یوں تو ہمارے ہاں تخلیقی عمل ہر سطح پر بری طرح متاثر ہورہا ہے جس میں تصویر، تحریر اور تقریر خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ پھر ان تین میں بھی بالخصوص خطابت تو کالج و یونیورسٹی سطح سے تقریباً فارغ ہوچکی۔ کالج و یونیورسٹیز سے خطیبانہ آہنگ لے کر سیاسی میدان میں آنے والی ہمارے پاس بس آخری نسل ہی رہ گئی ہے۔ میری مرادوہ نسل ہے جس میں جاوید ہاشمی، اعتزاز احسن، خواجہ آصف، رضا ربانی، احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق شامل ہیں۔ اس نسل کی خوش قسمتی یہ تھی کہ اسے بچپن و لڑکپن وہ میسر آیا تھا جس میں مولانا آزاد، سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور آغا شورش کاشمیری کے خطبات گونج رہے تھے جبکہ جوانی اس عہد کی میسر آئی جو بھٹو اور کوثر نیازی جیسے مائیک شکن سیاسی خطیبوں کا عہد تھا۔ سو اسی کے زیر اثر ان کا طرز خطاب اپنے حریف سے موقف کی نہیں تو فنی مہارت کی داد تو ہر حال میں حاصل کر ہی لیتا ہے۔خدا ان مذکورہ شخصیات کو لمبی حیات دے مگر جب بندہ عمر کے آخری حصے میں قدم رکھ چکا ہو تو پھر ایسی دعائیں بے معنی ہوجاتی ہیں اور سوال یہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ کیا پارلیمنٹ یا سیاسی جلسوں کی پچھلی قطار میں بیٹھی نوجوان قیادت میں خطابت کے اس فن کی کوئی جھلک نظر آتی ہے ؟ افسوس ! جواب نفی میں ہے۔ اگر آپ کو مولوی حقیر لگتا ہے تو میری اگلی گزارشات آپ پر گراں گزرنے والی ہیں۔ کیونکہ میں آپ کو اس حقیقت سے روشناس کرانے جا رہا ہوں کہ اب شاید آپ کو فن خطابت کالج و یونیورسٹی سطح پر واپس لانے کے لئے مدرسے کی مدد لینی پڑے۔ اس بات میں تو کوئی شبہ ہی نہیں خطابت کا فن اپنی تمامتر خوبیوں کے ساتھ صرف مولوی کے پاس باقی رہ گیا ہے۔ وہاں بھی اس کی بقا میں اہم کردار خطبہ جمعہ کا ہے جو ہر پیشہ ور مولوی کو دینا ہی پڑتا ہے۔ اس فن کی تربیت کا بندوبست مولوی نے کچھ یوں فرما رکھا ہے کہ مدارس کی درسگاہ کے عام طور پر دو ہی استعمال ہوتے ہیں۔ ایک تو مقصد اصلی یعنی تعلیم کے لئے اور دوسرا ہفتہ وار ’’انجمن‘‘ کے لئے۔ انجمن سے مراد ہر درسگاہ کی سطح پر قائم کیا گیا وہ ’’فورم‘‘ ہے جسے باقاعدہ نام دیا جاتا ہے ۔ مثلا بزم فاروق، بزم علی، بزم شاہ ولی اللہ وغیرہ۔ مقصد ان انجمنوں کا طلبہ کو تقریر کا فن سکھانا ہوتا ہے۔ یہ انجمنیں درس نظامی والی کلاسز کی سطح پر قائم کی جاتی ہیں جن کا ایک عدد صدر اور ایک عدد جنرل سیکریٹری بھی ہوتا ہے۔ صدر صاحب کی دو ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ ایک اجلاس کے دوران منہ پھلا کر خیالی مسند صدارت پر جلوہ افروز رہنا اور دوسری ذمہ داری یہ کہ اجلاس کے اختتام پر کسی بزرگ کی طرح دعا کرا کر اجلاس ختم کرنا۔ جنرل سیکریٹری کا کام انجمن کے ہر رکن کو دعوت خطاب دینا، اس کی حاضری اور تقاریر کے موضوع کا ریکارڈ رکھنا ہوتا ہے۔ ہفتہ واری انجمن کا اجلاس جمعرات والے روز پابندی سے منعقد ہوتا ہے۔ اس اجلاس میں ہر طالب علم کو ہر ہفتے تین سے پانچ منٹ کا خطاب فرمانا ہوتا ہے جس کے موضوع کا انتخاب اس کی اپنی صوابدید پر ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر انجمن کے تمام سامعین ہی اس کے تمام خطیب بھی ہوتے ہیں۔ صدر اور جنرل سیکریٹری کے سوا تمام شرکاء روسٹرم کے سامنے سامعین کی حیثیت سے جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ سیکریٹری صاحب کے دعوت خطاب دینے پر ان میں سے ہر ایک نے روسٹرم پر آکر خطاب فرمانا ہوتا ہے۔ روسٹرم پر ساؤنڈ سسٹم کی نوبت تو تب آئے جب شرکا کی تعداد بیس تیس سے زیادہ ہو۔ سو مائیک تو کوئی نہیں ہوتا مگر خطاب یوں ہورہے ہوتے ہیں جیسے لاکھوں انسانوں کے ٹھاٹے مارتے سمندر کا خطیب کو سامنا ہو۔ مگر یہ نوبت آتی بھی آتے آتے ہے۔ نئے طالب علم کی تو پہلی بار ٹانگیں ہی کانپ جاتی ہیں۔ خود میری بھی پہلی بار نہ صرف یہ کہ ٹانگیں کانپ گئی تھیں بلکہ خطاب کے نام پر فقط ہکلا ہی پایا تھا۔ مگر یقین مانئے سال ڈیڑھ میں ہی بعض طالب علم ایسے غضب کے خطیب بن کر ابھرتے ہیں کہ بیس سے تیس سامعین سے یوں مخاطب ہوتے ہیں جیسے مولانا آزاد دہلی کی جامع مسجد میں مسلمانان ہند سے مخاطب ہوں۔ ایسے خطیب طالب اپنے ساتھی طلبہ سے نعروں کی صورت خوب داد بھی سمیٹتے ہیں اور ان کی باری آنے کا سب کو انتظار بھی ہوتا ہے۔ مذہبی ایشوز پر قوم مولوی کے اثر میں اس کے اسی خطابی سحر کے ذریعے آتی ہے جس کی مشق وہ دس سے بارہ سال ’’انجمن‘‘ میں کر کے آیا ہوتا ہے۔ یہ سب ہر ہفتے اس قدر آسانی سے ہوتا ہے کہ خرچہ اس پر دس روپے کا بھی نہیں آتا اور ہر ہفتے ہونے والا اس کا اجلاس ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں نمٹ جاتا ہے۔ ذرا سوچئے ! پانچ منٹ سے زیادہ کسی کو بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ان پانچ منٹوں میں نوآموز خطیب نے عربی خطبہ بھی پڑھنا ہے جو اکثریت کا مترنم ہوتا ہے۔ موضوع سے متعلق آیت کی تلاوت بھی کرنی ہے اور حدیث کا عربی متن بھی پڑھنا ہے۔ اگر باذوق طالب علم ہے تو حدیث کے بعد وہ اپنے موضوع کی مناسبت سے ہی کوئی شعر بھی سنا ئے گا ۔ شعر تک پہنچتے پہنچتے وہ ایک سے دو منٹ تو خرچ کر ہی چکا ہوتا ہے۔ اب پیچھے بچے تین منٹ میں اس نے تمہید بھی باندھنی ہے، تقریر کو جوش کے جوبن تک بھی لے کر جانا ہے اور پھر پوری باقاعدگی سے سمیٹ کر سامعین سے داد پاتے ہوئے اختتام بھی کرنا ہے۔ آپ خود سوچئے اسقدر محدود وقت میں اس سب کچھ کے لئے اسے ہر ہفتے دریا کو کوزے میں بند کرنے کا چیلنج درپیش ہوتا ہے کہ نہیں ؟ اور یہ دریا بکوزہ اسے ہر حال میں کرنا ہی پڑتا ہے ورنہ سیکریٹری نے تو اسے پانچ منٹ سے آگے جانے نہیں دینا۔ یہی چیلنج اسے فصاحت و بلاغت پر ایسا عبور دیتا ہے جس میں وہ کمترین لفظوں میں اپنی بات مؤثر ترین بنا کر پیش کرنا سیکھ جاتا ہے۔ یہ سادہ سا بندوبست ہی وہ کل اہتمام ہے جس کی مدد سے مولوی کا فن خطابت اپنی پوری توانائی کے ساتھ محفوظ ہے۔ اور ستم ظریقی دیکھئے کہ تقریر کو مدرسے نے جتنا سنبھال رکھا ہے، تحریر میں وہ اتنا ہی پیچھے ہے۔ گویا جو حال کالج و یونیورسٹی کا تقریر کے معاملے میں ہے وہی مدرسے کا تحریر کے حوالے سے ہے۔ سو یہ دونوں ہی طرح کے ادارے ایک دوسرے کے ساتھ ان دو ہنروں کا تبادلہ کرکے انہیں نئی رفعتوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ کوئی ہے جو پہل کرے ؟