کراچی یاد آتا ہے اور اکثر یاد آتا ہے۔ بس بہانہ چاہیے ابھی گزشتہ ہفتے الطاف حسین قریشی صاحب کراچی گئے اور انہوں نے اس پر ایک مضمون باندھا۔ اک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے۔ کہیں کہیں تو ایسا لگتا تھا کہ ایک اجڑے ہوئے قریے کا کوچہ ہے۔ میں نے کراچی کو اس کے عہد شباب میں دیکھا ہے۔ اس کے گلی کوچوں‘ صبحوں شاموں ‘ اڈوں ٹھکانوں سے ایسے گزرا ہوں کہ کہہ سکتا ہوں کہ کراچی مجھ پر بیتا ہے۔ سارا ملک اس شہر پر فخر کرتا تھا۔ ابھی چند روز پہلے ایک بڑے ذمہ دار شخص سے ملا ہوں تو انہوں نے اکتالیس (41) سال پیشتر مرا لکھا ہوا ایک فقرہ مجھے سنایا۔ وہ مجھے بتانا چاہ رہے تھے کہ وہ کب سے مرے ساتھ محبت کا رشتہ رکھتے ہیں۔ میں نے 77کی تحریک کے دوران کہیں لکھا تھا کہ کراچی جاگ اٹھا ہے‘ مگر کراچی سویا ہی کب ہے۔ اہل وطن کو کراچی کے اسی کردار پر فخر تھا۔ ایوب خاں کے خلاف مادر ملت کے انتخابات میں مغربی پاکستان کا یہی اک شہر تھا جہاں مادر ملت کا ڈنکا بجتا تھا۔70کے تاریخی انتخابات میں جب پاکستان کے اس بازومیں بھٹو کی لہر چلی ہوئی تھی۔ کراچی نے اس لہر کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا اور 77ء کی تحریک میں کراچی کی 11نشستوں میں سے 9قومی اتحاد نے جیت لیں۔ یہ جیتنے والے ان معنوں میں کراچی والے نہ تھے۔ ایئر مارشل اصغر خاں‘ سردار شیر باز مزاری اس شہر کی پہچان بن گئے۔ پروفیسر غفور احمد‘ شاہ احمد نورانی کراچی ایک بالکل مختلف انداز میں سوچتا تھا تہذیبی اور صنعتی اعتبار سے‘ ہر زاویے سے کراچی پاکستان کا حسن تھا۔ سارا ملک روزگار کی تلاش میں یہاں آتا تھا۔ یہاں کے نوجوان دوران تعلیم بھی جز وقتی نوکری کر لیتے تھے۔ یہ نوکریاں بھی موجود تھیں اور اس سے فائدہ اٹھانے والا کلچر بھی۔ اچھے خاصے کھاتے پیتے گھروں کے نوجوانوں کو اس میں کوئی عار محسوس نہ ہوتی تھی۔ جب مقابلے کے امتحان ہوتے تھے تو میرٹ پر نشستیں حاصل کرنے والوں میں 50فیصد سے زیادہ صرف کراچی کے ہوتے۔ سول سروس میں اسی لیے وہ خوب نام کما رہے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب مشرقی پاکستان کے ذہین نوجوان بھی اس مقابلے کا حصہ تھے۔ جگہ جگہ ادبی محفلیں جمتیں۔ سارے برصغیر سے آئے لوگ ایک نئے ملک کی تعمیر میں منہمک تھے۔ ریستوران آباد گھروں میں مجلسیں لگتیں۔ برادرم اظہار الحق نے ایک بار کالم میں اس شہر میں اپنی آمد کے حوالے سے ادبی مصروفیات کا ذکر کیا تو ایک ایک ٹھکانہ ایک ایک ٹھیہ مری آنکھوں میں گھوم گیا کہ میں بھی ان کا حصہ رہا ہوں۔ میں ساہیوال میں مجید امجد کی صحبتوں سے فیض یاب ہوا ہوں۔ لاہور میں ٹی ہائوس اور حلقہ ارباب ذوق کا لطف اٹھایا ہے۔ دل سے کہتا ہوں کہ اس زمانے کا کراچی ایک تہذیبی شہر تھا۔ وہ ہمارا دارالحکومت نہ بھی رہا‘ پھر بھی صنعتی اور اقتصادی دارالحکومت تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی کلچر کی جیسی دھنک یہاں تھی۔ اس کا کوئی ثانی نہ تھا ہم فخر سے کہتے تھے کہ ہمارا بھی شجرہ پروفیسر کرار حسین‘ حسن عسکری اور سلیم احمد سے ملتا ہے۔ سراج منیر بڑے فخر سے لاہور میں اعلان کرتا تھا کہ ہم بے حسب لوگ نہیں ہیں۔ میں غلطی کروں گا‘ سجاد میر سنبھال لے گا۔ وہ غلطی کرے گا تو سلیم احمد موجود ہیں ایک محبت کا دریا تھا۔ جو دلوں کے درمیان بہتا تھا۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب احمد جاوید جمال احسان کے ساتھ مجھے ملا تھا۔ جاوید بھی انہی روایتوں کا پالا ہوا ہے۔ اور ماشاء اللہ حق ادا کر رہا ہے۔ جمال احسان بھی خوب شاعرانہ مزاج رکھتا تھا۔ کسی جگہ ایک مجمع میں کوئی پوچھ بیٹھا کہ جمال یہ تو بتائو تم رائٹسٹ ہو یا لیفٹسٹ۔ ان دنوں ادب کے یہ معرکے بھی کراچی میں زوروں پر تھے۔ لیفٹ کا کیسا کیسا ستارہ کراچی کے افق پر چھایا ہوا تھا۔ جمال نے کمال بے نیازی سے کہا‘ یہ اپنے میر صاحب کیا ہیں؟ مخالف نے چڑ کر کہا کہ وہ تو پہلے رائٹسٹ کے ہیں۔ کہنے لگا تو بس میں بھی وہی ہوں‘ کیا کہا‘ رائٹسٹ ۔ہاں‘ بالکل‘ اپنے سلیم بھائی بھی تو وہی ہوں گے۔ بائیں بازو کے بھی کیا کیا جھٹے تھے۔ ممتاز حسین تو مرے ہمسائے تھے۔ انجم اعظمی کا اپنا دھڑا تھا۔محمد علی صدیقی کی اپنی شان تھی۔ پھر تو مجنوں گھورکھپوری بھی آ گئے تھے۔ کیا کیا معرکے جمتے تھے۔ اس دور کی یادگار اب بھی ساجد انصاری ہیں۔ خدا انہیں سلامت رکھے۔ ان دنوں آرٹس کونسل کی محفلیں ادھر ہی ہوا کرتی تھیں۔ ہم بھی اس کی رونقوں میں شامل تھے۔ مجھے یاد ہے‘ پہلی بار مرا دل اس وقت دکھا جب معلوم ہوا کہ وہاں کسی نے جوش ملیح آبادی کے بارے میں کوئی منفی بات کہہ دی ہے۔سیاسی طور پر بے نظیر کا دور ادبی تھا۔ جیالوں نے ایک عجیب تنگ نظری کے تناظر میں ہنگامہ کر دیا۔ مگر یہ دور بھی لد گیا کراچی پھر انگڑائی لے کر جاگ اٹھا۔ میں نے کراچی کو پورے تعصبوں اور محبتوں میں دیکھا ہے۔ شروع شروع میں مرے پاس ایک سبز رنگ کی موٹر سائیکل تھی جسے فراست رضوی ہرا توتا کہتے تھے۔ اس پر میں نے تین چار برسوں میں کوئی ایک لاکھ کلو میٹر کا سفر کیا ہو گا۔ مرے مسافروں میں منور حسن سے لے کر ظہور بھوپالی‘ مظفر علی سید سے لے کر ضیاء جالندھری تک شامل تھے جبکہ یہ سواری کسی کے شایان شان نہ تھی میں ایسے ہی لکھتا جا رہا ہوں۔ جب میں کراچی پہنچا تو معلوم ہوا اس کی بلدیہ ایک سپورٹس کمپلیکس بنا رہی ہے جس کی لاگت ان دنوں چار ارب روپے بتائی گئی۔ اس وقت یہ بہت بڑی رقم تھی۔ اس بات کا تصور بھی نہیں تھا کہ ملک بھر میں کسی شہر کی بلدیہ اتنے وسائل رکھتی ہے کہ وہ اتنا بڑا کام اپنے پیسوں سے کر سکتی ہے۔ یہ وہ دن تھے کہ جب اس پوری شان و شوکت کے باوجود میں بڑے فخر سے کہتا تھا کہ شہر اینٹ اور پتھر کی دیواروں کا نام نہیں‘ یہ اس خونی سے عبارت ہے جو اس کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ گویا شہر میں ایک علمی لگن بھی تھی سیاسی شعور بھی تھا اور اپنی تاریخ اور قدروں کا احساس بھی۔پھر میں نے کراچی کو بدلتا بھی دیکھا۔ ہم تجزیے ہی کرتے رہے اور کراچی اجڑ گیا۔ کوئی تصور نہ تھا کہ وہاں گندگی کے ایسے پہاڑ ہوں گے کہ پورا ملک اس پر طعن کرے گا۔ کوئی تصور نہ تھا کہ اس شہر پر تہذیب و ترقی کے یہ سارے معیار ادھڑ جائیں گے۔ یہاں مافیا کا دور دورہ ہو گا۔ پھر ہم نے بہت جھوٹ بولا۔ بہت غلط تجزیے کئے اور آج تک اسی ڈگر پر چل رہے ہیں۔ کبھی کبھی تو دل چاہتا ہے کہ اس شہر کے درمیان کھڑے ہو کر چیخ کر کہوں۔ اس شہر کے قاتل ہم ہیں۔ اب پھر کراچی بدل رہا ہے‘ مگر عجیب ڈھنگ سے۔ اس کی رگوں میں جو زہر سرایت کر گیا تھا‘ اسے تو ہم نکال نہیں پائے۔ اس کے تریاق کے لیے نئے نئے نسخے آزما رہے ہیں۔ وہاں میں نے ٹرامیں چلتی دیکھی ہیں۔ سرکلر ریلوے میں سفر کیا ہے۔ لوکل ٹرین کا مزہ لیا ہے جب لاہور میں میٹرو بن رہی تھی۔ تو دل نے بار بار کہا تھا اس کا پہلا حق کراچی کا ہے۔ ماس ٹرانسپورٹ کے کیا کیا منصوبے بنے اور کیسے کیسے سیاسی اعتراض آئے۔ اس سے بھی زیادہ سخت جیسے لاہور میں آئے ہیں۔ یہاں تو جیسے تیسے یہ منصوبے آگے بڑھتے گئے اور دوسرے شہروں میں پھیلتے رہے۔ ان کی قدر وہی جانتا ہے جس نے کراچی کو ایسے منصوبوں کے لیے ترستے دیکھا ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے کاروباری شہر کا سارا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ کاروبار حیات بھی تمام ہوا۔ اب جو جاتا نوحہ پڑھ کر آتا ہے جب میں لاہور سے گیا تھا تو لاہور کراچی کے مقابلے میں ایک بڑا سا گائوں تھا۔ میں محبت سے کہا کرتا تھا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا ماڈرن ویلج ہے۔ 34 سال بعد لاہور واپس آیا تو اس کی خوبصورتی اور اس کی زندگی میں کئی گنا زیادہ چکا چوند تھی اور کراچی میں گندگی کے ڈھیر تھے اسے بس ایک علامت سمجھو۔ بہت دنوں سے کراچی نہیں گیا۔ ڈر لگتا ہے جانے یہ شہر اب کیسا ہو۔ خوف آتا ہے کہیں یہ شہر مرے قدم روک کر یہ نہ کہہ دے کہ اس شہر کے قاتل تم بھی تو ہو۔ بڑے مسیحا بنتے ہو‘ ملک بھر میں ایک شہر یہی تو تھا‘ وہ بھی تم سے سنبھالا نہ گیا۔ مرے قاتل‘ میرے دلدار‘ میرے اللہ کوئی مجھے مرا کراچی لوٹا دے۔