ہوسکتا ہے یہ بنی گالہ کے لئے اچنبھے کی بات ہو یا کراچی کے کسی پوش علاقے میں دو ہزار گز کے بنگلے کے مکینوں کے لئے باعث حیرت ہو ،ہو سکتا ہے کہ بیرون ملک ڈالروں ،یورو میں تنخواہ لینے والوں کے لئے یہ خبر غیر متوقع ہو لیکن زمین سے جڑے لوگوں کے لئے اس خبر میں کوئی اچنبھا تھا نہ حیرت تھی اور یہ غیر متوقع بھی نہ تھی ،میرے لئے این اے 249 میں پیپلز پارٹی کے قادر مندوخیل کی جیت کے سوا کوئی بھی بریکنگ نیوز نہ تھی کہ ن کی جیت خلاف توقع ہے، میں کراچی کے حلقہ این اے 249بلدیہ ٹاؤن سے بخوبی واقف ہوں ،میری والدہ کا ننھیال بلدیہ ٹاؤن میں رہائش پذیر ہے اور ہم قریب ہی ماری پور میں رہتے تھے ہفتہ دس دن میں بلدیہ ٹاؤن کا چکر لگ ہی جاتا تھا کراچی کا یہ نواحی علاقہ سائیٹ کے صنعتی علاقے سے متصل ہے سائیٹ کے کارخانوں میں اپنی جوانیاں گلانے والے دن بھر کی مشقت کے بعد رات کاٹنے کے لئے یہیں کے سستے مکانوں میں لوٹتے ہیں اس حلقہ میں پنجابی،پشتون،ہزارے وال،اردو بولنے والے ،مہاجر،کوکنی ،کچھی،میاںوالی اور سندھی بلوچ بڑی اکائیاں ہیں لیکن مزدور کسی بھی زبان کے ہوں جالب،فیض اور فراز کی نظموں کے مستحق ہونے کے سوا کسی سہولت کے حقدار کیوں کر ہونے لگے سو یہاں بھی وہ سب مسائل تھے جو کسی بھی پسے ہوئے طبقے کے آبادی میں ہوتے ہیں،صفائی ستھرائی تو پہلے کبھی کبھار ہوجاتی تھی پھر بلدیہ نے یہ کام کراچی کی ہواؤں کے سپرد کر دیا وہ ہی کچرے کو یہاں سے وہاں اڑاتی پھرتی تھی ،کچی گلیاں سیمنٹ ریت کے ملغوبے سے پختہ تو ہوجاتیں لیکن الیکشن سے پانچ چھ ماہ پہلے ،یہاں پینے کا پانی پہلے کمیاب ہوا پھر نایاب ہوگیا،ملک میں شائد ہی کہیں ’’دو نمبر ‘‘ پانی بھی نام کے ساتھ فروخت ہوتا ہو یہ ’’اعزاز‘‘ صرف بلدیہ ٹاؤن ہی کو حاصل ہے کہ یہاں کے رہائشی ٹینکر مافیا سے اپنی جیب کی استطاعت کے مطابق ایک نمبر پانی خریدیں یا دو نمبر ،یہاں پانی کا ٹینکرآج بھی ساڑھے سات ہزار روپے میں فروخت ہوتا ہے جویہاں کے لوگوں کا آمدنی کا بڑا حصہ لے جاتا ہے ۔ 2018کے عام انتخابات میں جب تحریک انصاف نے کراچی کی متمول آبادی سے فیصل واؤڈا کو یہاں انتخابات لڑنے بھیجا تو پانی ہی فیصل واؤڈاکا انتخابی نعرہ تھا،فیصل واؤڈا نے سعید آباد میں اپنا انتخابی ڈیرہ بنایا اوروہیں ڈیرہ بھی ڈال لیا ان دنوں فیصل واؤڈا کا دل بلدیہ ٹاؤن والوں کی محبت سے لبا لب بھرا ہوا تھا،وہ اسی کیمپ آفس میں سوتے جاگتے تھے تب فیصل واوڈا گلی گلی سبز باغ لگارہے تھے اورتحریک انصاف کے بلے سے بلدیہ ٹاؤن کے سارے مسائل باؤنڈری وال کے باہر پھینکنے کے دعوے کرتے پھر رہے تھے، ان کے مد مقابل مسلم لیگ ن کے شہباز شریف تھے ،انہیں ایڈوانٹیج تھا کہ یہاں سے مسلم لیگ کا امیدوار دو بار مسلسل جیت چکا تھا یہ حلقہ کبھی این اے 184کہلاتا تھا تب سے اب تک بلدیہ ٹاؤن والے مسلم لیگ،پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کے امیداواروں کو ایوان زیریں میںپہنچاتے رہے لیکن ایک صاف ستھری زندگی ان کی پہنچ سے دور رہی،بلدیہ ٹاؤن والوں نے آخری تجربہ شہباز شریف کے مقابلے میں فیصل واؤڈا کو منتخب کرکے کیا، اگرچہ اس اپ سیٹ پر ابھی تک تجزیہ نگارسوالات اٹھاتے ہیں لیکن بہرحال فیصل واؤڈا شہباز شریف کو723ووٹوں سے پچھاڑ کر اسلام آباد جاپہنچے او ر کپتان کی کابینہ میں آبی وسائل کے وزیر بھی ہوگئے لیکن اس وزیر باتدبیر نے پیچھے مڑ کر بلدیہ ٹاؤن کی طرف نہیں دیکھا، ان کے لگائے گئے سبز باغ سوکھ گئے اور لوگوں میں تحریک انصاف کے خلاف غصہ بھرتا چلا گیا، لوگ تحریک انصاف والوں سے پوچھتے پھرتے تھے کہ پانی کب آئے گا؟ سڑکیں کب بنیں گی ؟ وہ وعدے کب پورے ہوں گے ۔۔۔یہ سوال کپتان کے چاہنے والوں کو بغلیں جھانکنے پر مجبور کر دیتا ،بلدیہ ٹاؤن کے لوگ فیصل واؤڈاکے اس رویئے کو بے وفائی سے تعبیر کرتے تھے۔ 29اپریل کے ضمنی انتخاب میں انہیں موقع ملا اور انہوں نے پی ٹی آئی کے امیدوار کو بری طرح مسترد کر دیا، وہ جماعت جو ڈھائی برس قبل پہلے نمبر پر تھی وہ آج پانچویں نمبر پر محض 8922ووٹ لے سکی بلدیہ ٹاؤن والوں نے اس سے برا سلوک ایم کیو ایم کے ساتھ کیا، یہاں کبھی ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا لیکن اس بار ایم کیو ایم کی بولتی بھی بند ہو گئی وہ کسی شمار میں ہی نہیں رہی۔ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف نے پھربھی مقابلہ کیا تھا اس کے امیدوار نے لیگی امیدوار نوشین افتخار کے 1,10075 ووٹوں کے مقابلے میں 93,433ووٹ لئے تھے کہا جا سکتا تھا کہ مقابلہ دل ناتواں نے خوب کیا لیکن یہاں تو پی ٹی آئی کسی دوڑ میں ہی دکھائی نہ دی پانی ،بجلی ،سڑکوں اور بنیادی انسانی ضروریات کے حوالے سے تحریک انصاف کہہ سکتی ہے کہ یہ کام بلدیاتی اور صوبائی سطح کے ہیں، وہ ملبہ پیپلز پارٹی پر ڈال سکتی تھی اور تحریک انصاف کی حلقے میں دستیاب قیادت نے ایسا ہی کیا لیکن فیصل واؤڈا نے جو خواب دکھائے تھے، وہ ہی گلے کی ہڈی بن گئے، پھر سب سے عجیب بات مفتاح اسماعیل جیسے سینئر اور متمول سیاستدان کے مقابلے میں غیر معروف امجد آفریدی کو میدان میں اتارنا بھی تھا ،امجد آفریدی کو اپنی انتخابی مہم کے لئے تحریک انصاف کے کسی بڑے سے وقت بھی نہیں مل سکا ،انکی روکھی پھیکی مہم ہی سے اندازہ ہو چلا تھا کہ کیا ہونے والا ہے اور یہ بات تحریک انصاف کو بھی علم تھی، حال یہ تھا کہ پی ٹی آئی والوںنے شامیانے ،کرسی والوں کو ادائیگیاں کر دیں لیکن انہیں کیمپ میں آنے کے لئے کارکن نہیں دستیاب ہوئے،تحریک انصاف کراچی کے رہنما خرم شیرزمان کا لیک ہونے والا آڈیو ٹیپ بھی اسی بات کا ثبوت ہے، جس میں وہ کارکنوں سے کہہ رہے ہیں کہ کم ازکم کیمپ تو لگالو جا کر بیٹھ تو جاؤ۔ این اے 249کانتیجہ تحریک انصاف کے لئے نوشتہ ء دیوار ہی ہے ،کپتان اور ان کے خیرخواہوں کو اندازہ ہوجانا چاہئے کہ حکومتی کارکردگی نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے کپتان اور ان کے بہی خواہوں نے کسی نہ کسی طرح پی ڈی ایم سے تو نمٹ لیا اپوزیشن کی تقسیم نے عمران خان کے لبوں پر آسودہ مسکان تو دے دی لیکن وہ اپنی اصل اپوزیشن کا سامنا نہیں کرپارہے، مہنگائی بے روزگاری اسی شدت سے سامنے کھڑی ہے اور اس پر مستزاد کورونا کی وبا، کپتان کے لئے این اے 249کانتیجہ کہتی ہے تجھے خلق خدا غائبانہ کیا کے سوا کیا ہوسکتا ہے کیا وہ سن رہے ہیں!