزاز سمجھ رہے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے‘ یہ اتنی بڑی آزمائش ہے جس سے عہدہ برا ہوتے ہوتے وہ کشمیر پر ساری ریاضت کو اکارت کر بیٹھیں گے کہ ایران نے چالیس سال میں امریکہ سے کشمکش کے دوران وہ کچھ نہیں کھویا جو ہم اس کی دوستی بلکہ چاپلوسی میں گنوا بیٹھے ہیں‘ ویسے بھی ہنری کسنجر کہہ چکے ’’ امریکہ کی دشمنی سے زیادہ دوستی خطرناک ہے ‘‘کہیں ہم دوستی کی آڑ میں پھر خطرات کو دعوت تو نہیں دے رہے۔ اپنے اقتصادی اور معاشی معاملات سلجھ نہیں رہے‘ کشمیر پر ہماری بات تادم تحریر صدا بصحرا‘ ہے‘ اتمام حجت کرنے کے بعد پاکستان کی لائن آف ایکشن کیا ہو گی؟ کچھ واضح نہیں‘ مگر شوق ہمیں امریکہ اور ایران کے مابین ثالثی یا مصالحت کا چرایا ہے‘ امریکی اتنے بے بس ہیں کہ افغانستان میں ناکامی کے بعد ایران کا مشن ہمیں سونپیں نہ ایرانی اس قدرسادہ لوح کہ وہ فرانس کے بجائے ہم پر اعتماد کریں۔ یہ ٹرمپ کا جال ہے جو اس نے عمران خان پر پھینکا ہے مقصد کشمیر سے اپنی اور اس کی توجہ ہٹا کر اپنے دوست مودی کو آسانی فراہم کرنا ہے۔ عمران خان نے امریکہ و یورپ کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے‘ اس نے عالمی سطح پر رائے عامہ کو باور کرایا ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ مذہب کی بنا پر امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے اور مودی کے فسطائی عزائم سے چشم پوشی کا سبب بھی یہی ہے۔ عمران یکسو ہے اور طیب اردوان کی کمک اُسے مل گئی ہے وہ کشمیر پر ہی فوکسڈ رہیں تو پاکستان کا فائدہ ہے اور اس کی شخصیت کے لئے بھی‘ کسی نے اسے امریکی یا سعودی پٹھو سمجھ لیا تو وہ کیا جواب دے گا۔ ؟امریکی‘‘ استعمال کرو اور پھینک دو‘‘ کے فن میں طاق ہیں کیا عمران خان کو احساس ہے؟