’’محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی‘‘ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ کراچی جیسا عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر گردانا جاتا تھا، اب کچرا کچرا کراچی کیسے بن گیا۔ اتفاق سے میں مصطفی کمال کی زبانی کہانی سنی تو سمجھ میں آیا کہ ان گند پسند لوگوں کے عزائم کیا ہیں۔ اتفاق سے کچھ عرصہ قبل میں عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے قائم جرگہ میں شریک ہوا کہ محترمہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے بلایا تھا تو وہاں میں نے دیکھا کہ سچ مچ سڑکوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا تا ہم ایم کیو ایم کے سرکردہ لوگ بڑے خوش و خرم نظر آئے۔ سرِدست یہ ذکر کرتا چلوں کہ عافیہ صدیقی کا ذکر آتا ہے تو دل سے ایک دلفگار آہ نکلتی ہے کہ کس بے حسی اور سنگ دلی سے ہم نے اسے امریکہ کے حوالے کر دیا۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ شاید اسی کی سزا کراچی کو ملی کہ میں نے بہت سے لبرل لوگوں کو اس پر اوٹ پٹانگ تبصرے کرتے دیکھا۔ یقیناً ہم اس ضمن میں اتنے ہی بے بس ہیں جتنے عمران خان اور اس سے پہلے نواز شریف تھے۔ ’’جی چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں؟‘‘ دیکھیے اب تو طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کی کامیابی کا انتظار ہے کہ اس میں وہ کوئی ایسی شک رکھ دیں۔ بات ہو رہی تھی کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی اور جگہ جگہ پڑے ہوئے کچرے کی۔ آپ اس کو بھی چھوڑیے کہ جب میں سمندر کے کنارے ایک کتاب میلہ میں گیا تو وہاں دوستوں نے بتایا کہ حکومت کی غفلت کے باعث سمندر بھی جگہ جگہ گدلا ہو چکا ہے۔ جہازوں سے بہہ جانے والا آئل اس میں شامل ہو گیا ہے۔ آبی حیات محفوظ نہیں رہی۔ سمندری جنگل جو غالباً مینگروز قسم کے پودوں پر مشتمل تھا اور جہاں کچھ سمندری جانیں پناہ لیتی تھیں۔ بری طرح آلودہ ہو چکا ہے۔ واقعتاً کراچی کو کسی کی نظر لگ گئی اور اس کی دولت کسی اور کی نذر ہوتی رہی۔ مصطفی کمال نے ٹھیک کہا کہ وہاں کے کرتا دھرتا یہاں کا کچرا صاف کرنا ہی نہیں چاہتے۔ اس سے لوگوں کے پاس احتجاج کرنے کے لیے کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس کچرے کو صاف کرنے کا جو بجٹ ہے وہ انہی بد عنوان لوگوں کی جیبوں میں جاتا ہے۔ مصطفی کمال کی باتوں سے سچ مچ سچائی جھلکتی ہے۔ ویسے بھی اس کی ہسٹری شیٹ بہت اعلیٰ ہے کہ جب کراچی اس کے سپرد تھا تو کراچی نے بہت ترقی کی تھی۔ سڑکیں بنیں اور پل بنے۔ اس کو اعزاز سے بھی نوازا گیا۔ واقعتاً یہ شخص ایم کیو ایم کا اچھا چہرہ تھا اور یوں فیس سیونگ ہو جاتی تھی۔ اس کی کارکردگی کو دشمن بھی مانتے تھے کہ وہ ایک محنتی اور مخلص کارکن تھا اور وہ کراچی کو واپس اس کی حالت میں لانے کا عزم رکھتا تھا۔ اب کیا ہوا کہ اسے کراچی کے کچرے کو صاف کرنے کا ٹاسک دیا گیا اور ان کا خیال تھا کہ صفائی وغیرہ کا کام شاید وہ قبول نہ کرے کہ وہ سرزمین پارٹی کا سربراہ ہے۔ اس پر الزام تھا کہ اسے ایم کیو ایم کو کائونٹر کرنے کے لیے سلیکٹ کیا گیا مگر اس کی سلیکشن کے پیچھے شاید اس کا محب وطن ہونا اور سوشل کام تھا جس سے اس نے ایک مرتبہ سب کو حیران کر دیا تھا۔ یہ باتیں نقطۂ معترضہ ہیں۔ کم از کم میں تو اس کا ہمیشہ مداح رہا کہ اس میں کچھ کر گزرنے کی ایک ولولہ انگیز خواہش رہی۔ آپ ذرا موازنہ میں دوسری طرف دیکھیں کہ ایم کیو ایم کے کریڈٹ پر کیا بات رہی۔ یہی کہ بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور بہت کچھ۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب میں کراچی گیا ہوا تھا پتہ چلا کہ ایک مارکیٹ میں پیغام آیا کہ قائد نے تین لاکھ کے چندے کا مطالبہ کیا ہے۔ شام تک پیسے جمع ہو گئے۔ کسی کی کیا جرأت کہ انکار کرے۔ قربانی کی کھالیں تک گنی جاتی تھیں اور جو حکم عدولی کرے اس کے دروازے پر کراس کا نشان لگ جاتا تھا۔ کراچی کے وسائل بے دریغ استعمال کیے گئے اور تو اور وہاں کے باغ بغیچے بھی چائنہ کٹنگ میں آ گئے۔ مصطفی کمال سے پوچھا گیا کہ ان سے کراچی کے کچرے کو صاف کرنے کا چارج 24گھنٹے کے اندر اندر واپس کیوں لے لیا گیا تو اس نے ببانگ دہل بتایا کہ یہ لوگ بنیادی طور پر بدعنوان ہیں اور انہی چیزوں سے کھاتے ہیں۔ وہ مصطفی کمال کو کچرا صاف کرنے کا چارج دے کر ڈر گئے کہ کہیں یہ سچ مچ کچرا صاف نہ کروا دے اور لوگ اس کے گرویدہ نہ ہو جائیں۔ مصطفی کمال نے بتایا کہ چارج ملتے ہی میں نے اس مقصد کے لیے کمر کس لی اور متعلقہ لوگوں کو دفتر میں طلب کرنا شروع کیا۔ خاص طور پر فائنانس کے لوگوں کو جن سے کام کرنے والے تنخواہیں تو لیتے تھے مگر کام نہیں کرتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ مفت کی تنخواہیں لینے کو تنخواہ کا کچھ فیصد ہی ملتا تھاباقی میئر اور اس کے کارندوں کی جیب میں جاتا تھا۔ تبھی تو میں نے کہا تھا کہ کراچی کا کچرا صاف کروانا ان کے بس میں نہیں۔ پھر انہوں نے سوچا ہو گا کہ اگر مصطفی کمال یہ کام گزرا تو ان کا بیان ان کے گلے پڑ جائے گا۔ کراچی تو سمندر جیسا کشادہ شہر تھا۔ میں تو اسے حسنِ بے شمار لکھتا تھا کہ کچھ خواب ہمارے بھی اس سے وابستہ تھے۔ پھر یہاں روز کی بنیاد پر درجن بھر لوگ مرنے لگے۔ تب ہمیں کہنا پڑا ’’آ کراچی میں ترا نوحہ لکھوں‘‘۔ پھر یہ کراچی کرچی کرچی ہوا اور اسے ابھی تک کوئی میسر نہیں آیا کہ اس کی کرچی کرچی چن کر اس کی مکمل تصویر بنا سکے۔ بہت سے علاقوں میں تو پانی کا مسئلہ ہے۔ لب پہ اوڑھے بس پیاس رہتا ہوں کیا سمندر کے پاس رہتا ہوں حل نکالا ہے یہ اداسی کا اب مکمل اداس رہتا ہوں لیجیے میں نے ایسے ہی دو شعر لکھ دیئے کہ اب اس شہر کی حالت زار دیکھ کر اداسی چھا جاتی ہے اور زیادہ تکلیف دہ بات یہ کہ اس کے کرتا دھرتا اس کی صفائی کروانے کے لیے بھی تیار نہیں۔ مصطفی کمال کی بات ہمیں اپیل کرتی ہے کہ آخر اسے ایک مشکل چارج دے کر یہ حکم 24گھنٹے میں واپس کیوں لیا گیا۔ آپ مصطفی کمال کی کارکردگی سے کیوں ڈر گئے۔ نیک نامی اس میں آپ کی بھی تھی۔ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ کچرا پھینکنے والوں کا محاسبہ کر لیا جائے۔ بہر حال وسیم اختر ہی کو سوچنا ہے کہ حرف ان پر آ رہا ہے کہ وہ اپنے گھر کراچی کو صاف کرنے میں مخلص نہیں۔ یہ صفائیاں آخر ان کے اختیار میں کیوں نہیں۔ جون ایلیا یاد آ گئے: کون اِس گھر کی دیکھ بھال کرے روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے جو بھی ہے ہم نے لاہور میں بیٹھ کر کراچی کا حال لکھ دیا کہ لاہور پاکستان کا دل ہے تو کراچی دماغ۔ کراچی والوں کو سوچنا ہو گا کہ آخر اس کا کچرا کیوں صاف نہیں ہو رہا۔ لگتا ہے اوپر کی سطح پر کچھ صفائی ہونا ضروری ہے۔ جو بھی ہے مصطفی کمال نے لوگوں کو اپنی کھری کھری باتوں سے متاثر ضرور کیا ہے۔