زمانۂ طالب علمی سے زمانۂ تدریس تک اور اب جبکہ کراچی یونیورسٹی سے یادِ گزشتہ کا تعلق باقی رہ گیاہے۔ تین وائس چانسلروں کو اپنے منصب پر رہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوتے دیکھنے کی الم نصیبی حصے میں آئی۔ تینوں کی بابت واقفان حال نے یہی بتایا کہ یونیورسٹی کے ناگفتہ بہ حالات ان حضرات کے ذہنی تناؤ اور قلبی و اعصابی دباؤ کا سبب بنے جس سے یہ عارضہ قلب میں مبتلا ہو کر دفعتاً موت سے ہمکنار ہوئے۔ پہلے وائس چانسلر ڈاکٹر محمود حسین تھے جنہوں نے اپنے برادر بزرگ ڈاکٹر ذاکر حسین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جامعہ ملیہ دلی کی طرز پہ جامعہ ملیہ کالج ملیر کی داغ بیل ڈالی۔ جہاں سے اس خاکسار نے انٹرمیڈیٹ کیا اور جامعہ کراچی میں داخل ہوا تو خوش قسمتی سے ڈاکٹر محمود حسین ہی یہاں کے وائس چانسلر تھے۔ نہایت وجیہ، سرخ و سپید چہرہ، دراز قد، شیروانی اور پاجامے میں ملبوس۔ ان کے علمی تجربے کا اندازہ میکاولی کی شہرہ آفاق کتاب ’’پرنس‘‘ کا ترجمہ جسے انہوں نے ’’بادشاہ‘‘ کا عنوان دیا تھا۔ کتاب میں خاصے کی چیز وہ حواشی تھے جس سے کتاب کی معنویت و اہمیت میں بے بہا اضافہ ہو گیا تھا۔ انہوں نے روسو کی Social Contract کا ترجمہ بھی ’’معاہدہ عمرانی‘‘ کے عنوان سے کر رکھا تھا۔ دونوں ترجمے کراچی یونیورسٹی کے شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ کے زیر اہتمام چھپے تھے۔ وہ یونیورسٹی کے اچھے دن تھے۔ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کے زمانے میں تصنیف و تالیف و ترجمہ کا شعبہ قائم ہوا تھا اور نہایت فعال تھا۔ ان کے بعد ڈاکٹر محمود حسین سربراہ ادارہ بنے۔ دونوں تاریخ کے مضمون کے استاد بھی تھے اور اسکالر بھی۔ اب استاد کیلئے اسکالر ہونا ضروری نہیں رہا۔ تب یہ اضافی خوبی نہیں۔ لازمی وصف تھا کہ یونیورسٹی کا استاد ہے تو اسے اسکالر تو ہونا ہی چاہئے۔ دوسرے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر زیدی تھے جو حسین ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ اور کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ میں اپنی تحقیقی سرگرمیوں کی بنا پر سائنس کی دنیا میں شہرت رکھتے تھے اور وائس چانسلر بن کر یونیورسٹی کو علمی اعتبار سے ایک شاندار یونیورسٹی بنانے کا عزم رکھتے تھے۔ مگر فضا اس درجہ سیاسی اور شورش پسندانہ ہو گئی تھی کہ یونیورسٹی اور اس کے معاملات تو کیا سدھرتے۔ وہ بھی حملۂ قلب کا دفعتاً شکار ہوئے اور ہسپتال پہنچتے ہی چٹ پٹ ہو گئے۔ ڈاکٹر محمد اجمل خان تیسرے وائس چانسلر ہیں جو گزشتہ دنوں یونیورسٹی کے پریشان کن اور تکلیف دہ حالات کے ہاتھوں پہلے ذہنی اعصابی دباؤ کا شکار ہوئے، پھر عارضہ قلب میں مبتلا ہوئے اور سرجری سے پہلے ہی ہارٹ اٹیک کے نتیجے میں راہی ملک عدم ہو گئے۔ یہ خاکسار جب لیکچرار ہوا تو اساتذہ یونیورسٹی کے دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم کا شکار تھے۔ ڈاکٹر اجمل بائیں بازو کے اساتذہ کی سیاست کا حصہ تھے اور بہت سرگرم و متحرک تھے۔ میں ان کے گروپ میں شامل تو نہیں تھا لیکن ان سے بہت اچھی ملاقات تھی۔ دو ڈھائی سال قبل ڈاکٹر عطاء الرحمن کی کوششوں سے وہ وائس چانسلر بنائے گئے۔ اس منصب کیلئے ان کی اہلیت کا واحد معیار ان کا اپنے مضمون میں علمی مقام اور تحقیق ہی وہ کارنامے تھے جن کا اعتراف ملک و بیرون ملک کیا جا چکا تھا۔ انتظامی کاموں کا انہیں کوئی تجربہ نہیں تھا۔ حتیٰ کہ وہ اپنے شعبے کے کبھی چیئرمیں بھی نہ رہے تھے۔ چنانچہ وائس چانسلر بنائے جانے پر انہیں جو گوناگوں اور پیچیدہ مسائل ملے، سچی بات یہ ہے کہ انہیں حل کرنا ان کے بس سے باہر ہو گیا۔ ایک طرف مسائل تھے، دوسری طرف انجمن اساتذہ کا دباؤ، بائیکاٹ کے نعرے اور ایمپلائز یونین کے گھیراؤ جلاؤ کا رویہ، طلبہ تنظیمیں اور ان کی گستاخیاں اس پر مستزاد۔ چنانچہ وہی ہوا جو مذکورہ دو وائس چانسلروں کے ساتھ ہو چکا تھا۔ وائس چانسلر بننے کے بعد ان کے آفس ہی میں ان سے میری دو ملاقاتیں مختصر سے وقفے سے ہوئیں لیکن کراچی یونیورسٹی ہی نہیں تمام سرکاری یونیورسٹیوں کو وائس چانسلری کیلئے اچھے استاد، بلند پایہ کسی محقق کی نہیں۔ ایک عمدہ، ایماندار اور باصلاحیت منتظم کی ضرورت ہے جو درد دل بھی رکھتا ہو اور اعلیٰ تعلیم کے معاملات سے اچھی واقفیت بھی ۔ دوسری بات اساتذہ برادری میں اپنے حقوق کا شعور تو وافر مقدار میں موجود ہو، اس میں تو ماشاء اللہ کوئی کمی نہیں۔ کیا کوئی طریقہ ایسا ممکن ہے جس کے ذریعے ان میں اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس بھی پیدا کر دیا جائے تاکہ وہ سیاست سے ہٹ کر بھی کچھ کام لکھنے پڑھنے کا کر لیں۔ آخری بات: حکومت، ہائر ایجوکیشن کمیشن اور صوبائی حکومت سے کہ بدقسمتی سے یہ تینوں ہی کسی نہ کسی طرح سے یونیورسٹیوں کے معاملات میں دخیل ہیں، اور وہ یہ کہ سرکاری یونیورسٹیاں بالعموم متوسط۔ اعلیٰ متوسط اور حصول تعلیم کے خواہش مند نچلے طبقے کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دہی کا ذریعہ ہیں۔ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے مقابلے میں ان کی تعلیم سستی ہے لیکن اسے معیاری بھی ہونا چاہئے۔ بدقسمتی سے طلبہ، اساتذہ اور ملازمین کی سیاست بازی نیز دیگر عوامل نے سرکاری یونیورسٹیوں کو جس طرح انحطاط زدہ اور زوال آمادہ بنا دیا ہے، اس سے یہ خدشہ پیدا ہو چلا ہے کہ عملاً یہ ادارے محض اعلیٰ تعلیم کی اسناد تقسیم کرنے والے ادارے نہ بن کر رہ جائیں۔ لہٰذا ان کی اصلاح اور معاملات کی درستگی کی فکر کرنی چاہئے، جن طبقوں کو یہ ادارے تعلیم دیتے ہیں وہ ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ تخلیقی اذہان تمام شعبوں میں ان ہی طبقوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے سرکاری جامعات کی علمی، تحقیقی اور فکری بربادی میں ملک و قوم کا بڑا نقصان مضمر ہے۔ اگر اصلاح احوال کی فکر فوری نہ کی گئی تو یہ کہنا تو کوئی معقول بات نہ ہو گی کہ اسی طرح وائس چانسلر آئندہ بھی حملۂ قلب کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچتے رہیں گے لیکن اتنا ضرور ہے کہ رفتہ رفتہ ملک تخلیقی اعتبار سے بانجھ ہوتا چلا جائے گا۔ شاید ایسا ہو بھی چکا ہو۔