سیاست کا سیاپا ہمارے ہاں ضرورت سے زیادہ ہوتا ہے۔ دن رات سیاسی تجزیوں کے ہنگام‘ پرائم ٹائم کے سارے پروگرام سیاست اور سیاسی بازی گروں کے نام ہوتے ہیں۔ سیاسی حالات پر صحافتی دانشوروں کی جگالی ہمہ وقت جاری رہتی ہے۔ ایسے میں کسی ایسے موضوع پر بات نہیں ہوتی جو ادب اور سماج سے جڑا ہو، جس کا ربط اپنی تہذیب وثقافت اور اقدار سے ہو۔ سیاست کے اس سیاپے نے ہمیں اس قدر الجھا رکھا ہے کہ زندگی سے جڑے ہوئے کئی اہم موضوعات کسی گفتگو اور مکالمے میں نہیں آتے۔ ہم سمجھتے رہے کہ اگر سیاستدانوں اور سیاست کی سمت درست ہو جائے گی، تو فرد کی زندگی میں انقلاب برپا ہو جائیگا۔ اس کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔فرد کی زندگی کی بنت میں سیاست سے زیادہ کئی دوسرے عوامل اپنا کردار ادا کرتے ہیں، جس سے ایک فرد کی ذہنی ساخت اور پھر پورے معاشرے کی ذہنی ساخت بنتی ہے۔ المیہ یہ ہوا کہ سماج کے اندر وہ تمام ذرائع جو فرد کی ذہنی ساخت بناتے ہیں، ان کو کنزیور ازم کنٹرول کر رہا ہے۔ ایسے میں تہذیب‘ روایت‘ مذہبی اقدار ساری کی ساری دائو پر لگی ہیں۔زندگی کوبرتنے‘ جانچنے اور سمجھنے کے سارے طور طریقے 180 ڈگری پر تبدیل ہورہے ہیں۔ ہمارے لباس سے لے کر ہمارے آپس کے رشتوں تک سب کچھ ایک آندھی کی زد میں ہے۔ شلواریں‘ سگریٹ پینٹس میں بدل گئیں‘ کرتا جو تھا وہ کرتی بن چکی ہے۔ چادر کی جگہ آئوٹ آف ڈیٹ ہو چکی ہے۔ دوپٹہ کچھ عرصہ گلے میں رسی کی طرح اڑکتا رہا اور اس سے بھی جان چھڑائی جا چکی ہے۔ دلہن کا حسن اور حجاب پروفیشنل فوٹو گرافی کی نذر ہو گیا اور دلہا کا وقار اور مردانگی مردانہ سیلون میں پفنگ‘ ٹچنگ اور تھریڈنگ کے ہاتھوں ڈھیر ہو چکا۔ ڈرامہ کبھی پورے خاندان کی تفریح ہوا کرتا تھا۔ اپنے اپنے کاموں سے فراغت کے بعد گھر بار اکٹھے ڈرامہ دیکھنے بیٹھتے ایک دوسرے کے ساتھ اچھا وقت بھی گزرتا اور تفریح طبع کا سامان بھی ہوتا۔ سیکھنے کے لیے بھی بہت کچھ ملتا۔ کبھی ڈراموں کے نام ایسے ہوتے‘ من چلے کا سودا‘ دھوپ کنارے‘ ان کہی‘ تنہائی‘ ستانی راحت کی کہانی فہمیدہ کی زبانی‘ رگوں میں اندھیرا‘ کانچ کا پل‘ لکھنے والے اشفاق احمد‘ یونس جاوید‘ بانو قدسیہ‘منو بھائی‘ حسینہ معین‘ عطاء الحق قاسمی‘ مستنصر حسین تارڑ جیسے ایک سے بڑھ کر ایک بڑا ادیب اور لکھاری۔ ریٹنگ کا سایہ ڈرامے پر پڑا تو زوال اور ذہنی پستی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ کہانی سے لے کر مکالموں تک‘ تہذیب اور اقدار کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور یہ بھی المیہ ہے کہ ایک فارمولا ہٹ ہوجائے تو پھر آنے والے سارے ڈراموں میں اسی فارمولے کا گھوٹا لگایا جاتا ہے۔ سماج اور فرد کی ذہنی تربیت کے حوالے سے سوچ رکھنے والے پہلے اس بات کا ماتم کرتے تھے کہ ہر دوسرے ڈرامے میں ایکسٹرا افیئرز دکھائے جاتے ہیں۔ ایک بیوی گھر پر ہے چار افیئرز گھر سے باہر ہیں لیکن ان دنوں ڈرامہ زوال کی انتہا پر ہے۔ آج کل ڈرامے میں ان رشتوں کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں جن کے درمیان احترام اور تقدس کی دیوار موجود رہتی تھی۔ رشتوں کے تقدس میں جو نقب لگائی جا رہی ہے اس کا نوٹس لینا بے حد ضروری ہے۔ اس کی روک تھام ضروری ہے۔ آج کل ڈراموں میں بس یہی دکھایا جارہا ہے۔ دیور کا عشق بھابی کے ساتھ‘ سالی بہنوئی کی محبت میں گرفتار‘ سسر بہو پر ڈورے ڈال رہا ہے‘ باس اپنے ماتحت کی بیوی سے عشق لڑارہا ہے۔ہوتا ہوگا یہ سب ہمارے معاشرے میں کہیں نہ کہیں لیکن اتنا اندھیرا بھی نہیں پڑا کہ رشتوں کا احترام یکسر ختم ہو جائے۔ رشتوں کے احترام میں نقب لگانے کی یہ خباثت شاذو نادر اگر کہیں ہوتی بھی ہے تو اس خباثت پر ڈرامے بناکر ہم معاشرے کو کیاپیغام دے رہے ہیں۔ ہم نا سمجھ ذہنوں کو کہ رہے ہیں کہ رشتوں میں احترام اور تقدس کی سب دیواریں گرا دو۔ان ڈراموں کی لکھنے والیاں عموماً اس اعتراض کا جواب یوں دیتی ہیں کہ ہم وہی لکھتے ہیں، جو معاشرے میں ہورہا ہے۔ یہ دلیل سراسر لغو ہے۔ خدانخواستہ ایسا اندھیر پن مچا ہوا ہے، ہمارے گھروں میں رشتوں کا احترام اور تقدس ابھی موجود ہے اسی لیے تو کچھ طاقتیں اس پر ضرب لگانا چاہتی ہیں۔ اب تو ویب سیریز بھی بننے لگی ہیں اور ایسے موضوعات پر ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں جن کا تذکرہ شرفاء اپنی گفتگو میں کرنے سے احتراز کریں۔ آجکل ایک ڈرامہ چل رہا ہے جس کی بازگشت ان دنوں سوشل میڈیا پر بھی سنی جا رہی ہے۔ ان ڈراموں نے عورت اور مرد کو دو گروہوں میں بانٹ دیا ہے یا شکاری بنو یا شکار بن جائو۔ ان دو اشیائوں کے درمیان عورت اور مرد کے تعلق کے ہزارہا خوب صورت زاویے‘ تہذیب‘ وقار‘ شائستگی میں ڈسے ہوئے ہیں جس میں مرد اور عورت دونوں باوقار‘ اعلیٰ ظرف‘ شائستہ‘ تہذیب کے دائرے میں رہنے والے دو انسانوں کا کردار نبھائیں۔ یہ زاویہ ہمارے ڈراموں میں مفقود ہو چکا ہے۔ پی ٹی وی نے ایک زمانے میں پاک و ہند میں ڈراموں کا ایک نیا رجحان دیا۔ وقت نہیں ہے کہ ان ڈراموں کے کرداروں کے وقار اور شائستگی میں ڈھلے طور طریقوں اور مکالموں کو یہاں دہرایا جائے مگر جس نے بھی اس دور کے ڈرامے دیکھ رکھے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ کردار نگاری اور کہانی کا کیا معیار ہوا کرتا۔ حسینہ معین کے ڈراموں میں پڑھی لکھی‘ بااختیار اور دبنگ لڑکیاں دکھائی جاتی ہیں مگر کہیں سے بھی ایسا تاثر نہیں ملتا تھا کہ وہ اپنی اقدار اور تہذیب کی بھی دشمن ہیں۔ مرد کرداروں میں دھوپ کنارے کے ڈاکٹر احمر کا کردار جو راحت کاظمی نے ادا کیا تھا، ایک آئیڈیل کردار تھا۔ ڈاکٹر باس کے روپ میں تمام اختیارات کے باوجود شائستہ‘ اعلیٰ ظرف۔ آج کل اس طرح کے کرداروں میں شکاری اور بلیک میلر دکھائے جاتے ہیں۔ پستی اور زوال کی انتہا ہے۔ تفریح کا ذریعہ ڈرامہ اب لچر پن کی اس حد تک آ چکا ہے کہ کنبہ ایک جگہ بیٹھ کر ڈرامہ نہیں دیکھ سکتا بلکہ اب تو ڈرامہ دیکھنے کے قابل رہا ہی نہیں۔ ہاں کف افسوس مل سکتے ہیں۔ اس زوال کا نوحہ پڑھ سکتے ہیں۔ مگر کہاں‘ سیاست کا سیاپا میں فرصت دے تو ہم سوچیں۔یہ کون سی شیطانی طاقتیں ہیں جو ڈراموں کے احترام کی دھکیاں اڑا رہی ہیں۔ عورت اور مرد دونوں کو تہذیب‘ اقدار اور شائستگی کے دائروں سے نکال کر شکاری اور شکار بننے کی ترغیب دے رہی ہیں۔ یہ زوال کا سلسلہ کہاں رکے گا۔ کوئی ہے جو اس پر بھی بات کرے؟