ایک جھگڑے سے فرصت نہیں ملتی کہ دوسرے کی تلاش کا شوق فراواں دامنگیر رہتا ہے۔ عادت ہے یا پیشہ اہل فن کا کچھ سمجھ نہیں آتا۔ وطن ہے ‘ قوم ہے لیکن فساد کا دلدر گھر میں موجود رہتا ہے۔ پریشانی بڑھتی ہے اور پریشانی کو بڑھانے کے لئے بھی پریشان رہنا مزاج کا مستقل مشغلہ ہے۔ یہ مشغلہ دل ناصبور اپنی قلمرو کا رقبہ پر آن بڑھاتا ہے۔ کیا واعظ اور کیا دانشور اور کیا لکھاری عاقبت نااندیشی کے نشہ میں چور پریشانی سے بغلگیر ہونے کے لئے افتاں و خیزاں حرکت میں رہتے ہیں۔ دشمن بہت بیدار رہتا ہے۔ وہ ذہنی خلفشار کو اپنی فریب کارانہ واردات کے ذریعے سے روز بروز عروج دے رہا ہے۔ اہل مکر ان کا آلہ و کار ہیں۔ اپنی صلاحیتوں سے یہ اہل مکر نت نئے انداز فساد ایجاد کرتے ہیں۔ بظاہر قوم کا درد ان کے ہر انگ انگ میں اٹھتا نظر آتا ہے اور لوگ بے چارے درد فروشوں کے ہمدرد بن جاتے ہیں۔ ہنگامہ اٹھتا ہے فساد کی منظم شکل نظر آتی ہے تو کچھ غم خواروں کے سانس پھولتے ہیں‘ کم فہمی کے سبب ان کی آواز قلم اور زبان یکسانیت سے درد فروشوں کی حمایت میں پوری قوت سے برسر اظہار ہوتے ہیں۔ بے چارے سہم جاتے ہیں اور قوم کو بھی خوف دلواتے ہیں کہ یہ آندھی اٹھ رہی ہے۔ ابھی طوفان بن جائے گا اور پھر عذاب کی شکل میں بدل کر قوم کو نزع کی کیفیت سے دوچار کر دے گا‘ اس لئے بچو‘ ڈرو اور ان کے مطالبات پر غور کرو پھر ان کی دھمکی آمیز خواہشات کے سامنے سر تسلیم خم کر دو۔گزشتہ ایام دھرنوں کی دمادم سے پوری قوم اذیت سے گزری اور بالآخر گرجتے بادل بے برسے گزر گئے۔ کس کے رزق میں اضافہ ہوا؟ اور کس کو رہائی نصیب ہوئی اور کون ظالم پھر سے صف مظلوماں میں آن براجا‘ سب نے اندازہ کر لیا۔ روایتی قزاق تو اب بھی ٹولوں میں منظم تقسیم کے مطابق لوٹ مار اور اجتماعی بے حسی کو فروغ دے رہے ہیں۔ نام اور شناخت مختلف ہے مگر قوم دشمنی میں کامل اتفاق ہے۔ کمزور عوام پر ہر طرز کا تسلط قاعدے اور ضابطے کے نام پر مسلسل وارد ہو رہا ہے۔ دشمن بیدار ہے اور منافقین متحرک ہیں۔ ذرائع خبر اور وسائل اطلاع پوری طرح سے ایسے دگرگوں حالات کو مزید قوی سے قوی تر بنانے میں اپنی اجرت کے بدلے میں انارکی کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ شام کی اطلاعات اور صبح کی خبریں ایسی کی دشمن حمایت کارروائیوں سے بھر پور ہوتی ہیں۔اب ایک نیا سلسلہ ہے کہ قوم کی ریڑھ کی ہڈی یعنی نوجوانان ملت کو ملی یکجہتی اور دو قومی نظریے سے یکسر ہٹا دیا جائے اور تعلیم و تربیت کے نظام کی کمر توڑنے کے لئے تعلیمی اداروں میں غیر تعلیمی سرگرمیوں کو آزادی فکر اور سیاسی تربیت کے نام پر قانونی تحفظ دینے کا اہتمام کیا جائے۔ ہمارے وطن میں تعلیمی نظام کی جو ابتری ابھی تک درست نہیں ہو سکی ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن اہم ترین اور بنیادی وجہ افکار فرنگ کی قبولیت اور دو قومی نظریے سے فرار ہے۔ ہمارے تعلیمی امور کے نیتا بغیر کسی طے شدہ فکر اور مرتب نظام کے تعلیمی اداروں میں تعلیم کشی کا اہتمام کرتے ہیں اور قوم کو مطلوبہ جہالت کے گہرے گڑھوں میں اتارنے کا اہتمام بلیغ کرتے ہیں۔تعلیمی اداروں میں قومی یکجہتی‘ دین اسلام کی حمیت اور انسانی اخلاقیات کی تعلیم کا اہتمام بالکل ہی عنقا ہو چکا ہے اوپر سے نافذ ہونے والا تعلیمی نظام اور مقامی طور پر پیدا ہونے والی لسانی ‘ طبقاتی‘ نسلی اور مسلکی عصبیتوں نے طلبا کے اذھان میں تنگ نظری اور خود پرستی کے مستقل اثرات اتار دیے ہیں۔ بے چارے سیاستدانوں کے حاشیہ خیال میں بھی یہ ضرورت موجود نہیں ہے کہ وہ ہر دور کی نسل نو کے لئے حب الوطنی اور منظم ملی فکر کی ترویج کے لئے کیا کریں اور وہ کیا کر سکتے ہیں‘ یہ تو بے چارے امور سلطنت چلانے کے لئے بہت سے سفید ہاتھیوں کے محتاج ہوتے ہیں۔اور اپنی سیاسی بساط کی وسعت کے لئے وطن دشمن ‘ دین فروش اور نظریہ پاکستان کے مخالفین کی مدد و اعانت کے بھکاری ہوتے ہیں۔ سیاسی ٹولے اسی طرح سے مضبوط ہوتے ہیں۔ ایک عرصے سے طلبہ یونین پر پابندی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اثرات تعلیمی اداروں میں کم ہو رہے تھے سیاسی جماعتوں کو شعور و شغب برپا کرنے کے لئے نوجوان جذباتی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ جذباتی قوت تعلیمی اداروں سے آسانی سے میسر آ جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں میں مذہبی تعلیمی اداروں کے نوعمر نوجوان طلبہ نے سیاسی دھرنوں کو یہ قوت فراہم کی تھی اور پھر سے وہ لوگ بیدار ہو گئے جنہوں نے ماضی میں تعلیمی اداروں کی قوت سے اپنی انتخابی مہمات کو متحرک کیا تھا۔ کالجز اور جامعات کے غریب اور مذہب پرست طلبہ کو ان کی متعلقہ ضرورت کی تسکین کے لئے ایسے پرفریب نعروں اور وعدوں کو متعارف کروایا تھا۔ طلبہ اپنی انا کی تسکین اور اپنے مستقبل کی بقا ان مذہبی اور سیاسی جماعتوں سے وابستہ سمجھتے تھے۔ کالجز میں اور یونیورسٹیز میں منظم مذہبی گروہوں اور سیاسی جماعتوں کی بھر پور اعانت سے وجود میں آنے والی طلبہ تنظیموں میں باہمی مناقشت نے قوم کو حصوں بخروں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اسلام کے غلبے کا نعرہ لگانے والی جماعتوں نے اپنے اپنے افکار اور طے شدہ نصاب کی بدولت طلبہ کو مسلکی اور جماعتی ٹولیوں میں تقسیم کر دیا اور ان کو متحارب گروپوں کی مستقل شناخت دی اور بدقسمتی کا گراف اتنا بڑھا کہ دین اور اخلاق کا پرچار کرنے والوں نے ایک دوسرے کی عزت اور جان کو پامال کرنا اپنے نزدیک ایک قابل اجر عمل قرار دے لیا۔ مذہبی طلبہ تنظیموں کی کارکردگی سے واقف لوگ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ دوسری جانب غیر مذہبی جماعتوں کے طلبہ گروپوں نے تعلیمی اداروں میں اپنے رہنمائوں تربیت کا جو مظاہرہ کیا وہ بھی اہل علم اساتذہ ‘ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کے ورق ذہن پر ابھی تک تازہ ہے۔ دین بیزار سیاسی قیادت اسی گروہ کا عطیہ ہے تعلیمی اداروں میں طلبہ کی ملی، فکری اور اجتماعی اخلاقی تربیت کے لئے محب وطن اور پرخلوص اہل علم اساتذہ کو یہ اہم فریضہ سونپا جائے کہ کالجز اور جامعات میں مسلکی‘ جماعتی تعصب اور گروہ بندی سے بلند ہو کر اسلامی اخلاقیات اور نظریہ پاکستان کے ذہنی و عملی فروغ کے لئے مختلف سطح پر تحریری ‘ تقریری اور ادبی‘ مطالعاتی تربیت کا نتیجہ خیز اہتمام کیا جائے۔ توحید و رسالت کی فکری ضرورت‘ اکابر ملت کے ملی کردار اور امت مسلم کے اتحاد جیسے موضوعات پر تسلسل سے نسل نو کو آگاہ کیا جائے۔ کالجز اور یونیورسٹیز کے فنڈز کو کسی بھی طلبہ گروہ کے لئے مخصوص نہ کیا جائے بلکہ مستحق طلبہ کی امداد و اعانت کے لئے گروہی بندشوں سے آزاد ہو کر مالی امداد کا دائرہ وسیع کیا جائے۔ سیاستدانوں اور مسلکی نمائندہ لوگوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے۔ جناب وزیر اعظم پاکستان پاکستان بھر کی یونیورسٹیز کے اعلیٰ ذمہ داران کے ساتھ ایک مفید اور ثمر آور اجلاس کریں۔ ان سے تعلیمی ضروریات ‘ طلبہ کی تربیت کے بارے میں پرخلوص اور دیانتدارانہ قابل عمل آرا طلب کریں کیونکہ وہ اصلاح احوال کے لئے بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔