کوئی ہے جو بتائے اس وقت قوم کا بڑا مسئلہ کیا ہے یا حکومت کی طرح سب کا یہ خیال ہے کہ راوی چین لکھتا ہے‘ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ سب کچھ قانون اوردستور کے مطابق چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ کیا کر لیں گے مولانا فضل الرحمن بیٹھے رہیں اسلام آباد کے مضافات میں ‘خود ہی تنگ آ کر واپس لوٹ جائیں گے اور یہ کہ نواز شریف تو ہمارے رحم و کرم پر ہیں۔ درست ان کی طبیعت خراب ہے‘ مگر اس سے حکومت پر کیا فرق پڑتا ہے اور تیسری بات پیاز ‘ٹماٹر کے بھائو کو بنا رکھا ہے ان لوگوں سے ‘اس سے کیا قیامت آ جائے گی۔ معیشت تو درست سمت پر چل رہی ہے۔ یا تو حکومت بہت مست ملنگ ہے‘ اسے کسی بات کی پروا نہیں ہے یا پھر فیصلہ سازی کا مسئلہ ان کے قریب پھٹک کر نہیں گیا‘ ایک ایک بات کو دیکھتے جائو‘ ہر معاملہ قیامت برپا کر سکتا ہے اور ہم ہیں کہ مسخرے پن میں لگے ہوئے ہیں۔ نواز شریف کے معاملے میں تو حد ہو گئی ہے۔ عرض کر دوں یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو سب کچھ لے ڈوبے گا۔ صرف اس وقت عقل آئی تھی اور راتوں کی نیندیں اڑ گئی تھیں جب یہ معلوم ہوا تھا کہ نیب کی تحویل میں ملزم کی حالت غیر ہو گئی ہے‘ اس قدر تشویشناک کہ زندگی اور موت کے لالے پڑے ہیں۔ خفیہ ذرائع سے معلوم ہوا کہ بیماری کی خبر درست ہے۔ شاید روحانی ذرائع نے بھی اطلاع دی کہ اگر سابق وزیر اعظم کو کچھ ہو گیا تو موجودہ وزیر اعظم کی بھی خیر نہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری اکثر حکومتوں کے پس پشت روحانیت کے نام پر اس قسم کی توہم پرستی چلتی رہی ہے۔ کہیں کم کہیں زیادہ۔ آج کل تو خیر یہ عروج پر ہے۔ اس کے ساتھ بہت سی افواہیں خبروں کی صورت میں اڑائی گئیں۔ کبھی غور کیا آپ نے ترکی کے صدر طیب اردوان کے دورہ پاکستان کی خبر کتنی بار آئی ہے ‘ مگر وہ نہیں آئے ‘میں یہ نہیں کہتا ان کا یا قطری ایئر ایمبولینس کا اس میں رول ہے ‘یہ ضرور کہوں گا کہ دنیا آپ کا کرپشن والا بیانیہ مان نہیں رہی۔وہ دنیا جو ہمارے لئے اہم ہے۔ میں اس وقت دوست ممالک سے پاکستان کے تعلقات کاتجزیہ نہیں کرنا چاہتا۔ صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ گاڑیوں کی ڈرائیوری کرنے کے باوجود ہم اپنے بہت سے دوست برادر اسلامی ممالک سے ایک ہی پیج پر نہیں ہیں۔ ایک ہی پیج‘ سمجھ آ گئی ہو گی مری بات۔ ملک کی مقتدر قوتیں بھی اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ نواز شریف کی صحت سے نہ کھیلا جائے۔ میں یہ بات بڑے محتاط لفظوں میںکہہ رہا ہو‘ وگرنہ یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ ان کے خیال میں نواز شریف سے زیادتی ہوئی ہے اور اس کے باوجود بھی اس کے حلقہ اثر کو کم نہیں کیا جا سکا۔ اور اگر خدانخواستہ بات مزید بگڑ گئی تواس کے بڑے نقصان ہو سکتے ہیں۔ یہ وہ آخری نکتہ ہے جو بعض حلقوں کی رائے کے مطابق حکومت کے لئے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ کہیں شہباز شریف اس کی آڑ میں اپنے لئے کوئی راستہ تو نہیں نکال گئے کہیں اندر خانے کوئی بات تو نہیں چل رہی۔ حکومت بہت کمزور ہے‘ کہیں پتا بھی کھڑکتا ہے تو کانپ اٹھتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ وہ اپنے ’’کرپٹ‘‘ مخالفین کے حلقہ ہائے اثر کو نہیں توڑ سکی بلکہ وہ مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔ نواز شریف کے حوالے سے جن لوگوں کے بیانات آ رہے ہیں یا جن کے چہرے ٹی وی پر دکھائے جا رہے ہیں‘ حکومت داناہوتی تو ان کا ذکر تک گول کر جاتی۔ بھلا بتائیے اگر نواز شریف کی قسمت کا فیصلہ بیرسٹر فروغ نسیم نے کرنا ہے یا شہزاد اکبر نے تو ریاست کہاں کھڑی ہے۔ آپ اس سے نواز شریف کی تضحیک توکرسکتے ہیں۔ اسے نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ عمران خاں کا اپنا امیج اس پورے واقعے میں بہتر ہو رہا تھا کہ ادھر ادھر سے آوازیں آنے لگیں۔ جب نعیم الحق ‘ زبیدہ جلال‘ شیخ رشید‘ چودھری سرور یہ خبر دے رہے ہوں کہ حکومت فیصلہ کر چکی ہے اور چودھری شجاعت کہہ رہے ہوں اتنی دیر نہ کرو کہ ایسا نقصان ہو جائے جس کی تلافی نہ ہو سکے‘ تو ایسے میں الٹے سیدھے بیانات اور الٹی سیدھی باتیں بالکل سمجھ میں نہیں آ رہی‘ یہ کون کر رہا ہے‘ کون کرا رہا ہے‘ کچھ سمجھ آتا ہے۔ زیادہ گفتگو نہیں کرنا چاہتا‘ صرف چودھری شجاعت کا فقرہ دہرائوں گا اتنی دیر نہ کرو کہ پھر تلافی نہ ہو سکے۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کے معاملے کو جس طرح لیا گیا ہے۔ وہ ریاست کی بہت سی کمزوریاں ظاہر کر رہا ہے۔ آغاز میں خندقیں کھودی گئیں۔ کنٹینر سجائے گئے‘ مسلح دستے طلب کر لئے گئے ‘ گرم و سرم بیانات جاری کئے گئے۔ نہیں دیں گے وغیرہ وغیرہ پھر کسی عقل مند کے مشورے سے فیصلہ ہوا کہ انہیں راستے میں نہ روکا جائے۔ اسلام آباد میں اجتماع ہوا تو کچھ بقراط ٹی وی پر کہتے پائے گئے۔ یہ غلطی کی گئی ہے۔ انہیں یہاں آنے دینا غلط تھا۔ یہ اب ڈی چوک جائیں گے پھر آگے اور آگے اور آگے۔ دو چار دن گزر گئے تو یہ احساس ہوا کہ یہ نہ ٹریفک کو روک رہے ہیں نہ کوئی امن و امان کا مسئلہ پیدا کر رہے ہیں بس جھولے جھول رہے ہیں۔ کھیل کود رہے ہیں‘ نمازیں پڑھ رہے ہیں۔ اوپر سے طوفان بادو باراں بھی آن پہنچا ہے۔ خود ہی لوٹ جائیں گے۔ مولانا کو کچھ نہیں ملے گا۔ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ انہیں شاید ٹریپ کیا گیاہے۔ اب چاہے بیٹھے رہیں یا لوٹ جائیں۔ پلان بی کا مذاق اڑایا گیا۔ یوں لگتا ہے کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ پرامن احتجاج سے تو ہم متاثر ہونے والے نہیں۔اور مولانا نے اسلام آباد میں پرامن رہنے کا بیانیہ بڑے زور و شور سے اپنا رکھاہے۔ مطلب یہ کہ آپ انہیں تشدد پر ابھار رہے ہیں۔ یا آپ کے خیال میں مولانا کے پاس اور کوئی راہ فرار نہیں۔ مولانا ہر روز اپنی طاقت دکھاتے رہے۔ تازہ دم دستے بھی آتے رہے۔ مگر پرامن لوگوں سے کون ڈرتا ہے۔ اب مولانا نے اعلان کیا ہے کہ ہم یہاں تو ایسے ہی پرامن بیٹھے ہیں‘ مگر ملک بھر میں پلان بی شروع کر رہے ہیں۔ صاف کہا‘ بین الصوبائی سڑکیں یا اہم شاہراہیں بلاک کریں گے ۔گزشتہ صبح صبح ہی کوئٹہ چمن کی شاہراہ اس طرح بند کی گئیں اورکاریں تو گزر رہی ہیں مگر بڑی ٹریفک نہیں گزر سکتی۔ بڑی ٹریفک میں نیٹو کی سپلائی بھی ہے اور مال تجارت بھی۔ اب وہ کراچی جانے والا راستہ بھی روک رہے ہیں۔ کیا خیال ہے‘ وہ مختلف صوبوں میں یہ کام نہیں کرسکتے۔ شاید حکومت کو اب بھی سمجھ نہیں آ رہی۔ اس مارچ کے اولین مرحلے میں رکاوٹ نہ ڈال کر انہوں نے جو عقل کا کام کیا تھا اب گویا اس کی تلافی کر رہے ہیں۔ پورے ملک میں فساد پھیلا رہے ہیں۔ یہ وہ وقت نہیں جب ملک کو انتشارکا شکار کیا جائے۔ عام طور پر یہ بات اپوزیشن سے کہی جاتی ہے۔ یہ بات ایسی ہے جو حکومت کو بھی سمجھ لینا چاہیے۔ وہ ساری قوتیں جو اس سے متاثر ہوں گی ‘ وہ تو ضرور اس کا حل چاہیں گی۔ مولانا ان تمام قوتوں سے مخاطب ہو رہے ہیں اور تو چھوڑیے ‘ آج انہوں نے چمن کی شاہراہ بند کر کے امریکہ اور نیٹو کو بھی پیام دیا ہے کہ ابھی آپ کو ہماری ضرورت ہے۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ہماری پیاری حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے‘ بجائے اس کے کہ فقرے بازی کرنے والوں کو آگے کر کے خوش ہولے کہ ہم نے میدان مار لیا۔ یہ جگت بازی کا مقابلہ نہیں‘ بھانڈوں کے درمیان کھیل تماشا نہیں۔ بیشتر اس کے کہ اس آزادی مارچ کا زہر پورے ملک میں پھیل جائے اس کا کوئی حل کیا جائے۔ تیسری بات ٹماٹر‘ پیاز کی قیمتیں ہیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ جس ملک کا مشیر خزانہ یہ کہتا پایا جائے کہ ٹماٹر سبزی منڈی میں 17روپے کلو فروخت ہو رہا ہے جبکہ اس سے دس گنا قیمت پر بھی دستیاب نہیں۔ یہ صرف مہنگائی کا رونا نہیں‘ بلکہ نالائقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نالائقی اس بات کی نہیں کہ آپ کو ٹماٹر اور مٹر کی قیمت کا بھی علم نہیں بلکہ یہ کہ آپ زرعی شعبے میں بھی اپنے معاملات کو سنبھال نہیں سکے۔ ہمارے ملک کا ایک نظام ہے ۔ آلو‘ پیاز ‘ ٹماٹر وغیرہ کی فصلیں مختلف علاقوں میں مختلف اوقات میں تیار ہوتی ہیں۔ ایک جگہ ختم ہوتی ہے تو دوسری جگہ سے آ جاتی ہے درمیان میں باہر سے منگوانا پڑے یا محفوظ کرنا پڑے تو بہت کم مدت کے لئے یہ بھی ہو جاتا ہے۔ کوئی بتا رہا تھا کہ ہم باہر سے 5ارب کی سبزیاں پھل وغیرہ منگوا رہے تھے۔ اسے کم کر کے ساڑھے تین ارب کر دیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس وقت بیک اپ نہیں ہے۔ اچھا کیا‘ آپ نے زرمبادلہ بچایا‘ امپورٹ ‘ایکسپورٹ کے درمیان گیپ کم کر دیا مگر لوگوںکو بھوکوں مار ڈالا۔ ٹماٹر ‘ پیاز ‘ آلو‘ مٹر اپنی جگہ مگر ہم جوگندم سرپلس پیدا کرتے تھے۔ اس بار ہم نے اپنی فالتوگندم بھی بیچ ڈالی تاکہ زرمبادلہ کمایا جائے اور اس سال فصل بھی کم ہوئی۔ ایک طویل عرصے کے بعد خدشہ پیدا ہو رہا ہے کہ تین چار ماہ بعد ہمارے ہاں گندم کی کمی ہو جائے گی۔ ابھی میں ٹی وی پر خبر سن رہا تھا کہ کوئٹہ میں 50روپے کے اضافے کے بعد گندم کے آٹے کی بیس کلو کی بوری اب ایک ہزار میں ملے گی۔ یعنی 2ہزار روپے من آٹا۔ یاد ہے حبیب جالب کی نظم: بیس روپے من آٹا‘ اس پر بھی ہے سناٹا جی ہاں اس وقت آٹے کی قیمت 20روپے من تھی‘ اب 2ہزار روپے من ہے۔ کیا کسی تبصرے کی ضرورت ہے۔ ہم اصل کمائی زراعت کی پیداوار سے حاصل کرتے تھے۔صرف ٹیکسٹائل سے ہماری بڑی برآمدات تھیں۔16ملین ڈالر کے قریب۔ زرعی شعبے سے کوئی 18ملین ڈالر کی آمدنی۔ اب یہ حال ہے کہ ہم نے کاٹن کا بھی ستیا ناس کر دیا ہے۔ اس کی اصلاح نہیں ہو گی۔ کیونکہ کپاس کے کھیتوں میں اب جہانگیر ترین کا گنا اگتا ہے۔ شوگر مافیا نے ٹیکسٹائل صنعت کو تباہ کر دیا۔ ہماری کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ خدا کے لئے ان معاملات کو سمجھیے‘ وگرنہ بہت دیر ہو جائے گی۔ کوئی فیصلہ ہم سے سنبھل نہیں رہا اور عام آدمی ہے کہ پریشان ہے کم از کم ان تین مسئلوں نے تو سب کی روح قبض کر رکھی ہے۔ نواز شریف کی علالت‘ مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اور آلو ٹماٹر کا بھائو‘ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ ذہنوں میں عجب انتشار ہے اور لہجہ سخت ہے۔