اللہ معاف کرے، ہم سے بڑا گناہ سرزد ہوا کہ ہم پاکستان کی سول سروس کو کوستے رہے۔ قدرت اللہ شہاب نے کسی گوالے کے کندھے پر رکھ کر ٹھیک بندوق چلائی تھی کہ اردو میں سول سروس کا کوئی مترادف نہیں ہے۔ اس لیے ہم افسران ہی یا نوکر شاہی کہہ کر طعن و تشنیع کرتے رہتے ہیں۔ اسے گورا صاحب کہا اور کیا کچھ نہیں کہا۔ اب جا کر انکشاف ہورہا ہے کہ ہماری سول سروس تیسری دنیا میں بہترین سرول سروس تھی۔ اس کے ساتھ مزید اصرار اس بات پر ہے کہ بیوروکریسی کسی ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ اس کے بغیر نظام سیاست ایک رینگنے والی چھپکلی تو ہوسکتا ہے، اپنے پائوں پر کھڑا ہونے والا کوئی چلتا پھرتاوجود نہیں۔ میں یہ ساری بحث اس لیے چھیڑ رہا ہوں کہ خبر آئی ہے عمران خان نے ہدایت جاری کی ہے کہ 48 گھنٹے میں بلدیاتی نظام کا خاکہ حاضر کیا جائے۔ اللہ کا شکر ہے کہ 48 گھنٹے گزر گئے اور وہ خاکہ سامنے نہیں آیا۔ یہ نہیں کہ میں اس کے خلاف ہوں بلکہ اس لیے کہ یہ کام 48 گھنٹوں میں کرنے کے نہیں ہوتے اور ماشاء اللہ ہر سیاسی جماعت کی طرح تحریک انصاف کی بھی اس پر کوئی پہلے سے تیاری نہیں ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ بعض اوقات بلدیاتی نظام میں بنیادی تبدیلی کے ساتھ سول سروس کا سارا نظام بھی بدلا جاتا ہے، جیسامشرف کے زمانے میں ہوا تھا۔ پھر اس پر عمل نہیں ہو پاتا۔ اس لیے اچھے نتائج نکلنے کے بجائے ایک طرح کا انتشار جنم لیتا ہے۔ بیوروکریسی میں تبدیلی کے ہمارے ہاں دو بڑے تجربے کئے گئے۔ دونوں بڑی نیک نیتی سے بڑے دانا و بینا لوگوں نے کئے۔ دونوں نے بیوروکریسی کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریز نے جو نظام تشکیل دیا تھا وہ امپائر کے تقاضوں کے عین مطابق تھا۔ کوئی حرج نہیں، آخر ہمارا فوجی نظام بھی تو اس حقیقت کوسامنے رکھ کر بنایا گیا تھا تاہم اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امپائر کو اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے جس انتظامیہ کی ضرورت تھی انگریز کے بتائے ہوئے نظام نے اس ضرورت کا کماحقہ حق ادا کیا۔ اب ہمیں کرنا تو یہ تھا کہ اس نظام کی انتظامی صلاحیتوں پر ضرب لگائے بغیر اسے جمہوری عہد کے تقاضوں کے مطابق کرنا تھا۔ ہم نے ایسا نہیں کیا۔ بیوروکریسی کو گالی تو ہم نے پہلے ہی بنا دیا تھا۔ اس کی بھی ایک تاریخ ہے۔ تاہم جب بھٹو نے اس میں کچھ تبدیلیاں کیں، اصلاحات کیں، تو اس نے تو ساری عمارت ہی کو زمین بوس کردیا۔ سول سروس کے امتحانات پاکستان میں بہت وقار رکھتے تھے۔ ہر ذہین طالب علم کا یہ مطمع نظر ہوتا تھا کہ وہ اسے پاس کرے اور ہو سکے تو سی ایس پی افسر بنے۔ اس کا امتحان ہر سال ہوتا، اس کے نتائج بڑی دلچسپی سے دیکھے جاتے۔ بہترین نمبر یا پوزیشن لینے پر بہترین ملازمت ملے گی۔ ضلعی انتظامیہ، سفارت کار، پولیس، آڈٹ اینڈ اکائونٹس، کسٹمز، انکم ٹیکس سے لے کر پوسٹل سروس کے افسر اس طرح درجہ بدرجہ چنے جاتے۔ بھٹو صاحب نے اصلاحات کا اعلان کیا تو اس کے لیے بہترین ماہرین کی خدمات حاصل کیں۔ اس زمانے میں ایک صاحب تھے حسن حبیب جو لاہور میں سول سروس اکیڈمی بلکہ شاید سٹاف کالج کے پرنسپل تھے۔ ان کی انتظامی امور پر اتنی ہی شہرت تھی جتنی آج کل عشرت حسین کی بھی نہ ہوگی۔ حسن حبیب نے دو ذہین نوجوان ماہرین کی مدد سے ایک مسودہ تیار کیا۔ اس میں بڑی بڑی شاندار باتیں تھیں۔ متوازی حرکت، عمودی حرکت، جانے کیا کیا فلسفے تھے، اس میں پہلی بار لٹرل انٹری کا تصور پیش کیا گیا۔ اس وقت سی ایس ایس کا امتحان دینے کی عمر 25 سال ہوتی تھی جیسے فوج میں جانے کی ایک عمر ہے۔ جوان خون کو اپنے ڈھب پر ڈھالا جاتا تھا۔ تربیت کا انتظام کیا جاتا۔ لٹرل انٹری کا مطلب تھا کہ آپ کی عمر زیادہ بھی ہے، آپ کسی شعبے میں غیر معمولی صلاحیتیں رکھتے ہیں تو آپ کو اعلیٰ گریڈ میں بھرتی کیا جاسکتا ہے۔ مقصد یہ کہ ماہرین کو سروس میں شامل کیا جائے۔ نتیجہ مگر یہ نکلا کہ سب سے پہلے اشتہار آیا ڈپٹی سیکرٹری کی چالیس آسامیاں خالی ہیں۔ مطلب یہ کہ کسی خاص شعبے میں نہیں، بس آ جائیے اور سی ایس ایس کے امتحان دینے والوں کے باس بن کر بیٹھ جائیے۔ بھٹو صاحب نے دوسرا سب سے بڑا ظلم یہ کیا کہ ان اعلیٰ ملازمتوں کے سر سے آئین کے تحفظ کا سایہ اٹھا دیا۔ اب انہیں کوئی آئینی تحفظ حاصل نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ سیاست دانوں کے رحم و کرم پر آ گئے۔ اپنی مرضی کے لوگ بھرتی کرو، جس گریڈ میں چاہے بھرتی کرو اور جو پسند نہ آئے اسے جب چاہے نکال دو۔ کیا مجال تھی کسی بیوروکریٹ کی کہ وہ حکم عدولی کرتا۔ ان لوگوں نے بھی جینے کے گُر سیکھ لئے۔ صاحب کو بھی کمائی پر لگایا، خود بھی کمائی پر لگ گئے۔ پہلے آپ کے نمبروں اور پوزیشن کے مطابق آپ کی سروس طے ہو جاتی تھی، سی ایس ایس، فارنس سروس، پولیس وغیرہ وغیرہ۔ اب طے ہوا کہ آپ کسی بھی سروس کو منتخب کرسکتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پہلی بیس سروسیں جو سول سروس کو جاتی تھیں، اب ان پر کسٹمز، انکم ٹیکس کا انتخاب کیا جانے لگا۔ ڈی سی کے عہدے کا ہم نے بعد میں یہ حال کردیا کہ کوئی وہاں جاتا ہی نہ تھا، اس میں اتنی کمائی ہی نہ تھی۔ یہ وہ وقت تھا کہ ہماری آنکھیں کھل جانا چاہیے تھیں۔ ہم نے سب کی تربیت اکٹھی کی اور اس کے بعد وہ اپنے اپنے محکموں کی تربیت کے لیے الگ الگ اکیڈمیوں میں جاتے۔ تربیت کا نظام ہم نے بدل ڈالا۔ تیسرا کام بھٹو صاحب نے اور کیا۔ سب صنعتیں قومیائی گئیں۔ تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ قومیائی نہیں، نوکرشاہی کے سپرد کردی گئیں۔ کسی گریڈ 18 کے ڈپٹی سیکرٹری کو اٹھاتے اور اسے کسی صنعتی پورٹ کا ایم ڈی بنا دیتے۔ آج جو پنجاب میں نجی کمپنیوں کا رونا رویا جا رہا ہے اس کا چسکہ اسی وقت ہماری نوکرشاہی کو پڑ گیا تھا کہ اپنی سروس میں رہنے کے بجائے ڈیپوٹیشن پر ان اداروں میں چلے جاتے جن میں خوب مراعات تھیں۔ گازباں گھر، آگے پیچھے نوکر، اور بہت کچھ، جی ہاں بہت کچھ۔ سول سروس کا ڈھانچہ ایسا بگڑا کہ کبھی سدھر نہ سکا۔ اب اپنی بات پر اصولوں پر ڈٹ جانے والے افسر بہت کراہ گئے۔ چاپلوس ترقی پانے لگے۔ مشرق نے تو سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ نام تو یہ تھا کہ ڈی سی سے اختیارات لے کر ناظم اعلیٰ کو دے دیئے گئے۔ مگر یہ بھی دکھاوا تھا۔ پولیس آزاد ہو گئی۔ ایس پی اب ڈی پی او تھا، وہ ڈی سی او یا ڈی سی کی کمان میں نہ تھا، ناظم اعلیٰ کے ماتحت تھا مگر احکامات اسے اعلیٰ پولیس افسر دیتے تھے۔ تبادلے اور ترقی کا اختیار بھی ان کے اعلیٰ افسروں کے پاس تھا۔ ایک طرح سے پولیس آزاد ہو گئی۔ کہا گیا یہاں سکاٹ لینڈ کا قانون چل رہا تھا جو انگریز استعمار کی نشانی تھا۔ یہاں اس نے لندن پولیس کا قانون نافذ نہیں کیا تھا۔ ہم نے میکسیکو، جاپان اور جانے کہاں کہاں وفود بھیجے۔ بتایا گیا کہ ایک پولیس کمیشن بنایا جائے گا جو پولیس کو کنٹرول کرے گا۔ پرانا ڈی سی کا نظام تو ختم ہو گیا اور ناظم اعلیٰ کا نظام چل نہ پایا، اس میں بھی مالی اختیار ڈی سی او کے ایک ماتحت ای ڈی او کے پاس تھے۔ چیک پر وہ دستخط کرتا تھا۔ ترقیاتی کام اس وقت تک نہیں ہوتے تھے جب بیوروکریسی کا نمائندہ اس پر دستخط نہ کرے۔ میں تفصیل میں چلا گیا۔ کہنا صرف یہ ہے کہ ہر نظام کے پیچھے تصورات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر میئر کا براہ راست انتخاب۔ جنرل تنویر نقوی نے دلیل دی کہ دوسری شکل میں چند لوگوں کو خرید کر امیر لوگ الیکشن جیت جاتے ہیں، نئے نظام سے غریب بھی میئر بن سکے گا۔ ان دنوں کراچی شہر میں قومی اسمبلی کے 13 حلقے تھے۔ عرض کیا، ایک حلقہ کا انتخاب کوئی غریب نہیں کرسکتا۔ 13 حلقوں کا ایک حلقہ بنا کر کوئی غریب کیسے جیت سکتا ہے۔ یہ بھی عرض کیا کہ آپ کی دلیل سے صدارتی نظام کی بو آتی ہے۔ اگر بلدیاتی سطح پر منتخب نمائندے خریدے جا سکتے ہیں تو قومی سطح پر بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ ہر تصور کے پیچھے کئی اصول پوشیدہ ہوتے ہیں، انہیں سمجھنا ہوتا ہے۔ مثال بھی دی کہ بالواسطہ نظام سے عبدالستار افغانی بھی منتخب ہوئے تھے جنہیں میں نے ایک بوٹ شاپ پر سیل مین کے طور پر گاہکوں کو جوتے پہناتے دیکھا ہے۔ کیا شخص تھا۔ وہ بھی جب ان کا بیٹا چھت سے گر کر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا تو ہسپتال نے اس کے سی ٹی سکین کے لیے دو اڑھائی ہزار مانگے تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ کراچی کے میئر کے پاس یہ رقم بھی نہ تھی۔ سیاسی کارکنوں کی اور کہانیاں بھی سنا سکتا ہوں۔ 58ء کے مارشل لاء سے پہلے ہمارے کسی سیاستدان پر کرپشن کا الزام نہ تھا۔ موضوع بدل جائے گا۔ عرض یہ کرنا ہے، نظام سوچ سمجھ کر بنائیے۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ بیوروکریسی بہت بری ہے مگر سیاستدانوں کو اصول و ضوابط کا پابند رکھنے کے لیے ایک فعال، دیانتدار، ذہین و زیرک بیوروکریسی ناگزیر ہے۔