اپنے وطن سے متعلق جو بات بہت کم عمری سے بکثرت پڑھ رکھی ہے وہ یہی ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ ہونے کو امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین بھی کسی زمانے میں زرعی ملک تھے مگر اپنی زرعی ملک والی حیثیت برقرار رکھنے میں بالکل ناکام ہوگئے، یوں اب یہ صنعتی ملک شمار ہوتے ہیں کیونکہ ان کا ’’محکمہ زراعت‘‘ نکما ثابت ہوا،جس سے صنعت و حرفت زراعت سے آگے نکل گئی۔ نتیجہ یہ کہ یہ ممالک اب دنیا کے طاقتور ترین ممالک میں گنے جاتے ہیں کہ عالمی بالادستی سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی سے ہی ممکن ہے۔ لیکن یہ کوئی فخر والی بات نہیں کیونکہ سب جانتے ہیں کہ طاقتور بہت ہی برے لوگ ہوتے ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ ممالک جن کا انحصار زراعت و محکمہ زراعت پر ہے۔ خوش قسمت اس لحاظ سے کہ زرعی ملک ہونے سے انہیں خالص اور بھرپور غذائیت والی روٹی مل جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے شہری تو برگر کھاتے ہیں جس سے انہیں السر اور کینسر جیسی بیماریاں ہوجاتی ہیں ۔ کچھ بیوقوفوں کا کہنا ہے کہ انسان نے اپنی پوری تاریخی حیات میں جو صنعت کاریاں کی ہیں ان میں سے جمہوریت اہم ترین صنعت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر اس کی اور کیا اہمیت ہوگی کہ اس کی ڈیمانڈ پوری دنیا میں ہے اور ترقی یافتہ ممالک اپنی ترقی کا سہرا اسی کے سر سجاتے ہیں۔ ان کے بڑے بڑے دانا و مفکر لکھ کر کہہ چکے کہ ہمارے صنعتی ملک بننے اور دنیا پر راج کے قابل ہونے میں بنیادی ترین اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم نے جمہوریت اختیار کی۔ ہم نے جو پایا ہے جمہوریت کے توسط سے ہی پایا ہے۔ لیکن بات پھر وہی فخر والی ہوجاتی ہے۔ دنیا پر راج کوئی فخر والی بات ہے ؟ سکندر، برطانیہ اور منگول بھی تو چلے تھے دنیا پر راج کرنے مگر نرے خرچے ہی کئے حاصل حصول تو کچھ نہ ہوا۔ اس سے بہتر نہیں کہ محکمہ زراعت کو مضبوط کرکے دو وقت کی روٹی کھا لی اور ڈکار مار کر سکون سے سو لئے ؟ ترقی یافتہ ممالک کے برخلاف ہم نے جو کچھ پایا ہے زراعت سے پایا ہے۔ ظاہر ہے زراعت سے صرف روٹی ہی پائی جا سکتی ہے اور روٹی انسان میں شکر پیدا کرتی ہے۔ پاکستان بنتے ہی محکمہ زراعت نے پاکستان کو زرعی ملک بنانے کی منصوبہ بندی شروع کردی تھی۔ اس زمانے میں چونکہ انٹرنیٹ وغیرہ نہیں تھے تو لوگ بہت نیک ہوا کرتے تھے، وہ ریا کاری بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ ہمارے محکمہ زراعت نے بھی ریاکاری کے ڈر سے اپنی منصوبہ بندی خفیہ رکھی۔ اس نیکی کی خبر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو بالکل نہ ہونے دی۔ منصوبہ بندی کا مرحلہ 1958ء میں پورا ہوا تو عملی میدان میں پھر کسی چیز کو خفیہ رکھنا ممکن نہ رہا۔ یوں پاکستان کے ہر شہری نے اپنے ملک کا پہلا دس سالہ ’’سنہرا زرعی دور‘‘ بچشم خود ملاحظہ کیا۔ ملک میں آب پاشی کا ایسا نظام قائم ہوا جو ایشیا کا سب سے بہتر آب پاشی نظام تسلیم کیا گیا۔ ہر وڈیرے اور جاگیردار کو وافر مقدار میں پانی فراہم کیا گیا اور ہر غریب کو اچھی طرح سمجھا دیا گیا کہ اس کی تخلیق کا مقصد دہقان بن کر محکمہ زراعت کی شان اونچی کرنا ہے۔ ہائے ! ہائے ! سبحان اللہ کیا ہی نیک لوگ ہوا کرتے تھے اس زمانے میں۔ سب غریبوں نے اپنی غربت کو تقدیر کا فیصلہ مان کر قبول کرلیا اور اپنی پوری حیات ہل جوتنے کے لئے وقف کردی۔ اگر کوئی فسادی آکر انہیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتا بھی تو وہ یہ کہہ کر اس کی سازش ناکام کر دیتے کہ مسلمان کو راضی برضا ہونا چاہئے اور یہ کہ دو وقت کی روٹی صبر شکر کے کامل احساس کے ساتھ کھا کر سوجانا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے دشمن بھی تسلم کرتے ہیں کہ جدید تاریخ میں کسی بھی محکمہ زراعت کو پاکستان سے زیادہ سازگار ماحول کہیں نہیں ملا۔ لیکن ہمارے محکمہ زراعت کے لئے پہلی آزمائش بھٹو دور میں آئی جب بھٹو نے کسانوں کو گمراہ کرکے پاکستان کو زرعی کے بجائے صنعتی ملک بنانے کی سازش کی۔ وہ پہلا آدمی تھا جس نے میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز کی بنیاد رکھی تاکہ قوم کو زراعت سے صنعت کے دور میں داخل کیا جاسکے۔ یہ کشمکش بعد کی تاریخ میں بھی پورے عروج پر رہی ہے لیکن محکمہ زراعت زندہ باد کہ اس نے ہمت نہیں ہاری۔ حالیہ عرصے میں محکمہ زراعت دن رات کام کر رہا ہے۔ سپریم کورٹ میں پانی، ڈیم اور آب پاشی کے مقدمات سنے جا رہے ہیں۔ اسلام آباد میں بنی گالہ والا ڈیم خصوصی توجہ کا مرکز ہے جو راول ڈیم کہلاتا ہے۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی گئی کہ بنی گالہ والے اس ڈیم میں سیوریج کا پانی چھوڑ کر غلاظت پھیلا رہے ہیں جس سے وفاقی دارالحکومت میں بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ حالیہ عرصے میں ہمارے محکمہ زراعت کی جو خوبی سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آئی ہے وہ ہے ’’احساس محرومی‘‘ ختم کرنے کا جذبہ۔ سپریم کورٹ سے نوید آئی ہے کہ دو ڈیموں کی تعمیر پر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ لیکن ظاہر ہے ڈیم کوئی چٹکی بجاتے ہی تو نہیں بن جاتے۔ ہمارے محکمہ زراعت کی دور اندیشی دیکھئے کہ اس نے ڈیمز کے عارضی متبادل کے طور پر لوٹوں کی غیر معمولی پیداوار کرلی ہے۔ جب تک ڈیم نہیں بن جاتے تب تک پانی ان لوٹوں میں ہی ذخیرہ کیا جائے گا۔ ہر چند کہ بیانیے کا اچار بیچنے والے سازشی عناصر اب بھی سرگرم ہیں لیکن ماہرین پر امید ہیں کہ محکمہ زراعت کی محنت رنگ لائے گی اور رواں سیزن میں زرعی شعبے میں تھالی کے بینگنوں کی ایسی ریکارڈ پیداوار ہوگی جو اگلے پانچ سال کے لئے کافی ہوگی۔ اس صورتحال میں لوگوں کے جوش و خروش کا یہ عالم ہے کہ ٹرکوں کے پیچھے لکھوانے کو بیتاب ہیں ’’مجھے محکمہ زراعت سے پیار ہے۔‘‘