امریکہ9/11کے دن بدل گیا تھا اور ساری دنیا نے دیکھا کہ کیا کیا ہوا۔ لاکھوں لوگ جنگوں میں مارے گئے اور آج تک لوگ بھگت رہے ہیں۔ کورونا نے پچھلے 6سے 8ہفتوں میں ساری دنیا کو بدل دیا ہے۔ اب وہ پرانی دنیا اور اس کے طور طریقے دوبارہ شاید مشکل ہی سے نظر آئیں۔ غالب نے کہا تھا ’’حیران ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘ ایک لسٹ بنانا شروع کی تو خود حیران رہ گیا۔ جو کام لوگ برسوں سے کرنے کی کوشش کر رہے تھے وہ اچانک خود بخود ہی ہو گئے۔ شاید ہر ایک خوش ہو گا‘ ہر طرح کے لوگ مذہبی، غیر مذہبی، دائیں بازو ،بائیں بازو ،دہریے اور آزاد خیال ہر جنس، ملک اور رنگ و نسل کے لوگ۔ مثلاً کون سوچ سکتا تھا کہ خانہ کعبہ، روضہ رسولؐ، حج اور عمرہ سرکاری طور پر بند ہو جائیں گے۔ یا بے شمار ملکوں کی حکومتیں مسجدیں اور چرچ عبادات کے لئے بند کر دیں گی یا تبلیغی جماعت کے لوگ گرفتار کر لئے جائیں گے اور کئی ملکوں میں چرچ میں عبادت کروانے پر پادری جیل جائیں گے ۔دوسری طرف دینی حلقے خوش ہونگے کہ ساری دنیا اب چہرہ چھپانے اور پردہ کرنے پر مجبور ہو گئی ہے یا دنیا بھر کے عیاشیوں کے اڈے ہوٹل ‘بار ‘شراب خانے Titanicسے بھی بڑے ہزاروں لوگوں کی عیاشی کے بحری جہاز خالی کھڑے ہیں اور کمپنیاں دیوالیہ ہو رہی ہیں۔ کئی آزاد منش لوگ خوش ہونگے کہ تمام حاملہ خواتین کو جیلوں سے برطانیہ میں رہا کیا جا رہا ہے۔ جنگ کے خلاف لوگ بڑے پراطمینان ہونگے کہ جہاز میزائل اور ٹینک بنانے والی فیکٹریاں اب ہسپتال کا سامان بنا رہی ہیں یا امریکہ کا سب سے خطرناک ایٹمی بحری جہاز جس پر 4000لوگ ہر وقت جنگ کے لئے تیار رہتے تھے اب خود ایک موت کا کنواں بن چکا ہے۔ جہاں وہ لنگرانداز ہے وہاں کورونا کے 100مریض بھی ہسپتال کی سہولیات نہیں لے سکتے، ایک خوفناک صورتحال ہے۔ عام لوگوں کی زندگیاںبھی بدل گئیں اور کیا قیامت ہے کہ بچے اپنے والدین اور بزرگوں سے نہ مل سکتے ہیں نہ گلے لگا سکتے ہیں اور اگر کوئی کورونا کا شکار ہو جائے تو نہ یہ اس کے کفن دفن میں شریک ہو سکتے ہیں۔ ایک نفسا نفسی کا علم ہے اور سب حیران اور پریشان۔ دنیا بھر کے سیاستدان اور حکومتیں آپس میں لڑ رہے ہیں اور ساری دنیا کی سیاست صرف ایک نقطے پر آ کر رک گئی ہے کہ کیا حکومت نے کورونا کو روکنے کی صحیح کوشش کی یا ناکام۔ بڑے بڑے اور امیر ترین لوگ اور ملک بے بس ہیں اور لیڈر لوگوں کو قیامت کے لئے تیار کر رہے ہیں جو ایک مہینہ پہلے کورونا کا مذاق اڑا رہے تھے اب ان کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں اور ہزاروں لوگ مر رہے ہیں اور کوئی کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ سوائے دعا اور امید کے۔ امریکہ کے صدر اب روز کہہ رہے ہیں کہ کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجودکم از کم دو لاکھ 40ہزار لوگ صرف امریکہ میں ہلاک ہو سکتے ہیں اور وہ بھی اگر سارے کام بالکل صحیح طور پر کئے گئے، ورنہ تعداد 16سے 22لاکھ تک جا سکتی ہے۔کل تک امریکہ میں مرنیوالوں کی تعداد پچھلی کئی جنگوں سے بھی بڑھ گئی۔معیشت اور کاروبار کا حال برا ہے۔ کھربوں ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے ۔سارے جوئے خانے اور کھیل کے میدان ہسپتالوں میں بدل چکے اور امیر ترین ملکوں کا وہ برا حال ہے کہ جوتیوں میں ڈال بانٹی جا رہی ہے۔ اربوں ڈالر کو بچانے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ تو وہ ملک جہاں اربوں ڈالر تو نہیں ہیں مگر کروڑہا لوگ غریبی اور ناداری کی وجہ سے کورونا سے ڈر کر آئی ہوئی قیامت کے انتظار میں ہیں۔صرف دعائوں کے سہارے زندہ ہیں مگر دعا کے ساتھ دوا بھی چاہیے جو ہے نہیں، تو وہاں کیا پہاڑ ٹوٹیں گے۔ کچھ اندازہ ہو رہا ہے بھارت کی حکومت نے اپنی سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ اسے اجازت دی جائے کہ کورونا کی تمام خبروں پر سنسر شپ لگا دے، اپنا بھانڈہ سڑک پر پھوڑ دیا ہے ۔ابھی تو وہاں لوگ لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں شہروں سے گائوں بھاگ رہے ہیں اور ظاہر ہے کورونا بھی ہر ہر گائوں میں پھیلے گا تو چند دنوں میں خبریں کچھ اچھا نہیں آئینگی۔ جب امریکہ میں ہزاروں ہسپتال اور ڈاکٹروں کی موجودگی میں انداز ہ ہے کہ 2سے ڈھائی لاکھ لوگ مریں گے تو بھارت میں جہاں آبادی امریکہ سے چار گنا زیادہ ہے سوچ لیں کیا ہو گا۔ پاکستان میں بھی حالات خراب ہوں گے کہ لوگ اپنی حکومت کی بات کم ہی سنتے ہیں اور سیاست ہر موڑ پر اور بے ایمانی ہر کونے پر اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ لوگ ملنا جلنا بند نہیں کر رہے اور کورونا کا علاج ابھی ہے کہیں تو صرف اللہ سے ہی امید ہے۔ اگر رحم ہوا تو شاید ابھی بچت ہو جائے مگر امریکہ میں ڈاکٹروں نے ابھی سے اس خطرے کا بھی اعلان کر دیا ہے کہ گرمی کے موسم میں خزاں میں ایک دوسری بڑی لہر آئے گی اور پھر بھی کوئی علاج نہیں ہو گا۔ تو ابھی ہم ایک دریا کو پار کرنے کی تیاری میں پھنسے ہیں اور لوگ اس کے پار دوسرے دریا کی کہانی بھی سنا رہے ہیں۔ تو یوں لگتا ہے کہ یہ کورونا صاحب ابھی آ رہے ہیں‘ آ گئے ہیں اور جانے والے نہیں۔ ہر ایک اپنی زندگی اور رہنے سہنے کے طریقے بدلنے پر مجبور ہوا اگر پاکستان نے حالات اچھی طرح سنبھالے تو شاید نقصان کم ہو لیکن آثار برے ہیں کہ ابھی بڑے پیمانے پر ٹیسٹ بھی نہیں ہو رہے اور پوری طرح شہر بند بھی نہیں ہو سکے۔ کہیں لاک ڈائون ہے اور کہیں کرفیو کا مطالبہ۔ سندھ میں جمعے کو سارے شہر 12سے 3یا چار بجے تک بند ہونگے تاکہ جمعہ کی نمازیں نہ ہو سکیں۔ غریبوں کے لئے اعلانات بہت ہیں اور انتظامات بہت مشکل، وزیر اعظم کی ٹائیگر فورس بن رہی ہے مگر سیاستدانوں نے پہلے ہی کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ سیاست ہو رہی ہے اور کرپشن کھل کر ہو گی۔ اگر آج کل ہمارے بلدیاتی ادارے کام کر رہے ہوتے اور ہر چھوٹے بڑے شہر اور گائوں میں اگر ناظم اور کونسلر موجود ہوتے تو یہ کام کافی آسان ہوتا مگر ایسا ہے نہیں اور بڑے بڑے چور اور ڈاکو جو پکڑے جا چکے ہیں ۔ حکومت سنجید ہ ہے اور اپنی مشینری کو استعمال کر کے اس کورونا ٹائیگرز کو اگر استعمال کر سکی تو فائد ہو گا مگر کیا دوسرے صوبے جہاں پی ٹی آئی کی حکومت نہیں ہے وہاں کے لوگ اور لیڈر اس میں مدد کریں گے یا صرف سیاست ہی ہو گی۔یہ سارے بڑے بڑے سوال ہیں مگر اصل سوال وہی ہے کہ ملک میں کورونا سے کتنا نقصان ہو گا اور کیا جو اقدامات اب کئے جا رہے ہیں وہ کامیاب ہونگے یا صرف ہوا میں تیر اندازی کی جا رہی ہے۔ یہ وقت سیاست کا نہیں اور ہر ایک لیڈر اور تجزیہ کار اس ہی لائن سے اپنی بات شروع کرتا ہے اور چند سکینڈ میں ہی بدبودار سیاسی بیانات اور الزامات اور چوروں کو بچانے کی کہانیاں سنانے لگتا ہے۔ لوگ کسی کو اچھا کام کرتے دیکھ نہیں سکتے اور یہ بیماری صرف پاکستان میں نہیں ہے بلکہ ہر ملک کا یہی حال ہے۔خود امریکہ میں صدر ٹرمپ سے لے کر ساری ریاستوں کے گورنر اور میئر اسی طرح کے بیانات دے رہے ہیں کیونکہ کسی کو معلوم نہیں کہ اس وبا سے کس طرح نمٹنا ہے۔ لوگ چین اور کوریا کی مثال دیتے ہیں مگر وہاں کی حکومتیں اپنے احکامات پر عمل کروانے کی طاقت رکھتی ہیں اور کوئی سیاست نہیں کر سکتا۔ خود عمران خان بارہا کہہ چکے کہ اگر ان کے پاس چین جیسے اختیارات ہوتے تو وہ بہت کچھ کر چکے ہوتے۔پاکستان کے پاس ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے فوج کا استعمال۔ اگر حکومت اور سیاستدان مل کر اس قیامت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو پھر آخر میں تگڑا ڈنڈا ہے درکار ہو گا اور وہ ڈنڈا صرف فوج کے پاس ہے۔ تمام لیڈروں، پارٹیوں اور میڈیا والوں کو بیٹھ کر یہ فیصلہ جلد کرنا ہو گا کہ آپس کی لڑائی ضروری ہے؟ عدالتوں کی مداخلت ضروری ہے یا ایک فیصلہ کر کے اس کو ملک بھر میں نافذ کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اگر لاکھوں لوگوں کوکورونا سے مرنے سے بچانا ہے تو یہ ملکی سطح پر فیصلہ آج ہی ہو جانا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ سب یہ کہتے رہ جائیں کہ بس بہت دیر کر دیتا ہوں میں۔‘‘