ڈاکیا ، وہ کردار جس پر نظمیں لکھی گئیں،ڈاک بنگلہ ،جسے فلموں میں ایک شاعرانہ مزاج بابو کا ٹھکانہ دکھایا جاتا، گانا ، چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے ۔یہ سب ایک دوستانہ اور ناسٹلجیک احساس دلاتے ہیں ۔اب زمانہ بدل گیا ، ڈاک کا محکمہ اور اس کے بابو بھی۔ایک مدت تک تباہ حالی رہی اب پاکستان پوسٹ کا احیاء ہوا ہے لیکن بگڑے معاملات مزید توجہ چاہتے ہیں۔اس میں نجی کورئیر کے معاملات بھی شامل ہیں جن کی بابت وزارت مواصلات شکایات کا جائزہ لیتی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اپنا قصہ گوش گزار کروں سینئر صحافی اسلم ملک صاحب پر جو بیتی وہ پڑھ لیں۔وہ بتاتے ہیں:کورئیر سروس سے بھیجا گیا یہ پیکٹ مجھے 9 ویں دن ملا۔ بہانہ یہ کیا گیا کہ ایڈریس کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ حالانکہ مجھے روزانہ ہی ڈاک خانے سے بھیجے گئے خطوط اور پیکٹ ملتے ہیں اور ان پر بھی یہی پتہ درج ہوتا ہے۔ سمن آباد موڑ یوں سمجھیں لاہور کی ناف ہے۔ سب جانتے ہیں۔ کورئیر وہاں پہنچ جائے تو ممکن ہی نہیں کہ اپر جنک نگر کا پتہ نہ چلے۔ وہ موڑ سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ کچھہ عرصہ پہلے ایک دوست نے مجھے کورئیر کے ذریعے کتاب بھیجی۔ ایک ہی شہر میں دس بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر تین دن بعد پہنچی۔ وجہ یہ ہے کہ کورئیر والوں کا علاقہ بہت وسیع ہوتا ہے اور وہ گلی محلے نہیں جانتے، ایڈریس نہیں سمجھتے۔ ڈاک سے تو آپ بغیر پیسے خرچ کئے، بغیر ٹکٹ لگائے بھی خط ، کتاب بھیج سکتے ہیں ، وہ ’’بیرنگ ڈاک‘‘ زیادہ محفوظ طریقے سے پہنچے گی۔ محصول ڈاک (دوگنا ) وصول کرنے والے سے لیا جائے گا۔ آپ کا پوسٹ مین آپ کے بچوں کے نک نیم تک جانتا ہے، اسے یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ آپ کی بیٹی یا بہن کس شہر میں بیاہی ہے۔ آپ کا بھائی یا بیٹا کس ملک میں رہتا ہے۔ آپ کا سسرال اور میکہ کہاں ہے۔ آپ کہاں کام کرتے ہیں۔ فلاں کالج یا یونیورسٹی سے خط آیا ہے تو کس کا ہوسکتا ہے۔ اب میری سن لیں :ہمارے دوست خالد لودھی صاحب نے دو ماہ پہلے لندن سے کتابیں ارسال کیں،آٹھ دن کے بعد پاکستان پوسٹ کی تحویل میں ٹریس کیں، تین ہفتے تک ان کے پاس رہیں ، مراد سعید سے کہا، انہوں نے اپنے ایک افسر کو ہدایات دیں،پھر بھی مزید تین دن لگ گئے۔پاکستان پوسٹ والوں کا کہنا ہے ایکسائز والے بروقت سامان کلیئر نہیں کرتے جس سے پاکستان پوسٹ کی کارکردگی متاثر ہو رہی ہے،برادرم مراد سعید خود مطالعہ پسند ہیں انہیں ادراک ہو گا کہ کتاب سے محبت کرنے والوں کے لئے یہ صورتحال کس قدر پریشان کن ہے۔ ایک قاری یاسر الیاس کا کہنا ہے :تجربے تجربے کی بات ہے سر... میرے کچھ ماہانہ شمارے آتے ہیں، اور بذریعہ ڈاک آتے ہیں مارچ کا شمارہ، اپریل شروع ہونے سے دو چار گھنٹے قبل ہی موصول ہوتا ہے۔اور جتنی شمارے کی قیمت ہوتی ہے، اتنی لاگت کی ٹیلی فون کال کی ہوتی ہیں محکمہ ڈاک کے مختلف نمبروں پر۔ ایک اور کتاب دوست کی سن لیں۔ ذیشان حیدر کہتے ہیں:سرگودھا یونیورسٹی نے میرا اپوائنٹمنٹ لیٹر18 فروری کو ارسال کیا جو ضلع سرگودھا میں ہی واقع میرے گاؤں، جو کہ سرگودھا سے محض 50 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، 8 مارچ کو پہنچا. 50 کلومیٹر کاسفر 18 دن میں طے ہوا. مرزا ظفر اقبال کے بقول : جو نارمل ڈاک ہے وہ تو ڈاکئے کے ذریعے بروقت پہنچ جاتی ہے، محکمہ ڈاک نے جو UMS کورئیر شروع کی ہے وہ ایک اور ڈاکیا لے کر آتا ہے اور وہ بدتر ہے، میرا ایک دعوتی کارڈ جو ملتان سے بھیجا گیا "مکتوب الیہ دستیاب نہ ہے" کر کے واپس بھیج دیا گیا ۔ لیاقت علی وینس کی شکایت ہے کہ پیکٹ نہیں پہنچتے یا واپس آجاتے ہیں۔ہم مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ڈاک خانے کا نظام بہت پسماندہ ہے۔1 مہینہ تو عام بات ہے وی پی واپس آنے میں۔بہت سے پیکٹ گم ہو جاتے ہیں۔ نگہت سلیم کہتی ہیں : ڈاک خانے والے اپنے ہاں سے ڈاک بھیجنے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں انٹرنیشنل ڈاک کے لیے تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ جی پی او جائیں ·ایک تجویز آئی ہے کہ ڈاک والے نجی کمپنیوں کی طرح پرائم لوکیشنز اور مارکیٹ میں اپنے دفاتر کھولیں اور تھوڑے شیشے وغیرہ بھی لگائیں عام لوگ اسی سے متاثر ہوتے ہیں مظہر فاروق کی شکایت ہے کہ: حال ہی میں ڈی جی خان سے بذریعہ پاکستان پوسٹ ایک رجسٹری میرے نام کراچی ارسال ہوئی، ٹریکنگ سروس کے ذریعے پتہ چلا کہ قریبی پوسٹ آفس میں ڈاک پہنچ گئی لیکن دس دن گزرنے پر جب مطلوبہ پتے پر نہ پہنچی تو خود پوسٹ آفس جانا پڑا۔بے ترتیب پڑے ڈھیر میں مشقت کے بعد رجسٹری شدہ ڈاک ملی ۔ وہ شاعر بے مثال مجید امجد نیاپنی نظم ،لاہور میں ، کہی تھی ؛ ڈاک خانے کے ٹکٹ گھر پر خریداروں کی بھیڑ ایک چوبی طاقچے پر کچھ دواتیں۔اک قلم یہ قلم میں نے اٹھایا اور خط لکھنے لگا پیارے ماموں جی! دعا کیجیے۔ خدا۔رکھ لے۔ بھرم/آج انٹرویو ہے! کل تک فیصلہ ہو جائے گا/دیکھیں کیا ہو؟ مجھ کو ڈر ہے/ہے…/’’اک ذرا تکلیف فرما کر پتہ لکھ دیجیے‘‘/میں نے تم سے وہ لفافہ لے لیا/ جھجکا نہیں بے دھڑک لکھ ڈالا میں نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ/ مختصر رنگین پتہ’’گلگت میں۔ گوہر خاں کے نام‘‘/ ’’شکریہ‘‘ ’’جی کیسا‘‘ اک ہنستی نگہ زیر نقاب/ ڈاک میں خط۔تانگہ ٹیمپل روڈ کو ۔قصہ تمام