ہم تو دریا تھے کسی سمت تو بہنا تھا ہمیں کیا خبر کس نے تری سمت ہمیں موڑ دیا بسوں کے پیچھے لکھا ہوا آپ نے بھی پڑھا ہو گا کہ ’’نہ چھیڑ ملنگا نوں‘‘سب لاہور قلندر کے پیچھے پڑے ہوئے تھے اور وہ بھی کب سے بھرے بیٹھے تھے۔ اب جو ان کا بس چلا تو وہ گلیڈیٹر پر چڑھ دوڑے اور 92نیوز نے خوب سرخی جمائی کہ قلندر کی دھمال گلیڈی ایٹر بے حال‘ قلندر جب اپنی آئی پر آئے تو رنز کا پہاڑ کھڑا کر دیا۔209کے جواب میںگلیڈی ایٹر صرف 172رنز ہی بنا سکے۔لاہور قلندر کے سپورٹرز تھوڑے سے بحال ہوئے اور تھوڑے سے نہال کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔قلندر کے زوال آمادہ کمال پر خاصے تبصرے ہوتے رہے۔ عاقب جاوید کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ خاص طور پر شعیب اختر زیادہ تپے ہوئے تھے تو عاطف رانا نے انہیں فون کر کے کہا کہ ذرا ہاتھ ہولا رکھیں۔شاید آئندہ سیزن میں لاہور قلندر کے ہیڈ کوچ آپ ہوں۔یعنی جو بولے وہی کنڈا کھولے‘ قلندر کی نفسیات بھی خالصتاً پاکستان ٹیم جیسی نکلی کہ ہم جیسا نہ کوئی ہارتا ہے اور نہ کوئی جیتتا ہے۔ آر یا پار۔ جو رکے تو کوہ گراںتھے ہم جو چلے تو حد سے گزر گئے۔ مجھے بہت اچھا لگا کہ لاہور قلندر پر میرے لکھے ہوئے کالم کا خوشگوار ردعمل آیا۔ کاشف رفیق کہ کرکٹ جن کا جنون ہے نہ اسے نہایت دلچسپ غیر سیاسی کالم کہا تو جماعت اسلامی کے کچھ لوگوں نے اسے تفنن طبع کا شاخسانہ سمجھنے کی بجائے سنجیدگی سے لیا۔ ان کا کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ جماعت اسلامی الیکشن ہارنے کے لئے لڑتی ہے اور اسے اس بنا پر لاہور قلندر کے مماثل کہا گیا مگر جماعت اپنے مشن یعنی خلق خدا کی خدمت پر قائم ہے۔ مگر آپ نے پی ٹی آئی کو لاہور قلندر کیوں قرار نہیں دیا کہ وہ اپنے کسی منصوبے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ بلکہ انہوں نے تو منصوبے اور صوبے صرف ہوا ہی میں بنائے۔ باقی رہی بات ان کے انتخاب جیتنے کی۔ ایسے تو جماعت اسلامی بھی جیت سکتی ہے۔میرے پیارے قارئین !آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں باقاعدہ کوئی لاہور قلندر پر لکھنے بیٹھا ہوں۔ بہرحال یہ وضاحت ضروری تھی مجھے تو آج اور قسم کے قلندروں پر بات کرنی ہے۔ وہ قلندر جو کسی کے عشق میں مبتلا ہیں پہلے ان کی نذر ایک شعر: میں نے کہا کہ کس طرح جیتے ہیں لوگ عشق میں اس نے چراغ تھام کے لو کو بڑھا دیا کہ یوں میری مراد وہ قلندر ہیں جنہوں نے نواز شریف کو مسئلہ بنایا ہوا ہے کہ جیسے دنیا میں ایک یہی مسئلہ رہ گیا ہے۔ بلاول نے کیا غلط کہا ہے کہ عمران نے نواز شریف کو خود بھیجا اب جھوٹ بولیں نہ رونا روئیں۔ اس حوالے سے محترم عارف نظامی نے کافی تفصیل سے لکھا ہے جس کے بعد اس رائے سے اختلاف ممکن نہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قبلہ آپ کتنی لسی اور بنائیں گے۔ آپ کے دہی اور دودھ کا رنگ بھی نیل گوں ہو چکا ہے۔ یہ ایک بے کار کی سرگرمی ہے جس میں آپ نے خود کو نڈھال کر رکھا ہے۔ اپنی آدھی طاقت آپ نے نواز شریف کو بھیجنے میں صرف کر دی اور اب بچی ہوئی آدھی طاقت اس کو واپس لانے میں خرچ کر دیں گے۔ آپ کے لئے ہی منیر نیازی نے کہا تھا: جانتے تھے دونوں ہم اس کو نبھا سکتے نہیں اس نے وعدہ کر لیا میں نے بھی وعدہ کر لیا آپ تو اسحاق ڈار کو واپس نہیں لا سکے اور نواز شریف تو ان کے فیورٹ ہیں کہ جو اپنی عیدیں تک وہاں مناتے ہیں۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ نواز شریف کے یہاں ہوتے ہوئے آپ زیادہ اپ سیٹ تھے دوسری سچی بات یہ کہ آپ کے پاس کرنے کے لئے کچھ نہیں صرف وعدے اور دعوے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم نے دعویٰ کر دیا ہے کہ 2020ء نوکریاں دینے اور شرح نمو بڑھانے کا سال ہے۔ کم آمدنی والے طبقے کے لئے ہائوسنگ منصوبوں پر تیزی سے کام کیا جائے۔بات تو ہے لوگوں کے اعتبار کرنے کی۔ جب تک کوئی منصوبہ سامنے نہیں آتا تب تک لوگ آپ کی بات پر دھیان نہیں دیں گے۔ اب تک تو آپ سب ایک کورس میں مخالفوں کو چور چور اور ڈاکو ڈاکو کہتے آئے ہیں اور اس بات سے آپ یکسر بے خبر تھے کہ آپ کی بکل میں بھی کچھ چور تھے۔ اب نتیجہ یہ نکلا کہ مشاہداللہ نے بھی اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر چور چور اور ڈاکو ڈاکو والی قوالی آپ کے خلاف شروع کر دی تو پی ٹی آئی کی برداشت جواب دیدے گئی اور فیصل مشاہد اللہ کی طرف بڑھ گیا۔ مشکل سے بیچ بچائو ہوا۔ اب بقول نوید مرزا: ایک لہجے میں بولتے ہیں سبھی کون سچا ہے کون جھوٹا ہے سب کام ایسے ہو رہے ہیں کہ جو عوام تو کیا خود کرنے والوں کی سمجھ میں نہیں آ رہے۔ اب نیب نے شہباز شریف کے خلاف 12پلاٹوں کی انکوائری بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے پتہ چلا ہے کہ شہباز شریف کے خلاف شواہد نہیں ملے۔ کچھ نہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ دونوں بڑی جماعتوں کی طرف سے گرین سگنل ہے کہ وہ پانچ سال انتظار کریں گے تاکہ عمران کی مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکل جائے۔ ویسے ہی غبارہ عدم ہوا کے باعث زمین پر تو آ چکا۔ پہلے بھی اس غبارے میں وہ ہوا نہیں بھری گئی جس سے وہ زیادہ اونچا نکل کر ہوا بھرنے والوں کی دسترس سے نکل جائے۔حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ قیمتی وقت جو پی ٹی آئی کو میسر آیا ہے وہ طعنوں اور تنقید برائے تنقید پر ضائع کر رہے ہیں۔وہی فراز کا مقبول شعر: شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے مجھے اچانک خیال آیا کہ سینٹ میں اپوزیشن کے نعرے یعنی ’’آٹا چور چینی چور‘‘ درست نہیں ہیں چینی چور کی بجائے کھنڈ چور یا شوگر چور کر لیں تو بہتر ہو گا چینی کا لفظ محل نظر ہے۔ ویسے فیصل جاوید کو ہاتھا پائی کے لئے آگے نہیں بڑھنا چاہیے تھا۔ یہ سارے نعرے تو ان ہی کے نعروں کی بازگشت ہے۔ ن لیگ والے چور چور ڈاکو ڈاکو سن سن کر اتنے تنگ آ گئے کہ انہوں نے انہی کی ادا کو اپنا لیا۔ دونوں طرف سے ایک دوسرے کا تعارف ایک ہو گیا ،نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز۔ یعنی ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز۔ میرا خیال ہے کہ اب کے تالاب کو دو مچھلیوں نے خراب کیا ہے جبکہ محاورے میں ایک مچھلی تالاب کو گندا کرتی ہے۔ اس کے مقابلے میں تو ایک انار سو بیمار والی بات ہے۔ جب بلاول بھی بولنے لگے تو پھر چھاج تو بولیں گے۔ ابھی میں نے کالم ختم نہیں کیا تھا کہ ڈاک سے رانا سعید دوشی کا شعری مجموعہ’’زمیں تخلیق کرنی ہے‘‘ موصول ہوا تو سوچا کیوں ناں اپنے پڑھنے والوں کو ایک خوبصورت سا شعر پڑھوا دوں۔ایسے لگتا ہے دوشی نے یہ میرے لیے لکھا ہے: عشق کے نام پہ خیرات بھی لے سکتے ہیں یہ وہ صدقہ ہے جو سادات بھی لے سکتے ہیں