زندگی بامعنی محسوس ہونے لگی۔ احساس نے کروٹ لی اور بے کراں ہونے لگا۔ رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے تب احساس کا وہ لمحہ نمودار ہوا، جو بہت پہلے ہونا چاہئیے تھا۔اپنے آپ سے کہا: آدمی اپنا بویا ہوا کاٹتا ہے۔ حالات کا جتنا بہتر ادراک کرتااور قدرت سے جس قدر ہم آہنگ ہوتاہے، اتنی ہی زندگی میں آسودگی۔ بے لگام، بے مہار، تضیع اوقات میں سکون اور قرار کہا ں۔ پھر ایک اور خیال نے دل پر دستک دی: بار بارمیرا مالک مجھے یاد دلاتا ہے کہ لوٹ کر میرے پاس آنا ہے۔جانور کی نہیں، آدمی کی زندگی جیو۔احساس، دردمندی اور علم کے ساتھ۔ چند روزہ مہلت ہے، یہ دائمی حیات تونہیں۔ پھر ایک تصور نے تسکین کا در کھولا۔اللہ مہربان ہے۔ اس کے پاس لوٹ جانے میں خوف کیسا۔ غلطیاں اورحماقتیں کی ہیں مگر کیا اس کی رحمت سے زیادہ ہیں؟ بے وقت ہی سہی، جس کے سامنے سجدہ کرتے ہیں۔ پوری یکسوئی سے نہ سہی مگر تقریباً پابندی کے ساتھ جس سے التجا کرتے رہتے ہیں۔ رحمتہ اللعالمینؐ پہ درود پڑھتے ہیں۔لوٹ جانے میں اندیشہ کیا۔ ڈاکٹر سہیل چغتائی میرے مستقل اور مفت کے معالج ہیں۔اڑھائی تین برس پہلے ایک لائبریری کے افتتاح کی فرمائش کی، جہاں طالبِ علم بلامعاوضہ ہر قسم کی کتابیں پڑھ سکیں۔ ایسی کئی لائبریریاں وہ پہلے ہی بنا چکے۔ یہ پہلا موقع تھا، جب مجھ سے انہوں نے رابطہ کیا۔ شام کے کھانے پر زحمت دی کہ کچھ تبادلہ ء خیال ہو۔ڈاکٹر صاحب کو میں نے ایک مہذب، متوازن، معقول اور دردمند آدمی پایا۔ ایسا رشتہ قائم ہوا جیسے ازل کی شناسائی ہو۔ جب بھی ذرا سی تکلیف ہو ئی، لیبارٹری پہنچا۔ انہوں نے ٹیسٹ کیے، تسلی دی، مشورے عنایت کیے، راہ سجھائی اور بعض اوقات دوائیں بھی خود منگوا کر دیں۔ شکریہ کے الفاظ کبھی مل نہ سکے۔ ایک بار جب یہ کہا: ڈاکٹر صاحب آپ نے بہت کرم فرمایا تو بولے: یہ ہمارا فرض ہے۔ عرض کیا، بالکل نہیں۔ یہ توبندہ پروری ہے۔ بے ریا آدمی نے اس پر یہ کہا: آپ کو معلوم نہیں،ہم آپ سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ ادھر میں شرمسار۔پھر ان سب دوستوں کو یاد کیا، جو ہمیشہ عنایت کرتے ہیں۔ ملتان سے آم بھجواتے ہیں۔ پشاور سے دوست محمد، جن سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی، تغاب میں پیدا ہونے والا دنیا کا بہترین انار بھیجتے ہیں۔دونوں ہاتھوں سے محبت بانٹنے والے جنرل ناصر جنجوعہ کوئٹہ میں تھے تو شفتالو اور چاغی کے خربوزے بھجوایا کرتے۔ انور رٹول آم سے جو کم میٹھے اور خوشبودار نہیں ہوتے۔ اچانک سید ابو الاعلیٰ مودودی سے ایک ملاقات یاد آئی۔ امیرِ جماعتِ اسلامی کی حیثیت سے ان کا آخری انٹرویو لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی، ناچیز کی عمر اکیس بائیس برس تھی۔پوچھا: ہمہ جہت ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ اب کیا کیا کریں گے؟ فرمایا: میں جماعتِ اسلامی کی امارت سے ریٹائر ہوا ہوں، زندگی سے نہیں۔ پینتالیس برس کے بعد یہی سوال جنر ل اشفاق پرویز کیانی سے کیا تو انہوں نے یہی جملہ دہرایا، جو کبھی ان کی خدمت میں عرض کیا تھا۔ دس بارہ ماہ سے معمول یہ ہے کہ ہفتے میں اوسطاً پانچ دن لاہور میں گزار تا ہوں۔ ایک دن آنے اور ایک دن جانے کا۔ جمعہ، ہفتہ اور اتوار، تین دن رات دس بجے ’’مقابل‘‘ پروگرام۔ ہفتے میں چار کالم۔ گویا سال میں 365دن کی ذہنی مصروفیت۔ بار نہیں ہے، اذیت ناک نہیں، سوچنے اور سیکھنے کا موقع ملتاہے۔ یہی زندگی ہے۔ گرامی قدر استاد نے کہا تھا: کاش کہ لوگ جانتے کہ حصولِ علم میں کیسی نشاط چھپی ہے مگر اب خیال کی دو اور لہریں اٹھتی ہیں۔ ایک وہ بات، جو کبھی عرض کی تھی: فلسفہ وہ درخت ہے، جس پر کبھی پھل نہیں لگتا۔ اسی طرح اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ پاکستانی صحافت جس ڈھب پہ آگئی ہے، وہ بے ثمر ہی رہے گی۔ محض شور و غوغا۔ عمر بھر یہ ناچیز سمجھتا رہا کہ یہ پیشہ منتخب کرنے کا فیصلہ نہ صرف درست بلکہ شاندار تھا۔ غلطیاں اپنی جگہ لیکن اظہارو بیان کے بغیر زندگی کا لطف کیا۔ شہرت پائی، اللہ نے عزت دی، خلق میں پذیرائی ہوئی۔ اب کبھی افسوس ہوتاہے۔ یہی زندگی حصولِ علم میں بسر کی ہوتی۔ خود کو سنوارنے کی سعی کی ہوتی۔ اس شہرت اور قدرے زیادہ آمدن سے کیا حاصل۔ قلب و ذہن کو، جو شائستگی اور سکون عطا نہ کر سکے۔ اپرینٹس شپ کا وقت شمار کیا جائے تو 52برس سے زیادہ ہو چکے۔ باقاعدہ دفتری زندگی یکم نومبر کو 51سال کو محیط ہو جائے گی۔ رپورٹنگ، میگزین، اداریہ نویسی، نیوزروم اور آخر کو کالم نگاری۔ اس دشت کا کوئی ایک بھی گوشہ نہیں، جس کی سیاحی نہ کی ہو مگر اب اکتاہٹ ہے۔دل اب اوبنے لگا ہے۔ لکھنے والا لکھنا تو نہیں چھوڑ سکتا اور بات بھی کرنی پڑتی ہے مگر اب لاہور میں قیام پر جی آمادہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ گھر جیسے کھانے کا بندوبست ہو سکتاہے، نہ دوسری سہولتوں کا، اس عمر میں جن کی ضرورت ہوتی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ بلڈ پریشر ہے، ذیابیطس اور نہ دل کا مرض لیکن وہ تاب و توانائی اب نہیں۔ پچاس برس کی راتیں جاگ کر گزاردیں، اب جی چاہتاہے کہ جیسے بھی ممکن ہو، شب دس گیارہ بجے بتی بجھا دی جائے۔ شاعر نے کہا تھا اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم دوستو ختم ہوئی دیدہ ء تر کی شبنم خاکسار کو اس سانحے سے اللہ نے بچالیا لیکن اب تکان ہے۔دفتر سے درخواست کا ارادہ ہے کہ بوریا بستر سمیٹ کر اسلام آباد چلا جاؤں۔ ان دنوں اقبال بے طرح یاد آتے رہے۔ دستِ ہر نا اہل بیمارت کند سوئے مادر آ کہ تیمارت کند اس شہرِ خنک، مدینہ منورہ کی یاد دل میں انگڑائیاں لیتی ہے۔ دامانِ رحمت پہ سر جھکانے کو جی چاہتا ہے۔سحر سوچتا رہا کہ خصوصی اجازت کے لیے کسی سے التجا کروں۔ پھر سوچا، اپنے مالک و پروردگار ہی سے کیوں نہیں، جس کی مرضی کے بغیر ایک پتہ بھی نہیں ہلتا۔ جس نے خود پہ رحمت کولازم لکھا ہے۔ ایسے میں سرخوشی کا ایک بے کراں لمحہ طلوع ہوا۔ عالمِ خیال میں جب خود کو احرام میں ملبوس پایا۔ کالے ریشمی لبادے میں ڈھکے، اللہ کے گھر کا طواف کرتے اور پھر ہمہ وقت چاندنی میں نہائی مسجدِ نبویؐ کا بے کراں سحر۔ زندگی بامعنی محسوس ہونے لگی۔ احساس نے کروٹ لی اور بے کراں ہونے لگا۔ رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یاد آئی جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے