وفاقی حکومت نے ناقص اور غیر معیاری اشیا کی روک تھام کے لئے وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی سمری پر 61اشیا کو کمپلسری سرٹیفکیشن مارک سکیم میں شامل کرنے کی منظوری دی ہے۔ کسی بھی ملک کے نیشنل سٹینڈرڈ آرگنائزیشن کا مقصد صارفین کے حقوق کے تحفظ کی خاطر اشیا ضروریہ کا معیار مقرر کرنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے اول تو پاکستان میں اس قسم کی روایت ہی نہیں رہی اور اگر گوشت کی فروخت سے پہلے جانور کے صحت مند ہونے کی تصدیق کو لازمی قرار دیا بھی گیا تو ملک میں بھر میں انسپکٹرز کے جیب گرم کر کے مہریں لگانے کا چلن عام رہا۔ اسی طرح بڑی کمپنیوں کو معیار چیک کیے بغیر سرٹیفائی کرنے کی شکایات بھی عام رہی ہیں۔ اس سے مفر نہیں کہ گزشتہ حکومت کے دور میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے قیام کے بعد خوردنی اشیا بالخصوص دودھ اور بیکری کی اشیا کا معیار چیک کرنے کا نہ صرف سلسلہ شروع ہوا بلکہ ناقص اور غیر معیاری اشیا کو تلف کرنے کی خبریں بھی آنا شروع ہوئیں مگر اس کے باوجود بھی حقیقت ہے کہ فوڈ اتھارٹی کا دائرہ کار اور صلاحیت آٹے میں نمک کے مصداق ہے۔ آج بھی گلی محلوں میں مصالحہ جات پسینے اور ملاوٹ کا دھندا بلا روک ٹوک جاری ہے۔ اب پاکستان سٹینڈر کوالٹی کنٹرول کی سرٹیفکیشن کا فیصلہ ہوا ہے۔ بہتر ہو گا سٹینڈر کوالٹی کنٹرول کے ادارے سے مل کر تمام اشیاء ضروریہ بالخصوص اشیا ئے خوردو نوش کے عالمی معیار کو بھی یقینی بنایاجائے تاکہ حکومتی اداروں کے پیسے لے کر مہر یںلگانے کا تاثر ختم ہو اور عوام کو عالمی معیار کی اشیا میسر آ سکیں۔