وزیر اعظم نے لاہور میں خطاب کے دوران سرکاری ہسپتالوں میں غریبوں کے علاج کی بابت جو فرمایا‘ اس سے صاف عیاں ہے کہ آپ کو غریبوں سے شدید قسم کی ہمدردی ہے۔ سرکاری ہسپتال تو ہوتے ہی اس لئے ہیں کہ غریب اور نچلا متوسط طبقہ ان میں علاج کرا سکے۔ اشرافیہ کے لئے تو بہت ہسپتال‘ یہاں ہیں اور باہر بھی۔ لیکن بظاہر وزیر اعظم اس بات سے لاعلم لگتے ہیں کہ ملک پر قائم حکومت نے سرکاری ہسپتالوں کے دروازے عملاً غریبوں کے لئے بند کر دیے ہیں۔ پچھلی حکومتوں میں جو چند ایک سہولتیں غریبوں کو دستیاب ہیں۔ اب نہیں ہیں۔ ٹیسٹ تو بند ہوئے ہی۔ دوائیوں کی فراہمی بھی بند ہو گئی اور میڈیکل سٹوروں پر دونوں کی قیمت چارگنا تک بڑھ گئی ہے۔ وزیر اعظم مناسب سمجھیں تو غریب مریضوں سے چھینی گئی سہولیات واپس کریں۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے یہ بات سولہ آنے درست کی کہ ملک میں جزا و سزا کا نظام نہ ہونے سے خرابیاں ہیں۔ یہ سچ مچ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جرم کرنے والوں کو سزا نہیں ملتی۔ اب دیکھیے‘ پچھلے دنوں ایک وزیر نے دوا ساز اداروں سے ملی بھگت کر کے دوائیوں کی قیمتوں میں چار سو فیصد کا اضافہ کر دیا۔ لیکن یہ وزیر اب بھی کھلے بندوں گھومتا ہے۔ کوئی اسے سزا دینے کی طاقت رکھتا ہے نہ لوٹے گئے اربوں روپے نکلوانے کا سوچ سکتا ہے۔ وزیر اعظم کی بات فی الواقع سولہ آنے درست ہے۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم کو ایک مطالبہ اور بھی کرنا چاہیے۔ دوائوں کی قیمتیں بڑھیں تو حکومت نے اعلان کیا کہ ہاں‘ زیادہ ہو گئی۔ قیمتیں کم کی جائیں گی۔ لیکن کئی ماہ ہو گئے۔ یہ وعدہ پورا نہیں ہوا۔ حکومت اپنا وعدہ پورا کرے۔ اگرچہ امید تو نہیں کہ حکومت اس مطالبے پر کان دھرے گی لیکن مطالبہ کر ڈالنے میں کیا حرج ہے۔ ٭٭٭٭٭ حکومت کو اس کا ایک اور وعدہ یاد دلواتے ہیں۔ حکومت نے گیس کے بلوں میں کھلی ڈکیتی کی اور پھر اعتراف بھی کر لیا کہ غلطی سے ڈکیتی ہو گئی۔ صارفین کو لی گئی زائد رقم واپس دی جائے گی۔ یہ وعدہ بھی کئی مہینوں سے پورا نہیں ہوا۔ حکومت سے مطالبہ ہے کہ یہ رقم واپس دی جائے۔ امید تو نہیں ہے کہ حکومت یہ مطالبہ مان لے گی۔ لیکن مطالبہ کر بھی دیں‘ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ دوائوں کے مسئلے پر سینٹ میں تقریر کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد اللہ خاں نے بہت تفصیل سے ایک ماجرا بیان کیا لیکن رپورٹنگ کے اصول کے تحت میڈیا نے یہ تقریر نظر انداز کر دی۔ اجمال اس تفصیل کا دو سطر میں یہ ہے کہ ایوان صدر میں عزت مآب صدر اور وزیر صحت کی ملاقات دوا ساز اداروں سے ہوئی اور اس میں یہ ساری واردات طے ہوئی۔ راتوں رات ارب ہا ارب روپے کا ثواب کما لیا گیا۔ مزید فرمایا کہ اب جتنی کرپشن ہو رہی ہے وہ پچھلے ستر برسوں میں نہیں ہوئی۔ انہوں نے اس کے بارے میں مزید انکشافات کرنے کی دھمکی بھی دی۔ ہمیں مشاہد اللہ کی بات کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے بلکہ صادق و امین حکومت کی بات ماننی چاہیے۔ صادق و امین حکومت کے وزیر اعلیٰ بزدار نے پچھلے دنوں فرمایا تھا‘ ہم نے ستر سال کا سفر سات مہینوں میں طے کیا۔ اس بات کی ’’میچنگ‘‘ مشاہد کے اس کہنے سے بالکل نہیں کرنی چاہیے۔ ٭٭٭٭٭ کرپشن بری کمائی ہوتی ہے۔ نیک کمائی اور طرح کی ہوتی ہے۔ جو اوپر والوں کے نیک بندے کیا کرتے ہیں۔ نیک بندہ‘ نیک کمائی۔ عمرانی حکومت جب آئی تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ چینی کی قیمت تین روپے کلو بڑھا دی۔ تاجروںکو بیٹھے بٹھائے اربوں روپے کا ثواب ہو گیا لیکن نیک بندے‘ بالخصوص نیک بندے راہ ثواب پر چلتے ہیں تو رکتے کہاں ہیں۔ ثواب در ثواب کی چاہ کرتے ہیں۔ چنانچہ بات تین روپے تک نہیں رکی۔ بڑھتی گئی اور اب تو ہرمہینے چینی کی قیمت میں کل ملا کے پندرہ سے بیس روپے کلو کا اضافہ ہو گیا ہے۔ ثواب کا ڈھیر ہمالیہ پہاڑ سے بھی اونچا ہو گیاہے۔ سنا ہے بعض مقامات پر چینی 70اور 73روپے کلو بک رہی ہے۔ متحدہ کسان محاذ نے کہا ہے کہ گنے کی قیمت تو ذرا بھی نہیں بڑھی پھر سابق دور میں 50روپے کلو ملنے والی چینی 65اور 70روپے کلو کیونکر ہو گئی۔ نادان لوگ‘ ثواب کمانے پر اعتراض کرتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ سٹیفن ہاکنگ ماہر معیشت حفیظ پاشا نے کہا ہے کہ حکومتی پالیسیوں سے اگلے دو برس میں مزید 80لاکھ افراد خط غربت سے نیچے لڑھک جائیں گے۔ یعنی اللہ اللہ کرنے والے لوگوں کی تعداد 80لاکھ بڑھ جائے گی۔ کوئی پوچھے گا کیا حال ہے تو یہی کہیں گے کہ بس اللہ کا نام ہے۔ ویسے حکومت جس برق رفتاری‘ بقول وزیر اعظم سپیڈ کی لائٹ سے کام کر رہی ہے‘ اس سے تو لگتا ہے کہ اشرافیہ کے سوا باقی ساری آبادی ہی دو سال بعد اللہ اللہ کرنے لگے گی۔ حکومت سلامت‘ اس کی سپیڈکی لائٹ سلامت ‘ قوم کی خیر ہے رہے نہ رہے۔