نسب پرستی،شمشیرزنی ،گھڑسواری، قبائلی رقابتیں اورجنگ وجدل کی طرح شعرگوئی بھی عربوں کی گھٹی میں پڑی تھی۔ ایک مشہور عربی مقولے (الشعر دیوان العرب) میں شعرکو عربوں کی زندگی کا رجسٹر کہا گیا ہے کیونکہ اشعار میں عر ب اپنی زندگی کے سبھی پہلوئوں کا احاطہ کیاکرتے تھے۔اسلام کی آمدسے پہلے عربی شاعری کو جاہلی شاعری کہا جاتاتھا ۔عربی ادب و شاعری کے ساتھ جن لوگوں کا تھوڑا بہت علاقہ رہا ہومیرا یقین ہے کہ ان کومشہورعربی قصیدوں ’’ سبع معلقات‘‘ کے بارے میں ضرورجانکاری ہوئی ہو گی۔ ہمارے ہاں دینی مدارس کے نصاب( درس نظامی) میں جہاں عربی ادب میں ’’مقامات ،دیوان المتنبی اور دیوان حماسہ ‘‘ جیسی مشہورکتابیںشامل ہیں وہاں درجہ خامسہ کے طلباء کو سبع مُعلقات بھی پڑھایا جاتا ہے۔ ویسے تولفظی اعتبار سے لٹکتی ہوئی چیزکیلئے ’’ معلقۃ‘‘ کا لفظ استعمال ہوتاہے لیکن عربی ادب وشاعری میں جہاں بھی سبع معلقات کا ذکر ہوتاہے وہاں اس سے وہ سات شاہکار عربی قصیدے مراد ہوتے ہیں جو اسلام سے پہلے کہے گئے تھے ۔ ان قصیدوں کو سبع معلقات کیوں کہا گیا؟ یہ جاننے کیلئے علامہ ابن خلدون کا مقدمہ ، ابن رشیق کی العُمدہ اور ابن عبدربہ کی العقد الفرید جیسی مستند تاریخی کتابیں ہماری مدد کرسکتی ہیں۔ سبع مُعلقات کے بارے میں ان مورخین کے کلام کالب لباب یہ ہے کہ یہ وہ سات شاہکار قصیدے ہیں جنہیں عربوںنے اتنا پسند کیاکہ انہیں سونے کے پانی سے کتان کے کپڑے پر لکھ کر خانہ کعبہ کے پردے سے لٹکا دیاتھااسی وجہ سے ان قصیدوں کوسبع معلقات کہا جاتا ہے اور ان کے خالق شعراء کو اصحاب معلقات کہاجاتاہے ۔اس کے علاوہ ان قصیدوں کو سونے کے پانی سے لکھنے کی بنا پرمذہبات بھی کہا جاتاہے جن سات شعراء کے قصیدوں کو بیت اللہ کے پردوں سے لٹکانے کا شرف ملا،ان میں امروالقیس، طرفۃ بن العبدالبکری، زہیربن ابی سلمیٰ، لبیدبن ربیعہ، عمرو بن کلثوم التغلبی ، عنترہ بن شدادالعبسی اورحارث بن حلزہ الیشکری شامل ہیں۔ چونکہ لبیدبن ربیعہ نے بعد میں اسلام قبول کیاتھااسی لیے بیشتر عرب مصنفین کے ہاں ان کا ذکرجاہلی دور کے شعراء میں کم ہی کیاجاتاہے ۔ کہا جاتاہے کہ عربوں کو جتنا شغف شعروشاعری کی مجالس سے تھا اتنا ہی وہ اچھے شاعر کے تعین کیلئے بھی بے تاب رہتے ۔یہی وجہ ہے کہ مشاعروں کے دوران باقاعدہ طورپر اچھے شعراء کے تعین کیلئے کسی معمراورباوقارشاعرکو ’’میر مشاعرہ‘‘ مقرر کیاجاتا جوبعدمیں اپنافیصلہ سناتا۔رہا یہ سوال کہ دورِ جاہلیت کے شعراء میں سے کون کس مقام پر فائز ہے؟ اس بارے میں اگرچہ عمومی رائے یہ تھی کہ متعدد نامور شعراء میں سے ہرایک کوکسی نہ کسی فن میں امتیازی شان حاصل ہے۔ مثلاً کوئی کمال کاغزل لکھتا تھا تو کوئی مرثیہ خوانی کا شہسوار تھاجبکہ کسی نے فخریہ اور مدحیہ شاعری میں نام کمایاتھا لیکن پھربھی اس دور یعنی جاہلی دورکے شعراء میں امروالقیس، زہیر، نابغہ اور الاعشیٰ کوبہترین شعراء تسلیم کیاگیا۔چنانچہ عربوں میں مذکورہ چار شعراء کے متعلق یہ مقولہ مشہورتھا کہ ’’امراٗ القیس اِذا رَکب ‘‘ امراٗلقیس جب سوار ہو یعنی گھوڑے اور اونٹنی کے اوصاف شعرمیں بیان کرنے کے خوب ماہر ہیں۔ زہیر اِذا رَغبَ ، زہیرابن ابی سلمیٰ کوجب رغبت ہویعنی مدح سرائی میں وہ طاق ہیں۔ والنابغہ اِذا رَھب ، نابغہ ذیبانی جب ڈرا ہوا ہو یعنی معذرت خواہانہ اشعار کہنے میں وہ بلا کے ماہر ہیں۔والاعشیٰ اِ ذا طَرَبَ، اعشیٰ جب مست ہو یعنی کسی کی برائی یاصفت کرنے میں وہ جنون کی حدتک مانے جاتے تھے۔ سردست سبع معلقات کے شعراء میں سے ہم صرف امروالقیس کے حالات زندگی اوران کے کلام کی افادیت پر بات کرتے ہیں۔ یادرہے کہ امراوالقیس شعراء میںوہ مشہور نام ہے جن کے قصیدے سے کتاب کی ابتداء کی گئی ہے ۔امروالقیس نسلی اعتبار سے قحطانی یمنی تھے اورپرورش ان کی نجد میں ہوئی تھی۔ پورا نام ان کا ابوالحارث حندج بن حجرالکندی جبکہ امروالقیس ان کا لقب تھا۔ان کی تاریخ پیدائش میں اگرچہ اختلاف ہے لیکن راجح قول کی رو سے ان کی ولادت کاسال سنہ 500ء بتایا گیا ہے۔ موصوف زمانہ جاہلیت کے شعراء میں سب سے زیادہ ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ اپنی شاعری میں انہوںنے بعض ایسے مضامین اور اصناف استعمال کیے ہیں کہ ان سے پہلے دور جاہلیت کے کسی شاعرنے اس طرح کے مضامین اور اصناف کا استعمال نہیں کیا۔ امروالقیس ایک معزز شاہی خاندان کا نجیب الطرفین لڑکا تھا ،اس کا باپ قبیلہ بنو اسدکا بادشاہ اور شاہان ِ کندہ کی نسل سے تھا۔ شاہی خاندان کا فرد ہونے کی بناء پر امروالقیس غضب کے عیاش اور اوباش بھی تھے۔ لطف کی بات تویہ بھی ہے کہ اُن کی پرتعیش زندگی کے عجوبوں کانہ صرف سیکنڈاورتھرڈ پرسن گواہی دیتاہے بلکہ امروالقیس خوداپنی شاعری میں انتہائی صراحت اورڈنکے کی چوٹ پر اس کے تذکرے کر چکے ہیں۔ رعیت کی خدمت میں دلچسپی لینا تو کجا ،ا لٹا اپنی بے ڈھنگ حرکات وسکنات کی وجہ سے اپنے باپ اور شاہی خاندان کی ساکھ اور وقار کوخراب کرنے پر تلے ہوئے تھے۔باپ کے سمجھانے بجھانے کے باوجود جب وہ اپنی بیہودہ حرکات سے باز نہ آئے، تو ان کومجبوراً گھر سے نکال دیاگیا۔ پشتومحاورے کے مطابق ’’ خرگوش پہلے سے ہی تیز رفتاری میں طاق تھا لیکن پیچھے سے جب گڈریے نے لاٹھی بھی پھینک دی تواب یہ ہواسے باتیں کرنے لگا، سو یہی حال امروالقیس کا بھی تھا کہ گھر سے نکالنے پر انہیںرہی سہی حدود اورقیود سے بھی آزادی مل گئی ۔ ان کے کلام میں سب سے زیادہ پذیرائی اسی معلقۃ کو ملی کیونکہ اس میں انہوں نے نازک خیالی، قوت بیان اور عجیب وغریب تشبیہات کا استعمال کرکے جاہلی دور کے موافق اور مخالف دونوں شعراء سے داد تحسین وصول کی۔سبع معلقات میں شامل ان کا مشہورمعلقۃ اکیاسی اشعار پرمشتمل ہے جس میں انہوںنے اپنی عشق کی کہانی کو نہایت نرالے اندازمیں بیان کیاہے ۔ عرب شعراء میں گویا امروالقیس وہ پہلا شاعر ہے جنہوں نے اپنی عشقیہ کہانی چھپانے کی بجائے انتہائی بے لاگ انداز میں سب کچھ طشت ازبام کیاہے۔دراصل اس قصیدے کی پوری کہانی عنیزہ کی محبت کے گرد گھومتی ہے ۔ امروالقیس کواپنی محبوبہ سے ملاقات کا بہترین موقع اس وقت نصیب ہوا جب ان کے قبیلے کے سب مرد حضرات معمول کی طرح سالانہ جشن منانے کیلئے آبادی سے دور چلے گئے۔ جبکہ خواتین دارہ جُلجل نامی حوض پرگئیں ۔امروالقیس اس روز چپکے سے مردوں سے الگ ہوکر وہا ں دارہ جُلجل نامی تالاب کے احاطے میںکہیں چپ گئے ۔ اگرچہ امروالقیس نے اپنی آنکھوں کی بھوک تومٹاڈالی لیکن دوسری طرف شکم کی بھوک سے نڈھال خواتین سے بھی رہا نہ گیا اور بددعاوں پراترآئیں ’’خداتجھے تباہ کرے اے امروالقیس ہمیں دیر بھی ہوگئی اور بھوک بھی لگی ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی امروالقیس نے فوری طورپر اس اونٹنی کو خواتین کیلئے ذبح کردیاجس کی پیٹھ پروہ دارہ جُلجل آئے تھے اورآگ پر بھُنے ہوئے گوشت سے ان عورتوںکی تواضع کی گئی ۔اس طرح یہ محفل برخاست ہو گئی اورسب اپنی اپنی سواری پر بیٹھ گئیں ۔واپس جاتے وقت اگرچہ امروالقیس کے پاس سواری نہیں تھی، لیکن بجائے پریشانی کے یہ اس کیلئے گویا نیک شگونی ثابت ہوئی ۔کیونکہ اسے ہودج میں عنیزہ کے پہلومیں بیٹھنا نصیب ہوا ۔