یہ غالبا نوے کی دہائی کی بات ہے میں کراچی کے نواحی ساحلی علاقے ماری پور میں رہائش پذیر تھا ،ماری پور گریکس پاکستان ائیر فورس بیس مسروراور پاکستان میرین اکیڈمی کے درمیان آبادہے کراچی کے خوبصورت ترین ساحل ہاکس بے ،پیراڈائزپوائنٹ اور چمکتی ریت کی قالین جیسے سینڈزپٹ پر پہنچنے کے لئے ماری پورسے ہی گزر نا پڑتا ہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے نیلے پانیوں اور جھاگ دار لہروں والی یہ ساحلی پٹی عام لوگوں کی دسترس سے دور تھی صرف متمول لوگ ہی ہفتہ وار تعطیل کے دن اپنی گاڑیوں میں یہاں پہنچتے تھے ان میں بڑی تعداد غیر ملکی قونصل خانوں کے ملازمین کی ہوا کرتی تھی ،اک رو ز مجھے گھر والوں نے پکڑ لیا کہ سینڈز پٹ جانا ہے اور غروب آفتاب دیکھنا ہے سینڈز پٹ گھر سے چھ کلومیٹر ہی دور تھا ،پندرہ بیس منٹ میں سینڈز پٹ کی گیلی نرم ریت ہمارے پیروں تلے تھی ،تب ہزار دو ہزار میں سینڈز پٹ میں دن بھر کے لئے وہاں بنے hutمل جاتے تھے میں نے گھر والوں کی سہولت کے لئے چینی طرز تعمیر کے ایک خوبصورت سے ہٹ کے چوکیدار سے بات کی ،معاوضہ طے ہونے کے بعد اس نے ہٹ کا دروازہ کھول دیا اندر داخل ہوکر میں حیران ہو گیا ،ادھڑے پچکے ہوئے صوفے اورچھت دیواروں سے جگہ جگہ سے جھڑنے والا رنگ روغن اور ٹوٹا پھوٹا فرنیچر دیکھ کر اونچی دکان پھیکا پکوان کا محاوہ یادآگیا میں نے یہ سب دیکھتے ہوئے بلوچ چوکیدار سے کہا ’’واجہ ! یہ ہٹ کس کا ہے اتنی بہترین بلڈنگ کا ستیاناس کیا ہوا ہے ،فرنیچر کا حال تو دیکھو۔۔۔‘‘ میری اس بات پر واجہ سرسے پی کیپ اتارتے ہوئے بولا’’ یہ چائنا ایمبیسی کا ہٹ ہے ۔۔۔‘‘میرے لئے یہ انکشاف تھاکہ دنیا بھر میں سفارتخانوں کا اپنا ہی معیار ہوتاہے وہ رکھ رکھاؤپر خاصی توجہ دیتے ہیں وہی نہیں ان کا لباس انکی گاڑیاںاور عمارتیں انکا رہن سہن بھی انکے ملک کا امیج بنا رہے ہوتے ہیں لیکن یہاں معاملہ مختلف تھازیادہ حیرت اس پر تھی کہ چین اس وقت بھی چین ہی تھا بھوٹان نہ تھامجھ سے رہا نہ گیا میں نے چوکیدار کی بات کاٹتے ہوئے بے یقینی سے کہا’’واجہ ! چے گشے! ‘‘(واجہ کیا کہہ رہے ہو!) ’’تو میں کیا جھوٹ بول رہا ہوں ۔۔۔اس ہٹ کے لئے پانچ لاکھ روپے آئے تھے چینی سفیر نے واپس کر دیئے کہ ابھی چین میں سیلاب آیا ہوا ہے ان پیسوں کی وہاںزیادہ ضرورت ہے ‘‘۔چوکیدار کی اس بات نے مجھے ہکا بکا کر دیا او ر میں اسی پچکے ہوئے صوفے پر بیٹھ کر سوچتا رہا کہ ہمیں ’’چینی‘‘ ہونے میں کتناوقت لگے گا! وینزویلااس وقت جنوبی امریکہ کا بدحال سیکولرملک ہے Black Gold تیل کی دولت سے مالا مال یہ ملک کبھی لاطینی امریکہ کا خوشحال ترین ملک تھا۔ اس کے پاس اس وقت بھی دنیا میں سب سے زیادہ تیل کے محفوظ ذخائر ہیں ،کبھی اسکی تیل کی پیداوار تیس لاکھ بیرل یومیہ تک تھی آج ساڑھے نو سو بیرل رہ گئی ہے ،اٹھاون سالہ ہوگوشاویز اسی ملک کا حکمران رہا ہے ،ہوگوشاویز کی معمر قذافی سے خوب بنتی تھی۔ معمر قذافی اپنے لائف اسٹائل اور خیموں کی وجہ سے بھی مشہور رتھے انہوں نے ایک خیمہ اپنے دوست ہوگو شاویز کو بھی دے رکھا تھا جسے شاویز نے سیلاب کے دنوں میں خوب استعمال کیا ،وینزویلا میں شدید طوفانی بارشوں کی وجہ سے سیلاب نے تباہی مچائی اور بڑی تعداد میں لوگ بے گھر ہوگئے ،ہوگو شاویز کو محل نما سرکاری رہائش گاہ میںایک کے بعد ایک افسوسناک اطلا ع آرہی تھیں اگرچہ کہ وینزویلا کی سرکاری مشینری متحرک تھی لیکن ہوگو شاویز اپنے لوگوں کے لئے خود سے بھی کچھ کرنا چاہتا تھا اس نے سوچاا ور پھر اپنی سرکاری رہائش گاہ کے باہرقذافی کا خیمہ لگا یا اوراپنی سرکاری رہائش گاہ کے دروازے بے گھر ہونے والے لوگوں کے لئے کھول دیئے ۔ چلیں ایک مزے کی بات اور سنیں آجکل اپنے برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن عجیب مخمصے میں ہیں ،وہ سرکاری رہائش کے بجائے اپنے گھر میں رہتے ہیں جہاں انکے پاس صرف ایک ملازم ہے ٹیکس کٹوتی کے بعد ان کے ہاتھ ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈسالانہ آتے ہیں یعنی ماہانہ ساڑھے بارہ ہزار پاؤنڈ،اس تنخواہ میں وہ پریشان ہیں کہ اپنی گرل فرینڈ سے ہونے والے بچے کے لئے آیا کا انتظام کہاں سے کریں ؟ ان کے گھر میں صفائی ستھرائی کے لئے ایک ہی ملازم ہے اور انکی جیب دوسرے کی اجازت نہیں دیتی اس وقت ان کی کیفیت گنجی نہائے کیا اور نچوڑے کیا والی ہے۔۔۔ اب اپنے پاکستان آجائیں اور کوئی ایسا مشیر وزیر بتا دیں جو ایسی کسی پریشانی میں ہو؟ یہاں تو وزیروں مشیروں کے پاس نوکروں چاکروں کی موج ظفر موج ہوتی ہے گیراج میں چھ چھ گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں ٹھاٹ بھاٹ ایسے کہ بٹوارے سے پہلے والے نواب بھی رشک کریں ،اسلام آباد کے منسٹر انکلیو میں وزراء کے گھر، انہیں حاصل سہولتیں اور ان کی شان شوکت دیکھیں تویقین نہ آئے کہ یہ قرضوں میں جکڑی اس قوم کے وزیر ہیں جو قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کے لئے اپنے ہوائی اڈے ،سڑکیں اور ادارے تک رہن رکھواتی ہے اور اس پر شان و شوکت کا عالم یہ ہے کہ وزراء کے شوق ختم نہیں ہورہے ہفتہ بھر پہلے سینیٹ میں حکومت کے چہیتے چھ انمول رتنوں کو خصوصی اجازت کے ساتھ 4600سی سی کی لگژری گاڑیاں وصولنے کا انکشاف ہوا ہے ان میںزلفی بخاری،شیخ رشید،شہزاداکبر،علی زیدی کے پاس بلٹ پروف 4600سی سی کی لینڈ کروزر کے ساتھ ساتھ 1800سی سی کی کاریں بھی موجود ہیں ،کوئی سمجھائے کہ ان وزیروں مشیروں نے کون سے نانگا پربت پر جا کرمراقبہ کرنا ہے کہ انہیں 4608سی سی کے طاقتور انجن کی یہ بیش قیمت جدید گاڑیاں دی جائیں ۔۔۔ انکی آنیوں جانیوں کے لئے 1800سی سی کی کاریں کافی نہیں ؟یہ وہی حکومت ہے جس نے اقتدارسنبھالتے ہوئے مہنگی گاڑیاں فروخت کر ڈالی تھیں کہ ہم ان عیاشیوں کے متحمل نہیں ہوسکتے مجھے کم علم کو کوئی بتائے کہ اب ہماری کون سی کانیں سونا اگلنے لگی ہیں۔۔۔ ہم اس وقت بس قرض نگل اور پریشانیاں اگل رہے ہیں۔قرضوں نے ہمارا مستقبل بھی رہن رکھ لیا ہے ہماری تنزلی کا سفر جاری ہے کہیں ٹھہراؤ نہیں اوریہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اپنی صفوں میں کسی ہوگو شاویز ،کسی بورس یلسن اور کسی چینی سفیر کو تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتے اور یہ کام محض دعاؤں سے تو ہونے سے رہا!