ایک نئی نویلی منتخب حکومت کو عوام کی نظروں سے گرانے اور اسے غیرمقبول بنانے کے لیے جو کچھ کیا جا سکتا ہے، وہ سب ہورہا ہے۔ کبھی ڈالر کی قیمت بڑھا کر اور کبھی کسی اور طریقے سے۔ بلاشبہ نئی حکومت نا تجربہ کار ہاتھوں میں ہے لیکن اس حکومت کے ارادے نیک ہیں اور یہ ملک کو بدلنے کا عزم لے کر آئی ہے۔ اس نے پرانے اور فرسودہ نظام کی جگہ ایک نیا عادلانہ اور عوام دوست نظام لانے کی نیت کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کیا ہے۔ اربوں روپوں سے تعمیر کئے ہوئے پرائم منسٹر ہائوس کو یونیورسٹی بنانے، گورنر ہائوسز کو عوام کے لیے کھول دینے اور سینکڑوں گاڑیاں جو وزیراعظم کے زیراستعمال لانے کے لیے اکٹھی کی گئی تھیں، انہیں نیلام کرنے کے اقدامات کرکے اس حکومت نے یقین دلایا ہے کہ وہ اپنے ارادوں میں پرعزم اور نیک نیت ہے۔ لہٰذا اب تبدیلی کے نعرے کا مذاق اڑانا اور اسے بطور تضحیک و طنز کا استعمال کرنا ملک دوستی نہیں ہے۔ ہمیں ہمدردی، خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ حکومتی اقدامات کا ساتھ دینا چاہیے۔ خود حکومتی ٹیم کے وزراء بھی اس کردار اور رویے کا مظاہرہ نہیں کرپاتے جس کا ان سے تقاضا کیا جاتا ہے۔ عوام نے اپنے لیڈر عمران خان پر تبدیلی کے لیے اعتماد کیا ہے جب تک وہ اپنے لیڈر سے مایوس نہیں ہوتے، اس بات کا امکان روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تبدیلی ضرور آئے گی۔ چاہے سست رفتاری سے اور بتدر یج ہی کیوں نہ آئے۔ عوام کے پاس اس کے سوا کوئی اور آپشن ہے بھی نہیں۔ رہی بات یہ کہ وزیراعظم کے سامنے ریاست مدینہ کا ماڈل ہے اور وہ ملک عزیز کو مدینہ منورہ جیسی ریاست بنانا چاہتے ہیں اور بقول مولانا طارق جمیل وہ ملک کے پہلے حکمران ہیں جنہوں نے اس ماڈل کو اپنی منزل قرار دیا ہے اور عمران خان وہ پہلے حکمران ہیں جن کی خاتون اول باپردہ ہیں۔ اس معاملے میں ایک ذرا احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ریاست مدینہ اور میثاق مدینہ بے شک ہمارے لیے ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس مبارک ریاست کی باگ ڈور آنحضرت ﷺ کے مقدس ہاتھوں میں تھی اور آپؐ کے دست و بازو صحابہ کرامؓ تھے اور ان کی رہنمائی کے لیے وحی اترتی تھی یعنی خداوند تعالیٰ براہ راست اس ریاست کی رہنمائی فرما رہے تھے۔ یہ حیثیت کسی کو بھی حاصل نہیں۔ امتداد زمانہ سے جو اخلاقی، مذہبی اور روحانی زوال آیا ہے اگر اس کی تھوڑی بہت اصلاح بھی موجودہ حکومت کے ہاتھوں ہو جائے تو یہ سمجھا جائے گا کہ حکومت نے اپنے حصے کا کام کرلیا۔ دعویٰ نہ کیا جائے اس لیے کہ ہم دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں ہیں ہی نہیں۔ جو کام اللہ تعالیٰ نے نبیؐ سے لے لیا، ویسا کام کرنے کا کوئی دعویٰ کرسکتا ہے؟ جنرل ضیاء پر سب سے بڑا الزام ہی یہی ہے کہ انہوں نے اپنے اقدامات اور ان کی ناکامی سے اسلامی انقلاب سے جو عوام کا رومانس وابستہ تھا، اس کا خاتمہ کردیا۔ وزیراعظم عمران خان سے بھی ہماری استدعا یہی ہو گی کہ اگر وہ اپنے لگن میں سچے ہیں تو معاشرے کی تعمیر نو کی منصوبہ بندی کریں لیکن ایسے دعوے نہ کریں جس کو روبہ عمل لانے کی تاب و طاقت ہی نہ ہو۔ ہمارا عقیدہ یہی ہونا چاہیے کہ جیسی ریاست مدینہ تھی، ویسی ریاست اب کبھی وجود میں نہیں آ سکتی کہ اس ریاست مدینہ کی قیادت حضور ختمی مرتبت ؐ ؐ کے مقدس ہاتھوں میں تھی اور حضور نبی کریمؐ کو بذریعہ وحی رہنمائی ملتی تھی۔ چونکہ اب ایسی کسی صورت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ نہ ویسی قیادت اور نہ ویسی ہدایت میسر ہے اور نہ اس کا کوئی امکان ہی ہے، لہٰذا اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ ہم ایک ایسا عادلانہ نظام قائم کرنا چاہتے ہیں جس کی تعلیم و تلقین ہمارا دین کرتا ہے۔ عاجزی بندگی کی معراج ہے اور موجودہ سیاست عاجزی و انکساری کی نفی کرتی ہے۔ اس سیاست میں نعرے اور دعوے تو بہت ہیں لیکن عمل صالح اور فکر سلیم کا فقدان ہے۔ اس لیے بہتر تو یہی ہو گا کہ نعروں اور دعوئوں کو خیرباد کہہ کر عاجزی و بندگی کے احساس سے معمور ہو کے اپنا کام کیا جائے۔ ویسے بھی انگریزی محاورے کے مطابق عمل گفتگو سے زیادہ بلند آواز ہوتا ہے۔ آپ کے کام اور اس کے نتائج خود آپ کو منوا لیں گے۔ اس کے لیے آپ کو اشتہار بانٹنے کی ضرورت نہیں۔ آخر ریاست مدینہ ایسے لیڈروں کے ذریعے کیسے وجود میں آ سکتی ہے جو اپنے مخالفین اور ناقدین کی بابت خیر خواہانہ جذبات نہیں رکھتے۔ جن کا رویہ تھانیداروں جیسا ہے۔ جو سیاسی اختلاف کے دبائو میں آ کر ادب و آداب تک بھول جاتے ہیں۔ جب آپ خود اختلاف فکر کو دوسروں کی کردار کشی اور الزام و بہتان تراشی کا ذریعہ بنالیں تو آپ کے لب و لہجے سے دوسروں کے اندر آپ کے لیے خیرخواہی اور احترام کے جذبات بھلا کیسے پیدا ہو سکتے ہیں؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ریاست مدینہ میں جو سب سے مہتمم بالشان کام ہوا ہے وہ تزکیہ نفس کا ہوا ہے۔ نبی ﷺ نے صحابہ کرامؓ کے نفوس کا تزکیہ کیا ہے۔ جب تک تزکیہ نفس نہ ہو یعنی قلوب کو گندی اور ناپاک خواہشات سے پاک نہ کیا جائے اور حرص و ہوس پر قابو پا کر ایک شریف النفس انسان نہ بنایا جائے تو معاشرے میں خیر و بھلائی کے رویے کیسے وجود پذیر ہوسکتے ہیں اور یہ بنیادی کام حکومتوں کے کرنے کا نہیں، یہ فریضہ تو علماء اور صوفیہ کا ہے۔ کیا ان طبقات کی جانب سے یہ فرائض ادا کئے جا رہے ہیں؟ ایک اسلامی ریاست میں تمام اجزا مل جل کر ایک ہی مقصد کی آبیاری کرتے ہیں جو کام خیرخواہی کے حکومت کر رہی ہوتی ہے وہی کام اساتذہ، والدین اور مبلغین نئی نسل اور عوام کی اخلاقی تربیت کے ذریعے کر رہے ہوتے ہیں۔ اصل مسئلہ آج بھی ہمارا اخلاقی زوال کا ہے۔ سیاسی اور معاشی زوال دراصل اخلاقی زوال ہی کے نتائج ہیں۔ قوم اخلاقی طور پر زوال آمادہ نہ ہوتی توسیاسی اور معاشی زوال کا بھی سامنا نہ ہوتا۔ یہ بات سمجھنے کی ہے۔ لہٰذا حکومت اور اس کے عمال کوبھی اپنی اخلاقی اصلاح اور سدھار کی فکر کرنی چاہیے۔ ہمیں یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ ریاست مدینہ کے نام لیوائوں کے بیانات میں وہی لب و لہجہ جھلکتا ہے جو عام سیاست دانوں کا لب و لہجہ ہوتا ہے۔ جب آپ کسی طرح اپنے مخالفین سے مختلف نہیں تو پھر اپنا آئیڈیل انہیں بنانے کا آپ کو کیا حق ہے جن کی تعلیمات ہی میں ایسے لب و لہجہ کو اختیار کرنے کی ممانعت ہے۔ یہ باتیں اس امید کے ساتھ لکھی جا رہی ہیں کہ وزیراعظم اور اس کے رفقا اپنے معاملات اور انداز کلام کی اصلاح کریں گے۔ کیونکہ تبدیلی اس سطح پہ نہ آئی تو کسی درجے پہ نہ آئے گی۔ عوام کی حالت کو بدلنے کے دعوے لیے اور بھی کئی لیڈران کرام طلوع ہو کر اور ناکام ہو کر خاک میں مل چکے ہیں۔ ان کی ناکامی اور رسوائی بھی پیش نظر رہنی چاہیے۔ خداوند تعالیٰ مواقع دینے میں کوئی کمی نہیں کرتا اور مواقع ضائع کرنے والوں کوپکڑنے میں بھی دیر نہیں کی جاتی۔ اس لیے خوف خدا کے ساتھ موجودہ حکومت اپنے کام کرے گی تو کوئی وجہ نہیں کہ اسے ناکامی ہو۔ استدعا فقط یہی ہے کہ دعوئوں اور نعروں کے بجائے جذبہ للہیت کے ساتھ اپنا کام کیا جائے اور نتائج کوخداوند تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے۔