باب حریم حرف کو کھولا نہیں گیا لکھنا جو چاہتے تھے وہ لکھا نہیں گیا اک حرف محرمانہ لہو میں اتر گیا پھر اس کے بعد ہم سے بھی سوچا نہیں گیا اہل علم کو پڑھیں یا سنیں تو علم کے دروا ہوتے ہیں اور اس میں بھی آپ کی توجہ کا عمل دخل ہے وگرنہ سنا سنایا اور پڑھا پڑھایا ایک برابر ہوتا ہے۔ ویسے تو یگانہ نے کہا تھا کہ علم کیا علم کی حقیقت کیا۔ جیسی جس کے گمان میں آئی ہارون الرشید صاحب کا کالم نظر نواز ہوا تو انہوں نے اپنے ساحرانہ انداز میں علم عقل اور شعور کی بات کی۔ عالمانہ انداز دل کو بھاتا ہے اور اگر تخلیقی اسلوب ہو تو سونے پر سہاگا۔ دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا میں نے یہ سوچا تاکہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ کوئی شخص بھی اپنے مافی الضمیر کے اظہار پر قادر نہیں ہوتا۔ بس بساط بھر کوشش کرتا ہے۔ گوش برآواز بیٹھا شخص بھی مقدوربھر خوشہ چینی کرتا ہے۔ سہل ممتنع کی تعریف بھی یہ ہے کہ اتنی آسان اور سہل بات کہ ابلاغ کرے تو کمال کر دے ہر کوئی یہ سمجھے کہ وہ یہ بات کر سکتا ہے مگر کوشش کرے تو بے بس نظر آئے: اے سعد فن یہی ہے کہ کہہ جائے آدمی مشکل ترین بات بڑی سادگی کے ساتھ ڈاکٹر ناصر قریشی گھر پر آئے تو ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں تو احمد جاوید صاحب کا تذکرہ ہونے لگا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ایک زمانے میں جب وہ شہزاد احمد سے ملنے آفیسرز کالونی 31/Dمیں آتے تھے تو ہم دیکھتے کہ ایک باریش خضر صورت کوئی آتا ہے جو ہماری دنیا کا آدمی نہیں تھا۔ ہم بھی تو بڑی ہوائوں میں ہوتے تھے۔ شعر و شاعری مشاعرہ اور ادبی نشستیں۔ احمد جاوید کو ہم در خور اعتنا ہی کہاں سمجھتے تھے۔ اب جا کہ جب کچھ سوجھ بوجھ ملی اور شعور نصیب ہوا تو پتہ چلا کہ احمد جاوید تو ایک غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال ایک مدیر و مفکر شخص ہیں جن کا فیض جاری ہے۔ہم فقیروں سے دوستی کر لو گُر سکھا دیں گے بادشاہی کا۔ ڈاکٹر ناصر قریشی کہنے لگے کہ احمد جاوید کے دو جملے وہ کبھی نہیں بھولتے اور وہ ایسے دو جملے ہیں جو کسی عام شخص کے ساتھ شیئر بھی نہیں کئے جا سکتے۔ میں نے کہا کہ وہ کسی عام آدمی یعنی میرے جیسے کم علم کو دوستی کی بنیاد پر استثنا دے دیں اور جملے شیئر کریں۔کہنے لگے کہ انہوں نے ایک مجلس میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سوال دو قسم کے ہوتے ہیں ایک سوال وہ ہوتا ہے جو فنا چاہتا ہے اور دوسرا وہ جو بقا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ جواب پا کر کچھ سیکھیں اور اس سوال کا جواب مل بھی جاتا ہے۔ دوسرے وہ لوگ جو سوال اس نیت سے کرتے ہیں کہ دوسرے کو لاجواب کرنا ہے اور سوال حل طلب نہیں ہوتا اور سوال برقرار رہتا ہے۔یہ بالکل وہی بات ہے کہ کچھ لوگ مکالمہ کرتے ہیں کہ مسئلے کے حل تک پہنچ کر فیض پائیں اور بعض مکالمہ صرف دوسروں کو لاجواب کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ پہلے والے لوگ زرخیز ہوتے ہیں وہاں سچ نمو پاتا ہے دوسرے وہ جو ناقابل اصلاح اور بنجر ہوتے ہیں اقبال نے بھی تو کہا تھا ناں کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ دوسری بات انہوں نے زمان و مکاں کے حوالے سے کی یعنی Time and Spaceاس پر احمد جاوید نے تین طویل لیکچرز دے رکھے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ یہ دونوں حالتیں حضوری اور غیاب کی ہیں کہ آپ حاضر ہیں یا غائب ہیں۔ جو کر رہے ہیں وہ حال ہے اور مستقبل میں آپ کا غیاب ہے۔کہاں تک سنو گے زمیں سے زمیں تک مری داستان کمال و عروج ۔میں پہلے حصار بدن میں رہا پھر اسیر زمان و مکاں ہو گیا۔ مجھے نہیں پتہ کہ یہ کہاں تک میری بات کو سہارا دے رہا ہے مگر شاعرانہ احساس ذرا سا تو مختلف ہوتا ہے۔ مگر کچھ بھی اس زمان و مکاں سے باہر نہیں۔ظاہر ہے انسان تو آسمان اور زمین کی حدود کو تو پھلانگ نہیں سکتا۔بلکہ مجھے منیر نیازی کی ایک مختصر سی خوبصورت نظم یاد آ گئی: سیاہ شب کا سمندر سفید دن کی ہوا انہی قیود کے اندر فریب ارض و سما ویسے علم عقل اور شعور کی بحث اپنی جگہ کہ یہ اپنے ہی تقاضے رکھتی ہے۔ بلکہ یہاں بھی تقاضا اور مقتضا کی بات ہوئی کہ تقاضا خارجی ہے اور مقتضا داخلی ہے۔ بلکہ یوں کہیں کہ تقاضا وقت کی ضرورت ہے جبکہ مقتضا ایک فطری عمل ہے۔ آپ بھی کہتے ہوں کہ ایک کم علم بلکہ بے علم سے علم کی باتیں چہ معنی دارد۔ویسے کم عمل اور بے علم میں بھی ’’علم‘‘تو موجود ہے۔ خیر بات میں کچھ اور کرنا چاہتا تھا کہ اقبال کو پڑھتے ہیں تو وہ بلھے شاہ کی طرح کہتا دکھائی دیتا ہے کہ علموں بس کریں او یار۔وہ تو دل پر زیادہ زور دیتا ہے اور کہتا ہے کہ عقل ہے محوتماشائے لب بام ابھی اور یہی قلندروں کا طریق ہے۔جہاں زباں ہی دل کی رفیق ہے۔ ہارون الرشید صاحب نے کہا کہ انسان کے پاس علم بہت ہی محدود ہے۔میں سوچنے لگا کہ پھر بھی انسان ہوا میں اڑتا پھرتا ہے ستاروں پر کمندیں ڈالتا ہے اور سمندر سے گوہر نکالتا ہے اور پھر کیسے کیسے بکھیڑے پالتا ہے۔ انسان خود بھی تو محدود ہے اور اللہ لامحدود۔لگتا ہے انسان آشکار ہوا تو محدود ہو گیا اس کے سراپا نے اسے احاطہ میں بند کر دیا اس کی محفل بھی محدود تو اس میں لامحدود کیسے سمائے گا۔ مگر اک دل تو ہے کہ جہاں تو سما سکے۔درد نے کہا تھا: دونوں جہاں کہاں تیری وسعت کو پا سکے اک دل ہی وہ جگہ ہے جہاں تو سما سکے بس کیا کیا جائے ڈبویا مجھ کو ہونے نے‘نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا۔ویسے مجھے تو جہالت اس لئے پسند ہے کہ بندے میں علم حاصل کرنے کی گنجائش موجود رکھتی ہے وگرنہ جو علم رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں جہالت نظر تک نہیں آتی۔وہ اسے پہچانتے تک نہیں اور یہ ایک خوفناک بات بھی ہے۔ جہالت کو پہچاننا توفیق کی بات ہے تو فیق سوائے اللہ کے اور کہیں سے نہیں ملتی۔ آخری بات یہ کہ علم تبھی علم کہلائے گا جب یہ عمل سے آشکار ہو گا اور عقل بھی تب عقل ہے کہ عقل دینے والے کو پہچانے اور پھر دل بھی دل تب ہے جب یہ عمل سے آشکار ہو گا۔ باقی رہی بات شعور کی وہ تو سپریم ہے کہ ادراک کرے وگرنہ وہ لاشعور کا حصہ بن جائے گا۔واقعتاً عمل ہی سے زندگی بنتی ہے اور علم راستے کی روشنی ہے۔لیجئے ایک شعر موزوں ہو گیا: علم و عمل سے ماورا گو دل کی بات ہے لیکن اگر شعور ہو یہ دل بھی ساتھ ہے