گذشتہ آٹھ برس کے دوران شاید ہی کو ئی ایسا دن ہو جب وزیراعظم عمران خان نے کرپشن کا خاتمہ اور کرپشن میںملوث عناصر کو کیفرکردار تک پہنچانے کا ببانگ دہل اعلان اور دعوی نہ کیا ہو۔عوام کو بھی ایک اُمید ملی تھی کہ نئے پاکستان میں کرپشن میں ملوث عناصر کو قطعا کوئی رعایت نہیں ملے گی۔ قانون کے سامنے سب جوابدہ ہوں گے۔ کڑا احتساب ڈیٹرنس پیدا کرے گا جس سے بااثر افسران کے کرپشن کرنے پر ہاتھ لرز جائیں گے۔سیاستدانوں کے خلاف متحرک نیب اپنا کام کرچکاجس کا نتیجہ اب عدالتوں کے فیصلوں سے سامنے آئے گا مگر سرکاری اداروں میںقومی دولت سے کھلواڑ کرنے والے تمام تر ثبوتوںکے باوجود آج بھی آزاد ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی حالیہ رپورٹ میں غریب عوام سے جمع کئے گئے ٹیکسوں سے دو وی وی آئی پیز جہازوں کی خریداری میں خردبرد نے دل دہلا کررکھ دیا ہے۔ معاملہ کچھ یوںہے کہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے احکامات پر امریکی کمپنی گلف اسٹریم سے دو وی وی آئی پی جہازوں کی خریداری،دیکھ بھال اور مرمت کیلئے جاری کئے گئے 147ملین ڈالرقومی خزانے سے جاری کئے گئے۔یہ رقم چونکہ قومی خزانے سے جاری کی گئی تھی لہذا اس رقم کا قانونی اوراصولی طور پر 2008 سے ہر صورت آڈٹ کا آغاز ہونا چاہئے تھا۔ باقی سالوں میں ان دونوں جہازوں کی مرمت اور دیکھ بھال پر غریب عوام کی رقم سے جو اربوں روپے جھونکے گئے انکا بھی ہرسال آڈٹ ہونا چاہیے تھا ۔ 13سال بعد بالاخر ڈائریکٹوریٹ جنرل آڈٹ کی جانب سے 2وی وی آئی پی ہوائی جہازوں کی خریداری اور مرمت پر 2005-06سے2018-19تک آنے والے اخراجات کا خصوصی آڈٹ کرلیا گیا ہے۔ دو گلف سٹریم ہوائی جہازاستعمال شدہ ماڈل G-IVاور نیا ہوائی جہاز ماڈل نمبرG-450گلف سٹریم یو ایس اے سے ملکیتی بنیادوں پر 2005اور2007میں اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز کے حکم پر خریدے گئے۔ہوائی جہازوں کی آپریشنل،مرمت اور سپیئر سپورٹ کی خدمات کیلئے 23جون2006کو گلف سٹریم یو ایس اے کے ساتھ ریٹ رننگ معاہدے پر ملکیتی بنیادوں پر تین سال کیلئے دستخط کیے گئے۔دسمبر 2020میں آخری بار معاہدے کی تجدید کی گئی۔وفاقی حکومت کی جانب سے جہازوں کی خریداری اور مرمت کیلئے مالی سال2005-06سے مالی سال2018-19کے دوران 14کروڑ70لاکھ ڈالر جاری کیے گئے۔آڈیٹر جنرل کی ٹیم کو آڈٹ مکمل کرنے کیلئے متعقلہ دستاویز اور معاہدوں کی کاپی درکارتھی ۔ کئی بار کی یاد دہانیوں کے باوجودآڈٹ ٹیم کو 126ملین ڈالر کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا ۔ریکار ڈکی عدم فراہمی کے باعث آڈٹ کے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکے۔آڈٹ نتائج کے مطابق ہوائی جہازوں کی خریداری کیلئے 61ملین ڈالر اور 2005کے بعد دونوں طیاروں کی مرمت کا ریکار ڈ فراہم نہیں کیا گیا۔ آڈٹ کی جانب سے ریکارڈ کی عدم فراہمی کے مرتکب افراد کے خلاف ذمہ داری عائد کرکے کارروائی کی سفارش کیساتھ بال حکومتی کورٹ میں پھینک دی گئی ہے ۔ حکومت چاہے گی تو 126ملین ڈالر خرچ کرنے اور مبینہ بے ضابطگیوں میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کیلئے معاملہ نیب کو بھجوادے گی بصورت دیگرایسی وارداتوں کیلئے مجرب ’’ مٹی پاؤ‘‘فارمولہ لاگو کرکے معاملہ نمٹادیا جائے گا۔ آڈٹ کے مطابق اخراجات کا ریکارڈ غیر شفاف تھا۔پنلٹی چارجز کی مد میں 2لاکھ19ہزار 780ڈالر کی ادائیگی کے ذریعے قومی خزانے پر بوجھ ڈالا گیا۔ گلف سٹریم کمپنی کو 39ہزار 567ڈالر کی زائد ادائیگی کی گئی۔ نشاندہی کے باوجود ادا شدہ اضافی رقم واپس حاصل نہیں کی جا سکی۔لیٹر آف کریڈٹ کی مکمل رقم 30ملین ڈالر کے مقابلے میں 10ملین ڈالر کی رقم مطابقت نہیں رکھتی۔آڈٹ کی جانب سے ہوائی جہازوں کی نیوی گیشنل اپ گریڈیشن پر 6.85ملین ڈالر کے غیر مصدقہ اخراجات کابھی انکشاف کیا گیا۔ ہوائی جہازوں کی مرمت کیلئے 6ارب روپے خرچ کئے گئے مگر ان اخراجات کی تفصیل کوئی پیش کرنے کو تیا رنہیں۔یہ وہی دو ہوائی جہاز ہیں جن پر وزیراعظم عمران خان اور وزراء اکثر وبیشتر اندرون وبیرون ملک دوروں پردکھائی دیتے ہیں۔وزیراعظم صاحب آپ سائیکل پر وزیراعظم آفس جانے کی مثالیں دیا کرتے تھے۔اس مثال پر عمل تونہ ہوسکا چلیں کم ازکم غریب عوام کے ٹیکسوں سے دووی وی آئی پی ہوائی جہازوں کی خریدار ی کا ریکارڈ غائب کرنے والوں کو ہی منطقی انجام تک پہنچا دیںتاکہ آپ کے دعووں اور وعدوں کا کچھ تو بھر م رہ جائے۔ حکومت نے اپوزیشن سے اتفاق رائے قائم کئے بغیرفاسٹ ٹریک پر انتخابی اصلاحات کے ذریعے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور انٹرنیٹ ووٹنگ سسٹم کو نافذ کرنے کی ٹھان لی ہے خصوصی برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے اپوزیشن کی مخالفت کا توڑ وزیراعظم کو پیش کردیاہے جس کے تحت31اگست کو سینٹ قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کی جائے گی۔ سینیٹ کی طرف سے اگر ترمیم کے ساتھ منظوری دی گئی تو 15اکتوبر کو معاملہ قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ اگر سینیٹ نے انتخابی اصلاحات بل کو مسترد کر دیا تو 30اکتوبر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں معاملہ بھیجنے کی قرارداد منظور کرواکر 30نومبر کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے گا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے پوسٹل بیلٹ کی اجازت کے لیے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا نسخہ پیش کیاگیا ہے۔اپوزیشن سے اتفاق رائے کے بغیر یہ حکمت عملی جبری طور پر طور پرنیا سسٹم نافذ کرنے کے مترادف ہوگی جو ناکامی اور قومی وسائل کے نقصان کا باعث بنے گی۔ کہتے ہیں کہ انصاف کیلئے بھی انصاف کے اُصولوں پر گامزن ہونا لازم ہے۔ قانون سے بالاتر ہوکر کیا جانے والا انصاف بہتری نہیں‘ انتشار کا باعث بنتا ہے۔