ایک انوکھی اور دل چسپ تصویر کل ہم نے اخبار میں چھپی دیکھی اور دیر تک یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ اس پر نہیں مسکرائیں یا سینہ کوبی کریں۔ تصویر کا منظر کچھ ایسا ہے کہ مرحوم مجید نظامی کے مردحُر، عوام کے مسٹرہنڈرڈ پرسنٹ اور مملکت بدنصیب کے سابق صدر(اب نام کیا لینا) کو سکھر کے سابق میئر اسلام الدین شیخ کے غالباً صاحبزادے ایک کتاب نہایت ادب سے پیش کر رہے ہیں۔ یہ کتاب پیش کنندہ کی اپنی تصنیف ہے اور سکھر کی تاریخ کی بابت ہے۔ آپ سوچیں گے اس میں ایسی کیا بات ہنسنے یا سینہ پیٹنے کی ہے کہ بڑے لوگوں کو، چھوٹے مصنفین کتاب لکھ لیں تو کتاب کی مشہوری کے لیے پیش کرتے ہی ہیں۔ ہمارے ملک میں آدمی کے بڑا ہونے کے لیے کتاب پڑھنا یا دوسرے لفظوں میں پڑھا لکھا ہونا ہرگز بھی ضروری نہیں ہوتا اور پھر سابق صدر مملکت اور کتاب میں تو ویسے ہی باپ مارے کا بیر ہے۔ ہاں ان کی اہلیہ اور سسر محترم یقینا مطالعۂ کتاب کے شائق تھے اور خود بھی دونوں باپ بیٹی نے سیاست کی گرم بازاری میں رہتے ہوئے کتابیں تصنیف کیں۔ بلکہ سسر محترم نے تو جیل کی کال کوٹھری میں رہتے ہوئے ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ جیسی بیسٹ سیلر کتاب تصنیف کی۔ اور اہلیہ محترمہ نے ’’مشرق کی بیٹی‘‘ کے عنوان سے داستانِ ظلم لکھی۔ دونوں ہی کتابیں لائق مطالعہ ہیں۔ موقع تو ہمارے ممدوح سابق صدر کو قدرت سے ملا تھا کہ کوئی شاندار سی کتاب لکھ ڈالیں کہ آٹھ برس تک آپ بھی جیل کی کال کوٹھری میں رہے اور جس طرح جاوید ہاشمی، شیخ رشید اور سابق وزیر اعظم گیلانی نے اپنے اپنے عہد اسیری کا فائدہ اٹھایا اور پس دیوار زنداں کتابیں تصنیف کر ڈالیں، لیکن ہمارے سابق صدر مملکت آصف زرداری کا قلم و قرطاس سے ناتا جڑتے کبھی دیکھا ہی نہیں۔ جس تصویر کے تذکرے سے ہم نے اپنے کالم کا آغاز کیا ہے اس میں جو پہلو ذکر کے قابل ہے، وہ کتاب وصول کرتے ہوئے وہ خوشگوار ہنسی ہے جو آصف زرداری صاحب کے چہرے پر پھیلی ہوئی ہے۔ کتاب وصولتے ہوئے سنجیدگی اور بردباری تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اس موقع پر باچھوں کا کھلا ہونا کم سے کم ہمارے لیے تو ناقابل فہم ہے۔ کیا یہ ہنسی یہ تو نہیں بتاتی کہ بے چارہ مصنف کس قدر بھولا ہے کہ اسے یہی پتا نہیں کہ مہمان خصوصی موصوف کیا وصولنے کے عادی ہیں۔ کتاب تو انہیں پیش کرتے ہیں جنہیں مطالعہ کا شوق یا عادت ہو۔ کسی ایسے شخص کو جو خواہ کتنا ہی مشہور یا منصب دار رہا ہو مگر جسے کتاب کے قریب بھی پھٹکتے ہوئے نہ دیکھا گیا ہو، اسے کتاب پیش کرنا کیا معنی؟ ہاں اگر یہ کتاب وزیر اعظم عمران خان کو پیش کی جاتی تو بات سمجھ میں آ سکتی تھی کہ وزیر اعظم موصوف مطالعۂ کتب کے شوقین ہیں بلکہ جو کچھ پڑھتے ہیں، اسے اپنی تقریروں کا حصہ بھی بناتے ہیں جس سے ہماری نیم خواندہ یا ناخواندہ عوام کے علم میں جیسا کیسا سہی، کچھ نہ کچھ اضافہ ہوتا رہا ہے۔ آصف زرداری کی طرح نواز شریف صاحب کا معاملہ بھی رہا ہے کہ کچھ پڑھتے ہی نہیں، بلکہ ان کے مطالعے سے شغف کا اندازہ تو اس واقع سے کیا جا سکتا ہے جب ایک امریکی خاتون صحافی نے ان کا انٹرویو لیا اور اپنے تعارفی نوٹ میں لکھا کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم کے گھر میں صرف ایک کتاب کو رکھے دیکھا اور وہ تھی ٹیلی فون ڈائریکٹری۔ ان کے برادر خورد شہباز شریف کے مطالعے کا معاملہ بھی برادر بزرگ جیسا ہی ہے کہ انہوں نے حبیب جالب کی ایک نظم کے سوا شاید کچھ پڑھا ہی نہیں۔ نظم بھی وہ جو جالب نے دور ایوبی میں 62ء کے دستور کے نفاذ کے بعد لکھی تھی۔ ’’میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا‘‘ البتہ شہباز شریف کی دوسری اہلیہ تہمینہ درانی صاحبہ ماشاء اللہ سے دو کتابوں کی(میرے علم کی حد تک) مصنفہ ہیں۔ ’’مائی فیوڈل لارڈ‘‘ جس کا اردو ترجمہ ’’مینڈھا سائیں‘‘ کے عنوان سے کیا گیا۔ یہ کتاب بھی بیسٹ سیلر ہوئی کہ ماضی کے شیر پنجاب غلام مصطفی کھر کی بابت تھی جو تہمینہ بی بی کے پہلے شوہر تھے۔ کتاب کی اشاعت کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ کھر صاحب کا سیاسی مستقبل تاریک ہو جائے گا لیکن کتاب کی مقبولیت نے خود کھر صاحب کی ہردلعزیزی میں چار چاند لگا دیئے اور وہ کتاب کی اشاعت کے بعد کے انتخابات میں پہلے سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے۔ اس سے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ شوہر جتنا ظالم ہو بطور سیاست دان ووٹروں کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے۔ کھر صاحب نے بعد میں نواز شریف کے قریب ہونے کی بہت کوشش کی لیکن جب کامیابی نہ ہوئی تو تحریک انصاف میں شامل ہو گئے۔ ان کی سابقہ اہلیہ نے ان سے علیحدگی کے بعد دوسری کتاب عبدالستار ایدھی کی بابت لکھی اور اس کے لیے جیسا کہ ایدھی مرحوم نے ہمیں بتایا تھا کہ تہمینہ صاحبہ نے لاہور سے ان کے گھر آ کر قیام کیا تھا اور ان سے طویل انٹرویو کر کے کتاب مکمل کی۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلم لیگ(ن) میں سبھی نیم خواندہ قسم کے رہنما ہیں۔ وزارت خارجہ کے امور کی دیکھ بھال کرنے والے سرتاج عزیز نہایت صاحبِ مطالعہ شخصیت ہیں۔ ان کی ہمشیرہ نثار عزیز بٹ معروف ناول نگار ہیں۔ کسی محفل میں ایک مقتدر شخصیت نے پوچھا تھا کہ چانکیہ کی مشہور تصنیف ’’ارتھ شاستر‘‘ کس نے پڑھی ہے؟ اس محفل میں جس واحد شخصیت نے یہ کتاب پڑھ رکھی تھی، وہ سرتاج عزیز کی تھی۔ مسلم لیگ کے ایک اور لیڈر وسیم سجاد بھی ہیں جو اسیر عادتِ مطالعہ ہیں۔ برسوں پہلے جب وہ سینیٹ کے اسپیکر تھے، ان سے ایک ملاقات کا دارالحکومت میں موقع ملا تھا اور ہم ان کی وسعت مطالعہ سے خاصے متاثر ہوئے تھے۔ یوں تو مطالعے کے شائق بھٹو کی طرح ان کے بعد ان کی جگہ لینے والے جنرل ضیاء الحق بھی تھے۔ کالم نگاروں اور دانش وروں میں اسی لیے وہ بے حد مقبول تھے کہ وہ باقاعدگی سے اخبارات کے کالم بھی پڑھتے تھے اور کتابیں بھی۔ بھارتی صحافی مورخ اور کالم نگار خوشونت سنگھ نے صدر ضیاء سے اپنی ملاقات کے احوال میں لکھا ہے کہ جب میں ان سے ملنے کے لیے ایوان صدر گیا تو وہاں مجھے مہمان خان میں بٹھا دیا گیا۔ میری نظر سینٹرل ٹیبل پر پڑی تو میری حیرت اور مسرت کی انتہا نہ رہی کہ میز پر میری کتاب History of sikhs(سکھوں کی تاریخ) کی دونوں جلدیں اوپر تلے رکھی تھی۔ جب صدر ضیاء کمرے میں داخل ہوئے تو انہوں نے خوشونت سنگھ سے کتاب پر اپنے آٹو گراف دینے کی درخواست کی جس کی مصنف نے صمیم قلب سے تعمیل کی۔ پھر خوشونت سنگھ جب تک جیتے رہے صدر ضیاء کے بھیجے ہوئے آم دلی میں چوستے رہے اور ان کے گُن گاتے رہے۔ اس میں بھلا کیا شبہ ہے کہ دوسروں کو متاثر کرنے اور اپنے انکسار و عاجزی سے دلوں میں گھر کر جانے کا فن جتنا جنرل ضیاء کو آتا تھا، شاید ہی ہمارے کسی اور حکمران کو آتا ہو۔ بات شروع ہوئی تھی آصف زرداری سے اور پھر دور چلی گئی۔ صاحبِ مطالعہ نہ ہونے کے باوجود جیسی معاملہ فہمی، چالاکی اور ہوش مندی ہمارے ممدوح آصف زرداری میں ہے، اس میں ان کا مقابلہ اگر کسی سے ہے تو وہ جنرل ضیاء ہی سے ہے۔ اگر زرداری صاحب کو علم و ادب سے دلچسپی ہوتی تو نظیر اکبر آبادی کا یہ شعر ہم ضرور انہیں یاد دہانی کے طور پر سناتے: سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ