’’ سازشی تھیوری‘‘ یقینا ایک نا معقول سی چیز ہے اور ہمارے ہاں محققین کرام نے جس طرح ہر کونے کھدرے سے دو تین درجن یہودی سازشیں کسی بھی وقت برآمد کر کے سامنے رکھ دینے کی فکری مشق فرمائی ہے اس کے بعد سچ تو یہ ہے کسی ’’ سازشی تھیوری‘‘ کو اب سنجیدگی سے لینے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعد میں آدمی اکیلا بیٹھا خود پر ہی ہنستا رہے۔لیکن اس حقیقت سے بھی اب انکار کرنا ممکن نہیں کہ کورونا کے طلسم کدے پر اب سوالات اٹھ رہے ہیں اور خلق خدا کو مزید یہ حکم نہیں سنایا جا سکتا کہ سنو اور اطاعت کرو۔ اخبارات میں ایک خبر چھپی ہے کہ کورونا کے ہاتھوں صرف فرانس میں 1300 یہودی ہلاک ہو چکے ہیں ۔میں اس خبر کی شان نزول سمجھنے سے قاصر ہوں ۔دنیا بھر میں کورونا کے متاثرین کی شناخت ان کی انسان ہونا ہے ۔اول درجے میں یہی بتایا جاتا ہے کہ اتنے انسان وبا کا شکار ہو گئے۔ اس کے بعد انتظامی معاملات کے پیرائے میں بتایا جاتا ہے کہ کتنے انسان کس ملک میں اس وبا کے ہاتھوں لقمہ اجل بنے۔ کبھی نہیں بتایا گیا کہ مرنے والوں میں کتنے عیسائی ، کتنے ہندو ، کتنے دہریے ، کتنے کیتھولک ، کتنے پروٹنسٹنٹ ، کتنے شیعہ ، کتنے سنی ، کتنے دیوبندی ، کتنی وہابی اور کتنے اہل حدیث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔یہ یقینا میری کم علمی ہو گی لیکن میں نہیں جان سکایہ اہتمام کیوں کیا گیا ہے؟ اعدادوشمار کا ایک سونامی ہے۔ بس سنتے جائیے اور تسلیم کرتے جائیے۔ جدید تہذیب فکری آزادی کے اصول پر کھڑی ہے اور ہر چیز پر سوال اٹھانا حریت فکر کے باب میں لکھا جاتا ہے۔ خدا کی ذات اور اس کے وجود کے بارے میں بھی ہر طرح کا سوال اٹھایا جا سکتا ہے لیکن کورونا پر ایسا غیر معمولی اتفاق رائے سامنے آیا ہے کہ اس کی ہلاکت خیزی اور اس کے اعدادوشمار پر سوال اٹھانے کی اجازت نہیں۔ آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ سماج کے لیے خطرہ ہیں ، آپ ایک ناسور ہیں ، آپ غیر ذمہ دار ہیں، آپ کی سوچ بیمار ہے اور آپ ایک نیم خواندہ معاشرے کے مخبوط الحواس شہری ہیں۔ تنزانیہ کے صدر نے بکری ، بھیڑ اور پپیتے کے کورونا ٹیسٹ کی کہانی سنا کر سوالات اٹھائے تو اس کا مذاق اڑایا گیا۔ اسے طعنے دیے گئے کہ اپنی اوقات تو دیکھو،اپنا ملک تو دیکھو، اپنی لیبارٹریوں کی صلاحیت تو دیکھو۔ایک سیاہ فام کی کیا جرات دنیا کے بیانیے پر سوال اٹھا کر گستاخی کا مرتکب ہو؟دبے دبے لہجے میں عرض کی جناب تنزانیہ کا صدر اتنا جاہل بھی نہیں ، اس کے پاس کیمسٹری میں ماسٹرز کی ڈگری ہے تو لہجوں کا جلال رعونت اوڑھ کر بولا: دارالسلام یونیورسٹی کی ڈگری کی کیا حیثیت ؟ اب کون سا یہ یونیورسٹی آف لندن سے الحاق شدہ ہے۔ وہ ماضی تھاجو تنزانیہ کی آزادی کے ساتھ ختم ہو گیا۔اب تو یہ ایک انتہائی مقامی قسم کی یونیورسٹی ہے۔ چلیں تنزانیہ کے صدر کی بات نہیں کرتے۔ وہ جاہل ، اس کی ڈگری مشکوک ، دارالسلام یونیورسٹی نا معتبر اور تنزانیہ کی لیبارٹریاں کباڑ خانہ سہی۔ سوال یہ ہے کہ ڈیوڈ سپیگ ہالٹر کا کیا کریں؟ یہ تو یونیورسٹی کالج لندن اور آکسفرڈ یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ہے۔ یونیورسٹی آف کیمبرج میں پروفیسر ہے۔یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں لیکچرار رہ چکا ہے۔نائٹ بیچلر اور ویلڈن میموریل انعام بھی لے چکا ہے۔اس کی مہارت کا میدان ہی اعدادو شمار ہیں اور وہ برطانیہ کے نمایاں ترین Statisticians میں سے ایک ہے۔اسے ’’ سر ‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ نوارٹس اور گلیکسو جیسی بین الاقوامی کمپنیوں کا کنسلٹنٹ بھی رہ چکا ہے۔اس کی ریسرچ کا میدان بہت وسیع اور معیار بہت اعلی ہے۔وہ بھی یہی کہہ رہا ہے کہ برطانوی حکومت کورونا کے حوالے سے جو اعدادو شمار جاری کرتی ہے وہ بالکل غلط ہوتے ہیں۔ہلاک شدگان کی تعداد بھی درست نہیں ہوتی اور کورونا کے مریضوں کی تعداد بھی جھوٹ ہے۔ کورونا وائرس کی مکمل نفی ممکن نہیں۔ یقینا یہ ایک خطرہ ہے جو ہمارے سامنے موجود ہے۔لیکن کورونا کے حوالے سے جو کچھ کہا جا رہا ہے اس پر کسی سحر زدہ معمول کی طرح یقین کر لینا بھی اب اتنا آسان نہیںرہا۔یوں محسوس ہو رہا ہے کہ مرض اور اس کے علاج سے زیادہ خوف پھیلانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ اس رویے کی کیا وجوہات ہو سکتی ہیں اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ذہنوں میں جو سوالات اٹھ رہے ہیں ان کا گلا گھونٹ دیا جائے۔معاشرے میں رائج احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے سوچنے اور غور کرنے کو ہمارے پاس بہت کچھ ہے۔ انسان اپنی Critical Thinking سے دست بردار نہیں ہو سکتا۔ اعداو شمار کا ایک طوفان ہے لیکن اس کی صداقت کیا ہے، یہ کسی کو معلوم نہیں۔لاکھوں لوگ مر گئے ہوں گے لیکن محض حکومتوں کے کہہ دینے سے اسے تسلیم کیا جا سکتا تو سر ڈیوڈ سپیگ ہالٹر نے بھی اسے تسلیم کر لیا ہوتا کہ ان کا تو میدان ہی امراض اور ان سے جڑے اعدادوشمار ہیں۔لاکھوں لوگ مر گئے لیکن کورونا اتنا سعادت مند ہے کہ دنیا کے سات براعظموں میں سے کسی ایک ’’ وی آئی پی‘‘ کو مارنے کی جسارت نہیں کر سکا ، بس برائے وزن بیت چند ایک کو لاحق ضرور ہوا ہے تا کہ سند رہے۔ کسی سازشی تھیوری کا ابلاغ مقصود نہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ کورونا سے جتنے بھی وی آئی پی متاثر ہوئے ، صحت یاب ہو گئے۔ اس سے امید کا ایک روزن وا ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ کم بخت اتنا لاعلاج بھی نہ ہو۔ گفتہ نا گفتہ ، سوالات کسی گھٹا کی طرح اٹھ رہے ہیں ۔یہ سوالات مقامی سطح پر بھی اٹھ رہے ہیںا ور بین الاقوامی سطح پر بھی۔آپ ایک واضح حکمت عملی کے ساتھ لوگوں کا قائل نہیں کریں گے تو سوالات کی یہ گھٹا برسنے لگے گی۔پھر جل تھل ایک ہو جائے گا۔ ٭٭٭٭٭