وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چودھری نے اپنے مخصوص انداز میں انکشاف کیا ہے کہ مسلم لیگ(ن) میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں جس کا مظہر یہ ہے کہ خواجہ سعد رفیق کو پارٹی اجلاسوں میں بھی نہیں بلایا جاتا۔ بلی کو خواب میںچھیچھڑے ہی نظر آتے ہیں۔ وزیر موصوف کو اپوزیشن جماعت میں نفاق کی خواہشات پر مبنی پیشگوئیاں کر نے کے بجائے اپنی جماعت کے اندرونی معاملات کی طرف بھی غور کرنا چاہیے۔ تحریک انصاف کے وہ بانی ارکان جن میں حامد خان اور دیگر شامل ہیں پارٹی کے برسراقتدار آنے کے ساتھ ہی قریباً فارغ کر دیئے گئے تھے کیونکہ انھیں جماعت میں الیکٹ ایبل لوٹوں کی فوج ظفر موج کی شمولیت پر سخت اعتراض تھا لیکن موجودہ پی ٹی آئی میں بھی برسراقتدار گروپوں کے درمیان چپقلش یاسرد جنگ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی میں بعد المشرقین ہیں۔ فواد چودھری کی اپنی جگہ وزارت اطلاعات لینے والی محترمہ فردوس عاشق اعوان کے ساتھ بھی نہیں بنتی۔پنجاب میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور عبدالعلیم خان کے درمیان بھی اقتدار کی رسہ کشی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔جہاں تک مسلم لیگ(ن) کا تعلق ہے،اس میں گروپ بندی پہلے بھی رہی اور اب بھی ہوئی ہے۔ جب میاں برادران پرویزمشرف کے دور میں ڈیل کر کے جدہ میں مقیم تھے اور مسلم لیگ (ن) کی کوکھ سے مسلم لیگ(ق) جنم لے چکی تھی تو چودھری نثار علی خان ،جنہیں شریف برادران بالخصوص چھوٹے میاںکی آشیرباد بھی حاصل تھی اور خواجہ آصف کے درمیان گروپ بندی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ بڑی سیاسی جماعتوں میں ایسا ہوتا ہے۔جب ذوالفقار علی بھٹو نے1967ء میں پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی توا س میں بھی گروپ بندی موجود تھی۔ بابائے سوشلزم شیخ رشید اور مولانا کوثر نیازی بظاہر نظریاتی بنیادوں پر بٹے ہوئے تھے۔ غلام مصطفی کھر اور حنیف رامے کا الگ جھگڑا رہتا تھا۔ جے اے رحیم اور ڈاکٹر مبشر حسن اپنی طرز کے رہنما تھے۔ جب تک جماعت کا سربراہ فعال رہے توکام چلتا رہتا ہے اور بعض اوقات جماعتوں کی قیادت اپنے نیچے گروپوں کو خود لڑاتی رہتی ہیں تاکہ وہی طاقتور رہیں لہٰذا جب تک مسلم لیگ (ن) میں میاں نواز شریف کا طوطی بولتا ہے اور وہی سیاہ وسفید کے مالک رہتے ہیں پارٹی لیڈرشپ میں ہزار اختلاف کے باوجودمعاملات چلتے رہیں گے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت شریف برادران کے لندن میں طویل قیام اور اندرون ملک چوٹی کی لیڈر شپ کے پابند سلاسل ہونے کی وجہ سے پارٹی کا مورال گرا ہواہے۔ مسلم لیگ (ن) اس لحاظ سے منفرد جماعت ہے کہ اس میں شریف برادران مشاورت کے عمل کو ضروری نہیں سمجھتے۔ حال ہی میں جس انداز سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اورمسلح افواج کے دیگر سربراہوں کی تقرری کے قانون پر پارٹی نے یوٹرن لیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ چند پیاروں کو لندن بلایا گیا اور حلف اٹھوا کرہدایت کی گئی کہ ہمیں اس معاملے میں فوجی قیادت کی لائن اختیار کرنی ہے،پارٹی رہنماؤں کو منع کردیا گیا کہ اس معاملے پر کوئی بیان بھی نہ دیں۔ اسی لیے جیسے ہی مدت ملازمت میں توسیع کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا اعلان کیا گیا رانا ثناء اللہ اور خواجہ آصف نے فی الفور اعلان فرما دیا کہ ہم قومی مفاد میں مجوزہ بل کی غیر مشروط حمایت کریں گے۔بعض سیاسی مبصرین نے اسے’ مدر آف یوٹرنز ‘قرار دیا لیکن اس پر باخبر حلقوں کو ذرہ بھی حیرانگی نہیں ہوئی۔ مسلم لیگ(ن) تو خاصے عرصے سے پینترا بدل چکی تھی اب انہیں ڈھونڈوچراغ رخ زیبالے کر، ووٹ کو عزت دو، مجھے کیوں نکالا والا بیانیہ مصلحت پسندی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ برادر خورد شہبازشریف تو پہلے ہی پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کی زلف کی اسیر تھے اور بالآخر انھوں نے بڑے بھائی کو بھی قائل کرلیا جو پہلے شہبازشریف کو ویٹو کردیتے تھے لیکن جیل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ان کے موقف کے قائل ہو گئے۔ رانا ثناء اللہ کا دعوی ہے کہ دامے درمے سخنے سروسز ایکٹ کی حمایت کرنے کے باوجود میاں نواز شریف کے نعرہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی افادیت برقرار ہے۔ لیکن رانا صاحب نے ساتھ ہی ساتھ جس عجلت سے قانون منظور کیا گیا پر کڑ ی نکتہ چینی کی ۔دوسری طرف خرم دستگیر نے تسلیم کیا ہے کہ اس حوالے سے پارٹی کی لیڈر شپ پر شدید دباؤ ڈالا گیا۔ باخبر حلقوں کے مطابق میاں نواز شریف کو بغرض علاج بیرون ملک جانے کی اجازت دلوانے کا سہرا چھوٹے میاں کے سر ہے،جب انھیں گزشتہ برس22اور23 اکتوبر کی درمیانی شب سروسز ہسپتال منتقل کیا گیاتو بتایاگیا کہ میاں صاحب کی طبیعت تشویشناک حد تک خراب ہے اور پلیٹ لیٹس خطرناک حد تک کم ہو گئے ہیں۔ پاکستانی میڈیاپر دن میں کئی کئی بارمیاں صاحب کی صحت کی تازہ صورتحال نمایاں کوریج پاتی رہی حتیٰ کہ وزیراعظم عمران خان نے شوکت خانم ہسپتال کے ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر فیصل سلطان کو سروسز ہسپتال بھیج کر خود تصدیق کرائی کہ میاں صاحب کی طبیعت واقعی سخت خراب ہے۔یہ بات معمہ رہے گی کہ میاں صاحب کی ٹیسٹ رپورٹس صحیح تھیں یاان میں ممکنہ طور پر ٹمپرنگ کی گئی تھی کیونکہ سٹریچر کے بجائے خو دچل کرامیر قطر کے بھیجے ہوئے جہاز میں وکٹری کانشان بناتے ہوئے سوار ہوتے وقت ان کی حالت کسی طر ح بھی نزعی نظر نہیں آرہی تھی بعدازاں انکشاف ہواکہ وہ خصوصی طیارے میں لندن روانہ ہوئے وہ ائر ایمبولینس نہیں تھی۔ ظاہر ہے جس انداز سے مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنے سابق بیانیے کو تج کرکے پارلیمنٹ میں اس نئے قانون کی حمایت کی وہ ایک بڑی ڈیل کا حصہ ہی تھا۔اس کے محر کات آہستہ آہستہ سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لیے نئے نام دینے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ نیب قانون میں بھی ترامیم کرنے پر اصولی اتفاق موجود ہے۔ نیب پر ہر طرف سے تنقید ہو رہی ہے۔ اس کالے قانون کا کچھ زہر تو اس وقت نکل گیا جب نیب آرڈیننس مجریہ 2019ء جس کے تحت بزنس مینوں اور بیوروکریٹس کومستثنیٰ قرار دیا گیا اور سیاستدانوں کو بھی اس ترمیمی آرڈیننس سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔ جس کا ایک مظہر یہ ہے کہ آصف زرداری کے دوست اور اومنی گروپ کے مالک انو ر مجید اور ان کے صاحبزادے عبدالغنی مجید نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں بریت کے لیے درخواست دے دی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نیب کے معتوب یا پابند سلاسل سیاسی رہنما بھی ضمانتوں پر باہر آ جائیں گے اور ان کیسز کی اس طرح پیروی نہیں کی جائے گی جیسے اب تک کی جا رہی ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم بھی واضح طور پر اپوزیشن پر اس طرح کے تابڑ توڑ حملے نہیں کر رہے جیسے پہلے کئے جا رہے تھے۔ جس انداز سے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کورنش بجا لائے ہیں اس سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی ہے کہ وطن عزیز میں فوج کے سربراہ کا عہدہ ہی مرکز ومحور اور طاقتور ترین ہے۔اس نئی قانون سازی کے بعد اب اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ دوبارہ ان ہو گئی ہے۔ اب مقتدر ادارے محض خان صاحب پر ہی انحصار نہیں کریں گے بلکہ گورننس کے معاملات اور اقتصادی صورتحال مزید خراب ہوئی تو نئے آپشنز کھولے جائیں گے۔ اس ضمن میں شہبازشریف نئے سیٹ اپ میں کسی نہ کسی اندازمیں ایڈجسٹ ہونے کے سرگرم امیدوار ہیں۔ جہاں تک مسلم لیگ(ن) میں اختلافات کا تعلق ہے تو یہ جماعت ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار ہے اور اس کی غلام رہی ہے اور میاں نواز شریف کو جو انقلابی بخار چڑھا تھا وہ بھی اتر چکا ہے۔ اس تناظر میں امکان یہی ہے کہ ان کی صاحبزادی مر یم نوازبھی اپنے والد کے پاس لندن چلی جائیں گی لہٰذا یہ توقع رکھنا کہ مسلم لیگ (ن) میںکوئی انقلابی گروپ ابھرے گا عبث ہے۔