شہرہ آفاق روسی افسانہ نگار چیخوف نے ایک غریب کلرک کی کہانی لکھی ہے جس کے پاس ایک چیتھڑا کوٹ تھا‘ برسہا برس تک استعمال سے وہ اس قابل بھی نہ رہا تھا کہ پہنا جا سکے۔ کلرک نے تھوڑی تھوڑی رقم بچا کر اتنی جمع کر لی کہ وہ کوئی ڈھنگ کا استعمال شدہ کوٹ خرید سکے۔ پرانے کوٹوں کے ٹھیلے پہ جا کر اس نے ایک کوٹ پسند کیا‘ رقم ادا کی اور پرانا کوٹ اتار کر نیا کوٹ زیب تن کر لیا۔ چلتے ہوئے اس نے اپنا پرانا کوٹ ٹھیلے پہ ڈال دیا کہ اب اسے کون پہنے۔ نیا کوٹ پہن کر وہ وہاں سے رخصت ہوا۔ لیکن ابھی اس نے چند قدم ہی آگے بڑھائے تھے کہ اس کے کانوں میں آواز آئی ’’یہ کوٹ کتنے کا ہے؟‘‘ اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک مفلس آدمی اس کے اتارے ہوئے درماندہ کوٹ کو اٹھائے ہوئے تھا۔ یہ کہانی برسوں پہلے پڑھی تھی اور حافظے میں محفوظ رہی۔ کہانی کا سبق شاعر مشرق کی زبان میں یہ تھا کہ ع نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں جن چیزوں کو ہم استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں وہ چیزیں کسی نہ کسی کے ازسر نو استعمال میں آ جاتی ہیں۔ پچھلے مہینے کا واقعہ ہے کہ میں نے چوراہے پہ فٹ پاتھ کے ساتھ ایک دکاندار کو دیکھا جو کھلے آسمان تلے ہینگروں میںبوشرٹ اور قمیصیں وغیرہ لٹکائے بیٹھا تھا اور غریب غربا کو پندرہ بیس روپوں میں ان لباسوں کو بیچ رہا تھا۔ یہ ہمارے لباس کہیں سے بھی سیکنڈ ہینڈ نہیں لگ رہے تھے۔ ان کے خریدار تقریباً سب کے سب چیخوف کی کہانی کے کردار تھے جو اپنی محدود آمدنی میں سے تھوڑی تھوڑی رقم بچا کے ان ملبوسات کو خریدنے آ رہے تھے۔ آج کے اخبار میں ایک ٹھیلے والے کی تصویر چھپی ہے جس میں گاہکوں کا ہجوم اس کے ٹھیلے پر ٹوٹا پڑ رہا ہے۔تصویر کے کیپشن میں درج ہے کہ ’’صدر میں شہری سرد ہوائوں سے بچائو کے لئے ٹھیلے سے گرم ملبوسات خرید رہے ہیں‘‘ جب ہم رات کو اپنے گرم لحافوں میں دبکے ہوتے ہیں تو کب یہ خیال ہمیں ستاتا ہے کہ نہ جانے شہر میں کتنے مفلس و نادار ایسے ہوں گے جنہیں سرد ہوائوں سے بچائو کے لئے اس طرح کے گرم لحاف بھی میسر نہ ہوں گے۔مجھے بہت اچھا لگا ایک دن ٹیلی ویژن پہ یہ دیکھ کر صوبے کے گورنر کی ہدایت پر سول ہسپتال کے سامنے مریضوں کے غریب لواحقین کو رات گزارنے کے لئے ٹینٹ لگا کے انہیں بستر ‘ لحاف اور تکیے فراہم کیے گئے۔ چونکہ دودھ میں مینگنیاں ڈالنا بھی ہماری ابلاغی روایت ہے لہٰذا خبر کے ساتھ یہ ٹیکر بھی چلایا گیا کہ بہت سے لوگ لحاف اور بستر جاتے ہوئے چرا لے گئے۔ اگر یہ خبر نہ دی جاتی تو اس سرکاری اہتمام پہ ہماری خوشی دوگنا ہو جاتی لیکن قوم کی اخلاقی حالت پہ رونا آیا کہ مفلسی بھی آدمی کو کیسا بے رحم بنا دیتی ہے کہ کوئی موقع بے ایمانی کا ہم ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاؒ کے تذکرے میں آتا ہے کہ ملازم رات کو کھانا طشت میں سجائے ان کے کمرے میں پہنچا آتا تھا لیکن صبح کو طشت میں کھانا ویسے کا ویسا دھرا ملتا تھا۔ پوچھنے پر سلطان المشائخ کا جواب ملتا تھا جب بھی کھانا کھانے بیٹھتا ہوں تو یہی خیال نوالہ حلق سے نیچے نہیں اترنے دیتا کہ جانے دلی میں کتنے ضرورت مند ایسے ہوں گے جنہیں کھانا میسر ہی نہ ہو گا۔ یہ درد مندی آج کتنے اللہ والوں میں ہو گی شاید اسی لئے حضرت نظام الدین اولیاؒ سلطان المشائخ کہلائے۔ ایک دن کا واقعہ ہے آپ کی گفتگو سننے کے لئے عقیدت مندوں اور مریدوں کا ہجوم جمع تھا۔ بھیڑ تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔ بہت سے لوگ سائے کے نیچے جگہ نہ پا کر دھوپ میں بیٹھے تھے۔ حضرت کو یہ صورت حال گوارا نہ تھی۔ بار بار یہی فرماتے تھے کہ دھوپ میں بیٹھے ہوئے لوگ سائے میں آ جائیں۔ ایک بار تو نہایت درد مندی سے فرمایا بھائیو! دھوپ میں تم بیٹھے ہو اور جل میں رہا ہوں۔ یہی انسانی دوستی تھی جس نے آپ کی عقیدت بلا امتیاز مذہب ہر دل میں پیدا کر دی تھی۔ حضرت سلطان المشائخ نے بہت سے بادشاہوں کا زمانہ دیکھا لیکن آج ہم حضرت سے تو واقف ہیں بادشاہوں کی بابت معلومات صفر ہیں بلکہ آپ تو زندوں سے زیادہ زندہ ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جہاں سی خرابیاں پائی جاتی ہیں ان میں ایک بڑی برائی بے حسی اور سنگ دلی کی ہے۔ ہم دوسروں کی اذیت اور تکلیف سے بالکل بے پروا ہیں۔ مذہب کے وہ احکامات جو ظواہر کی بابت ہیں‘ اس پہ تو عمل پیرا ہونے میں طاق ہیں لیکن دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف سے ہم بالعموم لاپروا ہی رہتے ہیں۔ معمولی معمولی باتوں میں مثلاً گاڑی پارک کرتے ہوئے‘ کسی کائونٹر پہ قطار باندھتے ہوئے‘ شادی بیاہ کی تقریبات میں پلیٹ اٹھائے کھانا ڈش سے لیتے ہوئے اور اسی طرح کے بہت سے مواقع پر ہم انتہائی بے حسی اور سنگدلی کا مظاہرہ کرتے اور دوسروں کو تکلیف و اذیت پہنچاتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ کے حقوق میں کمی کو تو شاید وہ مالک حقیقی معاف کر دے لیکن بندوں کے حقوق میں کوتاہی اور کمی اسے سخت ناپسند ہے۔ بے حسی اور سنگ دلی کا تعلق انسانی قلب سے ہے۔جن کے قلوب میں سختی ہوتی ہے‘ جو خود غرض ہوتے ہیں‘ وہی دوسروں کے معاملات کی بابت لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اپنے دل کی اس سختی کو دور کر کے دوسروں کی بابت حساسیت کا مظاہرہ کرنا ہی انسان دوستی ہے۔ صوفیہ کے حالات کے مطالعے میں یہی ایک بات قدر مشترک ملتی ہے کہ ان کے اخلاق بلند ہوتے تھے۔ وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کے لئے آسانیاں بہم پہنچاتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں کو مطالعے کا شوق ہے انہیں لازماً صوفیہ کی سوانح اور ان کے حالات سے واقفیت حاصل کرنا چاہیے کیونکہ آدمی ہی سے آدمی بنتا ہے جیسے چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ آدمی کے کردار میں انسان دوستی اور خوش خلقی نہ ہو تو وہ کتنا ہی بڑا مذہبی ہو‘ اچھا انسان اور اچھا مسلمان ہو ہی نہیں سکتا۔ معاشرت کی تکمیل اور حسن معاشرت آداب و اخلاق ہی کا نام ہے۔ آج ہم اپنی سیاست معیشت اور معاشرت یہاں تک کہ تعلیم اور درس و تدریس جیسے پیشے میں بھی جس چیز کا فقدان پاتے ہیں وہ انہی اخلاقی قدروں کی ہے۔ جب تک اخلاقی اقدار کسی معاشرے میں سربلند نہیں ہوں گی وہ معاشرہ معاشی طور پر مستحکم بھی ہو جائے تو بھی وہ بے برکت ہی رہے گا۔عام مشاہد ہے کہ غریبوں کے محلے میں لوگ باگ ایک دوسرے سے واقف ہوتے ہیں لیکن طبقہ امرا کے پوش علاقے میں چلے جائیے تو وہاں لوگ اپنے پڑوسی کے نام اور کام سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔ پڑوسی کے دکھ درد سے آشنا ہونا تو بہت دُور کی بات ہے۔ والدین ہوں یا اساتذہ پر یہ ذمہ داری آتی ہے کہ وہ پہلے خود کو عمدہ اخلاق سے آراستہ کریں تب انہیں اپنے بچوں اور شاگردوں کو کسی نصیحت کی ضرورت بھی نہ ہو گی کہ بچے کانوں سے نہیں آنکھوں سے سیکھتے ہیں۔